عظیم شخصیات

شاہ فیصل نعیم  منگل 7 جولائی 2015
اِس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ جو انسان جتنا عظیم ہوگا وہ اُسی تناسب سے مثبت سوچ کا حامل ہوگا۔ فوٹو: رائٹرز

اِس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ جو انسان جتنا عظیم ہوگا وہ اُسی تناسب سے مثبت سوچ کا حامل ہوگا۔ فوٹو: رائٹرز

آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ حالات و واقعات اور انسانوں کے بارے میں اُس کی منفی سوچ ہے۔ دنیا کے بہت سے مسائل انسان کی چھوٹی سوچ کا ہی ثمر ہیں۔ وہ سوچوں ہی سوچوں میں مرتا بھی ہے مارتا بھی ہے، سنوارتا بھی ہے بگاڑتا بھی ہے، کافر بنتا بھی ہے بناتا بھی ہے اور بہت سی مشکلات کو جنم دیتا بھی ہے اور سُدھارتا بھی ہے۔ انسان کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے یا جن انسانوں سے اُس کا واسطہ پڑتا ہے۔ وہ انسان کو اُس وقت بُرے تو ضرور لگتے ہیں مگر اُن کے نتائج انسان کے حق میں بہتر ہوتے ہیں یہی بات زندگی کے مختلف موڑ پر ملنے والے انسانوں پر بھی صادق آتی ہے، کوئی انسان کیسا بھی بُرا کیوں نا ہو وہ مکمل بُرا نہیں ہوسکتا اُس میں کوئی نا کوئی اچھائی ضرور ہوتی ہے جو اُس کی بقا کی دلیل بھی ہے۔

کوئی انسان جتنا عظیم ہوگا وہ اُسی تناسب سے مثبت سوچ کا حامل ہوگا۔ مختلف عظیم انسانوں کی زندگی سے حالات و واقعات، انسانوں اور زندگی کے بارے میں اُن کی مثبت سوچ کے کچھ واقعات میرے ہاتھ لگے ہیں جو میں آپ کے لیے تحریر کر رہا ہوں۔

یہ طائف کے لوگوں کے ناروا سلوک کے ستائے ہوئے اور سفری مشکلات سے تھک کر طائف کی وادی میں پناہ لینے والے محسنﷺ کی زندگی کے سنہرے باب کا ایک حسین واقعہ ہے۔حضورﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہیں ایسے میں روح الامین ؑ حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں،

’’حضورﷺ! اگر آپ کا حکم ہو تو میں طائف کے لوگوں کو ان دو پہاڑوں کے درمیاں پیس کر رکھ دوں‘‘؟

مگر محسنِ انسانیتﷺ کا جواب سنیئے،

’’نہیں جبرئیل! یہ نہیں جانتے میں کون ہوں؟ مگر مجھے یقین ہے کہ اِن کے بعد آنے والے لوگ ضرور اسلام کے ماننے والے ہوں گے‘‘۔

مجھے کسی انسان کی زندگی میں اس سے بڑی مثبت سوچ کا واقعہ آج تک نہیں ملا۔

————————————————————————————

وہ کسی ایسی چیز کی ایجاد کے لیے تگ ودو کر رہا تھا جو اُس کا نام باقی رکھ سکے، اسی کوشش میں وہ 1000 سے زائد غلطیاں کرچکا تھا مگر وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ایک دن وہ لیبارٹری سے باہر کسی کام میں مصروف تھا جب اُس کے اسسٹنٹ نے اُسے آکر یہ خبر دی،

’’سر ہماری لیب میں آگ لگی ہے اور کچھ باقی نہیں رہا‘‘۔

اس خبر کو پاکر اُس عظیم شخص کے تاثرات کیا تھے اُن کو تاریخ نے الفاظ کی صورت میں اپنے سینے میں محفوظ کیا ہے۔ ان کو بار بار پڑھیں اور جب بھی آپ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ آجائے کہ جس مقصد کے لیے آپ جی رہے ہیں اُس کے لیے جمع کردہ سامانِ سفر جل کر راکھ ہوجائے تو اپنی زندگی ختم نا کرلینا بلکہ اس عظیم انسان کے الفاظ سامنے رکھنا اور ان سے رہنمائی طلب کرنا۔

’’میں اپنے خدا کا بے حد شکر گزار ہوں جس نے وہ تمام غلطیاں جلا کر راکھ کردیں جو میں نے ابھی تک کی تھیں اور اب میں ایک نئے سرے سے ابتدا کروں گا‘‘۔

یہ وہ الفاظ تھے جو تھامس ایڈیسن نے اپنے اسسٹنٹ  کو کہے تھے اور پھر یہی ایڈیسن دنیا کو بلب جیسی عظیم ایجاد سمیت انفرادی طور پر 1089 ایجادات دے گیا۔

اُسے زندگی کے لیے کوئی مقصد چاہیے تھا، وہ عام انسانوں کی طرح نہیں جینا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی ایسا کام کروں کہ میرے مرنے کے بعد بھی دنیا مجھے یاد کرے۔ 17 سال کی عمر میں وہ ایک دن اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا جب ایک جدا سوچ نے اُس کے دماغ میں جنم لیا ۔ اُس نے سوچا،

’’ایک دن آئے گا اور میں دنیا میں مزید باقی نہیں رہوں گا ۔۔۔۔ جب میں نے اس دنیا سے جانا ہی ہے تو کیوں نا دنیا کو بدل کر جاؤں‘‘؟

پھر وہ شخص وقت کی قید سے آزاد کام کرتا رہا اور دنیا کو 300 سے زائد ایجادات دے گیا آج دنیا اُس شخص کو سٹیو جابز کے نام سے جانتی ہے۔

————————————————————————————

وہ کوئی چھوٹا سا کام کرنا چاہتا تھا تاکہ گھر کا خرچ چلاسکے وہ پیسے ہاتھ میں لیے کراچی کی سڑکوں پر گھوم رہا تھا لیکن پھر اُس کے سامنے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اُس کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔

وہ سڑک پر ہی تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور ایک شخص کو روندتی ہوئی نکل گئی۔ لوگ بھاگتے ہوئے تڑپتے ہوئے شخص کے ارد گرد جمع ہوگئے تاکہ اُسے کسی ہسپتال منتقل کر سکیں۔ وہ ان سب حالات کو بغور دیکھ رہا تھا جب اُس کے دماغ میں ایک منفرد سوچ نے جنم لیا اُس نے سوچا،

’’دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ایک وہ جو انسانوں کو روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو تڑپتے ہوئے انسانوں کو ہسپتال تک پہنچاتے ہیں۔ میں موخرالذکر جیسا بنوں گا‘‘۔

وہ جو پیسے لیے کوئی کام شروع کرنے نکلا تھا اُس نے کچھ پیسے اور اکھٹے کیے اور ایک ایمبولینس خریدلی جو آگے جا کر دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کا روپ دھار گئی۔ عبدالستار ایدھی آج بھی اپنی زندگی انسانوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے۔ وہ آج بھی مخلوقِ خدا کے لیے جی رہا ہے، وہ ان گنت لوگوں کی زندگیاں بچا چکا ہے۔ مگر یہ سب اُس نے کیسے  کیا؟ فقط واقعات کے بارے میں منفرد سوچ اپنانے سے۔

————————————————————————————

وہ 21 سال کی عمر میں مفلوج ہوگیا تھا، ڈاکٹروں نے جب اُس سے کہا کہ تمہاری تمام تر صلاحیتیں جلد ختم ہوجائیں گی اور تمہارے پاس زندگی کے صرف 2 سال باقی رہ گئے ہیں۔ یہ باتیں سننے کے بعد اُس نے ڈاکٹر سے ایک سوال کیا تھا،

’’میرے دماغ کے بارے میں کیا خیال ہے‘‘؟

ڈاکٹر نے جواب دیا،

’’دماغ کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔

اس جواب کو پاکر اُس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ کائنات کے رازوں سے پردے ہٹانے میں جُت گیا۔ وہ شخص جس کو ڈاکٹروں نے کہا تھا تم صرف 2 سال اور زندہ رہوگے اُس کی عمر 73 سال ہوچکی ہے۔ دنیا اُسے نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد سب بڑا سائنس دان مان چکی۔ مگر سٹیفن ہاکنگ ابھی تھکا نہیں اُس کی سوچ آج بھی کئی سوچوں میں ارتعاش پیدا کیے ہوئے ہے۔

————————————————————————————

معاملہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں سب سے عام بات یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنی مقررہ عمر گزارنی ہے اور آگے کی جانب چلے جانا ہے۔ لیکن منفرد معاملہ یہ ہے کہ کون اپنی زندگی کو کس طرح گزارتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔