پیپلزپارٹی کا زوال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 8 جولائی 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ حکومت کی نااہلی کی سزا پیپلز پارٹی کو مل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی صرف سندھ حکومت کو بچانے کی سیاست کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کوبچانا ہے تو ایک ہفتے تک صفائی مہم چلانا ہوگی۔ پیپلز پارٹی اس وقت آئی سی یو میں ہے اس لیے اس وقت ہومیوپیتھک دوائیوں کی نہیں سرجری کی ضرورت ہے۔ مرض کی تشخیص ہوچکی، فوری حل تلاش نہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی کا خدا حافظ ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے کراچی میں صحافیوں کے سامنے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بحران کو واضح کرنے کے بعد پنجاب پیپلزپارٹی کی نائب صدر کی حیثیت سے مستعفی ہوگئیں۔ اور ان رہنماؤں سے ممتاز ہوگئیں جنہوں نے  پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا تھا مگر 2008سے یہ پارٹی روبہ زوال ہے۔

یہ جماعت وفاق میں شکست کھانے کے بعد  خیبر پختون خواہ، کنٹونمنٹس بورڈ اور گلگت بلتستان میں انتخابات ہارنے کے بعد آزاد کشمیر اور پنجاب میں متوقع انتخابات میں بھی شکست کی منتظرہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اندرونِ سندھ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی نہ ہوئی توکئی ڈسٹرکٹ میں مخالفین راج کریں گے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی تو مزدوروکسان تنظیمیں ، طلبہ یونین، اساتذہ، صحافی، دانش ور، اقلیتی اراکین، خواتین اور مظلوم طبقات پیپلز پارٹی کے بنیادی ستون تھے۔خاص طور پر پنجاب میں سارا دارومدار بائیں بازوکے خیالات رکھنے والے ان گروپوں پر تھا جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کا بلاخوف وخطر اظہار کرتے تھے۔

ان میں سے بیشتر تنظیموں کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی کے مختلف گروہوں، آزاد پاکستان پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور دیگر سوشلسٹ گروپوں نے رکھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعروں اور عوامی شخصیت نے پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں کو عوا م میں اپنی جڑیں بنانے کا موقع ملا۔ 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ اگرچہ سندھ میں جاگیردار غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے مگر پنجاب میں منتخب ہونے والے اراکین کی اکثریت کا تعلق متوسط اورکچھ کا نچلے متوسط طبقے سے تھا۔

1970 کے انتخابات میں لاہور کی تمام نشستوں پر کامیابی، علامہ اقبال کی صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال، جنرل سرفراز اور جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد کی شکست نچلے متوسط طبقے کی طاقت کے اظہار کی بناء پر تھی۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد جاگیرداروں اور نوابوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، 1977 میں یہ پارٹی قومی اتحاد PNA کے سامنے پنجاب میں کمزور پڑگئی، مگر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف پنجاب میں پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی تنظیموں کے کارکنوں نے تاریخی جدوجہد کی،  1986 میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے لاہور میں لاکھوں لوگ جمع ہوگئے۔

سینئر تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے پنجاب کو اپنی سیاست کا محور نہیں بنایا، پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کے غلط مشوروں پر بے نظیر بھٹو نے 1988 میں لاہور سے انتخاب میں حصہ نہیں لیا، یہ رہنما میاں نواز شریف کی دولت کے سحر کا شکار تھے۔

پیپلز پارٹی میں سیاسی جدوجہد کا کلچر کمزور ہونا شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگے مگر کوئی اور جماعت پیپلز پارٹی کے خلاء کو پر نہ کرسکی۔ 2002 کے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔ مگر 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کا کلچر تبدیل ہوگیا۔ آصف علی زرداری نے نئی ڈاکٹرائن پیش کی۔ اس ڈاکٹرائن میں وسیع تر مفاہمت کا اصول اپنایا گیا، یوں تمام مخالف جماعتوں مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ بعد میں مسلم لیگ ق بھی اس پلیٹ فارم میں حصے دار بن گئی۔ اس مفاہمت کے بہت سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1970 کے بعد پہلی دفعہ اقتدار کی آئینی مدت پوری کی، آئین میں 18 ویں ترمیم کے بعد حقیقی پارلیمانی نظام قائم ہوا اور پاکستان کی اساس 1940 کی قرارداد سے قریب تر صوبائی خودمختاری کا معاملہ متفقہ طور پر طے ہوا مگر زرداری  نے پیپلز پارٹی کو ایک کمپنی کے طور پر چلانا شروع کردیا۔ قریبی رشتے داروں اور دوستوں کو جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا اہم عہدے دیے گئے۔  اچھی طرزِ حکومت اور شفافیت کو اپنی ترجیحات سے علیحدہ کردیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے منفی رویے اور ناقص طرزِ حکومت کی بناء پر زرداری حکومت ناکام ثابت ہوئی۔ پیپلز پارٹی 2013کے انتخابا ت میں مؤثر مہم نہیں چلا پائی۔

اس کی ایک وجہ طالبان کے حملے اور دوسرا معاملہ پیپلز پارٹی کا بحیثیت سیاسی جماعت کمزور ہونا تھا۔ مگر اس صدی کی پہلی دو دھائیوں کی ایک منفی بات یہ ہے کہ 2013 کے انتخابی نتائج کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت نے نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ آصف زرداری نے لاہورکو اپنی سیاست کا محور بنانے کے لیے ایک گھر  تعمیر کرایا مگر لاہور کو کبھی 8  سے 10 دن سے زیادہ نہیں دیے۔ یہی رویہ بلاول بھٹو زرداری کا رہا۔  منظور وٹو جیسے مسلم لیگی سیاستدان کو سینٹرل پنجاب کی قیادت دے دی۔

اسی طرح جنوبی پنجاب کی قیادت ایک مخدوم کے حوالے کردی گئی۔ پیپلز پارٹی انتخابی شکست کے بعد جنوبی پنجاب کے صوبہ بنانے کی تحریک سے غیر اعلانیہ طور پر دستبردار ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سیاسی جدوجہد چھوڑ کر جوڑ توڑ پر زور دیا تو پنجاب کے مختلف اضلاع کی قیادت نے بھی اس کی پیروی کی۔  پولیس کا ظلم، محکمہ انہار کے اہلکاروں کی لوٹ مار، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ، طلبہ، اساتذہ، مزدوروں اور اقلیتوں کے مسائل پر جدوجہد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ذہنوں سے خارج ہوگئی۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناکامیاں عیاں ہوگئیں۔ بری طرزِ حکومت، کرپشن، کراچی اور اندرونِ سندھ شہروں اورگاؤں میں انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی، قریبی رشتے داروں کی لوٹ مار کے اسکینڈلز نے نہ صرف سندھ کے عوام کو مایوس کیا بلکہ پنجاب سمیت پورے ملک میں پیپلز پارٹی کا امیج چکنا چورکردیا اور پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں اورکارکنوں میں یہ خیال زور پکڑ گیا کہ زرداری کی میاں نواز شریف سے مفاہمت کی پالیسی لوٹ مار کی ڈاکٹرائن کے تحفظ کے لیے ہے۔ سماجی اور اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ صدی میں ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں اور آئی ٹی ٹیکنالوجی عام آدمی تک پہنچنے کی بناء پر پنجاب کی سماجی ساخت پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ جا کر آباد ہونے والے لوگوں کے خاندان اب متوسط طبقے میں شامل ہوگئے ہیں اور ان میں سے بیشتر مذہبی انتہاپسندی کے گرداب کا شکار ہیں۔  نوجوانوں کی آبادی بڑھ گئی، یہ نوجوان آئی ٹی ٹیکنالوجی اور الیکٹرونک میڈیا کی لہر کی بناء پر موجودہ نظام سے مایوس ہیں۔  مزدوروں، کسانوں اور اقلیتوں میں ان کے حقوق کا تحفظ نہ ہونے کی بناء پر بے چینی ہے۔ اسی طرح اساتذہ، صحافی، شعراء اور دانش ور بھی مایوسی کا شکار ہیں۔ ممتاز ماہرِ اقتصادیات شاہد کاردار نے پنجاب کے مختلف طبقات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ تحریکِ انصاف میں جانے والے متوسط طبقے کے نوجوان اور ان کے خاندان ہیں جن کا پیپلز پارٹی سے ماضی میں تعلق نہیں رہا مگر نچلہ طبقہ، اقلیتیں اور سیکیولر سوچ کے حامل آبادی کے گروپ عمران خان سے دور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد فراہم کرنے والے گروہوں کو متاثر کرنے کے لیے مواقعے موجود ہیں مگر یہ سب کچھ پارٹی میں جمہوری کلچر کے احیاء اور سیاسی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

بعض ماہرین کاکہنا ہے کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی اب سماجی جمہوریت سے خاصی دور ہوگئی ہے مگر مزدور انجمنیں آج بھی لیبر پارٹی کی طاقت ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ آصف زرداری ، ان کے رشتے دار اور ذاتی دوست پارٹی سے علیحدہ ہوجائیں۔ جن لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں انھیں عہدے نہ دیے جائیں اور انھیں عدالتوں سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جائے۔ مزدوروں، کسان، طلبہ، اساتذہ، خواتین اور دانشوروں کی انجمنوں کو فعال کیا جائے۔ بلاول بھٹو خود سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیںاور یوں پیپلز پارٹی پھر مظلوم طبقات کی ترجمان بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔