کرپشن اور کرپشن

عبدالقادر حسن  بدھ 8 جولائی 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کورا کاغذ میرے سامنے ہے۔ روشنائی سے بھرا قلم میرے ہاتھ میں ہے اور پاکستان اور اس کے لیڈر میرے سامنے ہیں اور ایک مدت سے ہیں۔ ان لیڈروں کی بے معنی سیاست بلکہ کاروبار سیاست میں دیکھتا چلا آ رہا ہوں اور اب تعجب کر رہا ہوں کہ ان لیڈروں کے مسلسل اقتدار اور اختیار کے باوجود یہ ملک اب تک کیسے چلتا رہا ہے اور کب تک اسی طرح چلتا رہے گا۔

میری بات کی وضاحت آپ کو ہر روز کے اخبارات میں ملتی ہے جس کی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس وطن عزیز کی زندگی اور کاروبار حکومت کا کوئی شعبہ بس چلتا ہی رہا ہے اور کسی قانون قاعدے اور کسی نگران اور بااختیار افسر کے بغیر یہ چلتا رہا ہے چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ ہمارے ہاتھ میں کاغذی درخواستیں اور زبانوں پر فریادیں ہوں گی لیکن جعلی دواؤں کی طرح بے اثر اور پاکستان میں تیار ہونے والی دواؤں کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان کی نگرانی کرنے والے کوئی سرکاری افسر موجود نہیں ہیں۔ نہ کوئی ان کے معیار کو دیکھتا ہے اور نہ ان کی قیمتوں کا جائزہ لیتا ہے۔

سب کچھ بس یونہی چل رہا ہے۔ میں چند دن ہوئے کہ اچانک ایسا بیمار پڑا کہ مجھے اسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں میں ایک گول مول سے بستر پر لٹا دیا گیا اور پھر کسی وقت سو گیا۔ صبح اٹھا تو میں بھلا چنگا تھا۔ بڑے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جایا گیا جن کی اجازت سے ہی میں اسپتال سے ڈسچارج ہو سکتا تھا اور جنہوں نے مجھے داخل کیا تھا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ جناب ڈاکٹر صاحب آخر مجھے کیا ہوا تھا کہ مجھے ایک رات اسپتال کے بستر پر گزارنی پڑی اور میرے عزیز بھی بلاوجہ اس آرام سے سونے والے مریض کے گرد بیٹھے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ’اللہ کی مرضی‘۔ ان متشرع شکل و صورت کے ڈاکٹر صاحب سے مزید بات نہیں ہو سکتی تھی کہ جب مقدمہ اللہ کی عدالت میں پہنچا دیا گیا تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پاکستان بھی میری طرح ایک مریض ہے جس کے ڈاکٹر کے پاس مریض کا ایک ہی جواب ہے کہ اللہ کی مرضی اور بلاشبہ پاکستان اللہ کی مرضی سے ہی چل رہا ہے۔

میرے جیسے سیاستدانوں یعنی حکمرانوں کے عمر بھر کے نیاز مند اللہ کی اس مرضی کو برسہا برس سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کسی نئی حکومت کی آمد پر نئے حکمران جو باتیں کرتے ہیں وہی باتیں ان کے جانے کے بعد آنے والے کیا کرتے ہیں اس وقفے میں مریض بستر پر لیٹا رہتا ہے اور جب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ کوئی بات پوچھ لیتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ ایک عام مسلمان اس پر خاموش ہو جاتا ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ کوئی تو اس کے ملک کی نگہداشت کرتا ہے۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک اللہ اور رسول پاک کے نام پر بنایا گیا ہے ہندوستان کے دارالکفر میں مسلمانوں نے اللہ کے نام پر یہ ملک بنایا۔ دارالکفر سے ہجرت کر کے یہاں آنے والوں کے سروں پر سے کئی قیامتیں گزر گئیں لیکن وہ اپنے خوابوں کی سرزمین پر پہنچ ہی گئے۔ ان میں نواب اور امیر و کبیر مسلمان بھی تھے جن کی جائیدادوں کے بدلے پاکستان میں ایسی جائدادیں ان کی منتظر تھیں اور ایسے نوجوان سائنسی مضامین کے طالب علم بھی تھے جو ایک ٹین کا بکس اٹھا کر بھوپال سے یہاں پہنچے اور پھر اس ملک کو مسلمان دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بنا دیا۔

پاکستان میں اس سائنس دان کو اس لیے ایک اچھا گھر الاٹ کیا گیا جو سیکیورٹی کی ضرورت پوری کرتا تھا وگرنہ وہ کسی اچھے سرکاری کوارٹر میں بم کے فارمولے سوچ رہا ہوتا۔ بہر کیف یہ ملک ہمارے ایمان کا ایک حصہ تھا جسے ہم نے اپنے حرص کا ایک ذریعہ بنا دیا اور یہاں کرپشن کے طریقوں کے مطابق ایک اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا بابرکت نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ رکھا گیا اور یہاں کرپشن اور رشوت اس قدر پھیلائی گئی کہ بعض کمزور دل لوگ ڈرنے لگے کہ کہیں یہ ملک اس رشوت کی فراوانی کے بوجھ تلے بیٹھ نہ جائے۔ یہ ڈر اب تک جوں کا توں ہے کیونکہ رشوت اور کرپشن بھی جوں کی توں ہے۔

اس صورت حال کو ذہناً قبول نہ کرنے والے لوگ اب کسی سرکاری دفتر میں کام کے لیے جانے سے ڈرتے ہیں وہ نہ تو سرکاری رشوت خور کا مطالبہ پورا کر سکتے ہیں اور نہ اس کے بغیر ان کا کام ہوتا ہے۔ یہ محض لفاظی نہیں ہے ایک واقعہ ہے۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں بلکہ عین ممکن ہے آپ کو ایسا تجربہ ہو بھی چکا ہو۔

کرپشن اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل صرف ایک ہے کہ اس کے حکمران کرپشن سے پاک ہوں۔ اول تو کسی کرپشن سے پاک فرد کو حکمرانی مل نہیں سکتی اور اگر وہ کسی حادثے میں حکمران بن جائے تو جب تک وہ اپنے ماتحتوں کو کرپشن کی اجازت نہیں دے گا یعنی اس سے صرف نظر کرے گا تب تک اس کی حکومت ڈانواں ڈول ہی رہے گی اور پھر ایک دن الیکشن ہو جائے گا یا ’’میرے عزیز ہموطنوں‘‘ دونوں صورتوں میں وہ کرپشن کا مخالف گھر چلا جائے گا بشرطیکہ وہ اتنا خوش قسمت ہو  ورنہ کسی خطرے کی صورت میں وہ محترمہ ایان کے آس پاس کہیں ہو گا۔

ان دنوں ہم خوبصورت ماڈل ایان علی کو پوری توجہ دیے ہوئے ہیں۔ اخبار میں سب سے پہلے اس کی خبر پڑھتے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اس کے مطابق وہ سیاست میں نہیں آ رہی اور کسی سیاستدان کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں ہیں وہ ہر لحاظ سے سیاست اور سیاستدانوں سے دور ہے لیکن اس یک طرفہ فیصلے سے کیا ہوتا ہے وہ کسی سیاستدان کو جانتی بھی نہ ہو لیکن اس ملک کا ہر سیاستدان نہ صرف اسے جانتا ہے بلکہ خوب پہچانتا بھی ہے اسے بھی سیاستدانوں کی اس عالمی کمزوری کا خوب پتہ ہے کہ وہ ہر پیشی پر بن سنور کر آتی ہے۔

محترم جج صاحب اس کی بات اور درخواست سب غور سے سنتے ہیں اور پھر اسے تاریخ دے دیتے ہیں جس کے لیے وہ تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے۔ محکمہ جیل کے متعلقہ لوگ بھی اب اس کے عادی ہو گئے ہیں اور وہ صلح صفائی سے ڈیوٹی بدل لیتے ہیں۔ یہ ایان ہو یا کوئی اور لڑکی جو ماڈلنگ کیا کرتی ہو اسے قید و بند سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ سب ہمارے ہاں جاری و ساری کرپشن کی ایک جھلک ہے۔ کرپشن جتنی جیل سے باہر ہے اتنی جیل کے اندر بھی ہے اور جب کوئی ایان جیل کی پھاٹک کے اندر داخل ہو جائے تو جیل میں تھرتھلی مچ جاتی ہے جیسے کوئی نامور ڈاکو آ گیا ہے اور معاف کیجیے گا بعض ڈاکو خوبصورت بھی ہوتے ہیں اور یہ سب جیل والوں کی خوش قسمتی اور ان کی دعاؤں کا اثر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔