کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

انتظار حسین  پير 13 جولائی 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

غازی صلاح الدین کا ابھی ایک کالم ہم نے پڑھا۔ بہت خوش نظر آ رہے ہیں۔ یار خوش ہوں تو ہم بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ کالم در بارۂ ملالہ ہے۔ ملالہ کے سلسلہ میں ان کی تازہ خوشی یہ ہے کہ اٹلی میں طلبا کا ایک بہت اہم امتحان ہوتا ہے جس میں صرف چار سوال ہوتے ہیں۔ اور کسی ایک پر طالب علم کو خامہ فرسائی کرنی ہوتی ہے۔ اس سال اس امتحان میں پانچ لاکھ طلباء طالبات نے شرکت کی ہے۔ سوالات چار تھے۔ چوتھا سوال ملالہ کے بارے میں تھا۔ یہ بات ہے جس پر غازی صلاح الدین خوش ہیں۔ یہ سوچ کر تھوڑے فکر مند بھی ہیں کہ پاکستان میں سب اس خوشی میں شامل نہیں ہوں گے۔ تو لیجیے ہم ان کی تسکین کے لیے علامہ اقبال کا ایک شعر نقل کرتے ہیں۔

عروج ادم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

مطلب یہ ہے کہ ایسا عروج سب کو وارا نہیں کھاتا۔ کتنے لوگ ایسے عروج کو دیکھ کر واقعی سہم جاتے ہیں۔

باقی بات یہ ہے کہ اس ٹوٹے ہوئے تارے کے کامل بننے میں کونسی کسر رہ گئی ہے۔ اپنی چھوٹی عمر سے تھوڑا مار کھا رہی تھی۔ سو یہ کسر بھی پوری ہو گئی۔ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میرا بچپنا تمام ہوا۔ میں 12 جولائی کو اٹھارہ سال کی ہو جاؤں گی یعنی بچی بالغ ہو گئی۔ مبارک مبارک کتنے گل تو اس بی بی نے اٹھارویں برس سے پہلے ہی کھلا لیے تھے۔ اب جب کہ اٹھارواں برس لگ گیا ہے تو اب بی بی کونسا گل کھلائے گی

دے مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
ورنہ آسمان میں تھگلی تو اس نے لگا لی ہے

ہمارا ماتھا تو تب ہی ٹھنکا تھا جب ہم نے سنا تھا کہ سوات کی ایک بچی تعلیم کے مشن پر نکلی ہوئی ہے۔ ہم نے کہا کہ ارے یہ سرسید احمد خاں کے بعد یہ دوسری سر سید کہاں سے نمودار ہوئی ہے کیونکہ سرسید احمد خاں کے بعد تو ہمارے یہاں کسی مصلح، کسی انقلابی‘ کسی رہنما نے‘ تعلیم کو اپنا مشن بنایا ہی نہیں تھا۔ مگر اب ہم سوچ رہے ہیں کہ بات تو سرسید سے بہت آگے پہنچ گئی ہے۔ سرسید تو انیسویں صدی کے آسمان کا ٹوٹا ہوا تارا تھے۔ انیسویں صدی کی کونسی بڑی بساط تھی۔ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ سرسید علی گڑھ سے چلے تو لندن میں جا اترے۔ اس وقت لندن ہی ہمارے لیے ساتواں آسمان تھا۔ ہم اسے ولایت کہتے تھے۔ جس نے ولایت کی سیر کر لی اس نے سمجھ لو کہ پالا مار لیا۔ پھر وہ ولایت پلٹ کہلاتا تھا۔

اب اکیسویں صدی ہے۔ دنیا بہت پھیل گئی ہے۔ یعنی اب ہم گلوبل عہد میں تیر تفنگ چلا رہے ہیں۔ اس گلوبل دنیا میں پاکستان کی کیا بساط ہے۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

چنگاری سے بڑھ کر بارود بھری سری شُرلی کہ سُر کر کے اس ہمارے خاک داں سے اڑی اور سرسید والی ولایت کو چھوتی ہوئی آگے نکل گئی۔ امیر خسرو کی پہیلیوں میں سے وہ نرالی پہیلی کہ

چھوٹی سی ڈگیا ڈگ ڈگ کرے‘
جا پنچوں میں خبر کرے۔

کیا یہ بھی کوئی تانیثی اشقلہ ہے۔ ایک تو ہم اس نوزائیدہ اصطلاح تانیثیت سے بہت تنگ ہیں۔ نسوانیت کی اصطلاح میں کونسا عیب تھا جو ہم نے یہ نئی نویلی اصطلاح تراش لی۔

ہاں تو ہم پوچھ یہ رہے تھے کہ یہ جو ہمارے بیچ سے ملالہ کی نمود ہوئی کیا یہ بھی کوئی نسوانی اشقلہ ہے۔ عورت تو ہمارے معاشرے میں کب سے پستی چلی آ رہی تھی۔ اور پاکستان میں آ کر تو حد ہی ہو گئی۔ کتنے تو غیرت کے نام پر قتل ہو گئے مگر پھر اسی خاکستر سے چنگاریاں نکلنی شروع ہو گئیں۔ نسوانیت نے پر پرزے عجب رنگ سے نکالے۔ ویسے کیا یہ ملالہ کے مشن نے گل کھلایا ہے یا لڑکیوں نے خود ہی ہوا کا رخ دیکھا اور کالجوں یونیورسٹیوں کا رخ کیا۔ اب جس یونیورسٹی میں جاؤ وہاں طالبات قطار اندر قطار نظر آتی ہیں اور منتظمین بتاتے ہیں کہ طالبات طلبا سے سبقت لے گئی ہیں‘ صرف تعداد کے حساب سے نہیں بلکہ اس حساب سے بھی کہ پڑھائی میں ان کا شغف زیادہ ہے۔ طلبا پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور تعلیم کے زور پر وہ قومی زندگی کے ہر شعبہ میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ ان شعبوں میں بھی جو مردانہ شعبہ سمجھے جاتے تھے انھیں ملازمت کرنے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا ہے۔ جیسے پولیس‘ فوج‘ ہوا بازی۔

یعنی وہ دن گئے جب تعلیم یافتہ خاتون ٹیچنگ کے پیشہ پر قانع تھی۔ اور اس کے شوق مصوری اور ادبیات کی حد تک تھے۔ ویسے اب ان شعبوں میں بھی ان کا غلبہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہم نے جب اپنے ادب پر نظر ڈالی تو حیران ہوئے کہ ارے 47ء سے پہلے شاعری کی دنیا میں نسوانی دانہ خال خال تھا۔ مختصر افسانے میں البتہ وہ چمک دمک دکھا رہی تھیں۔ مگر اس تھوڑے عرصے میں اتنی بہت سی شاعرات کہاں سے امنڈ پڑیں۔ یہ سب پاکستان بننے کے بعد کا میوہ ہیں۔ اور ہاں ہم جو یہ کہہ رہے تھے کہ فکشن کے نام انھوں نے مختصر افسانے میں مقرر نام پیدا کیا تھا۔ ناول کے نام وہ نسوانی ناول لکھا کرتی تھیں۔

مرد ناول نگاروں کے دوش بدوش کہاں نظر آتی تھیں‘ یہ گل بھی پاکستان بننے کے بعد کھلا۔ پاکستان کے فوراً بعد سمجھ لیجیے کہ ایک سال بعد قرۃ العین حیدر اپنے ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ پھر خدیجہ مستور اپنے ’’آنگن‘‘ کے ساتھ۔ اور پھر جمیلہ ہاشمی‘ نثار عزیز‘ بانو قدسیہ‘۔ نام کے بعد نام گنتا جا شرماتا جا۔

تو کیا واقعی اب ہم نسوانیت کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ جو مردانہ تنظیمیں تشدد پر اتر کر اپنا زور دکھا رہی ہیں اور پھر بم دھماکے کر کے اپنا رعب جما رہی ہیں‘ ان پر مت جاؤ۔ تشدد لمبا نہیں کھنچا کرتا۔ اس غبارے سے ہوا آج نہیں تو کل نکل جائے گی۔

مگر ملالہ کی نمود واقعی اکیسویں صدی کے عجائبات میں سے ہے۔ حد ہے برس چودھواں یا کہ سولہ کا سن۔ اڑ کر اقوام متحدہ میں پہنچی۔ اور پھر نوبل پرائز بھی جیت لیا۔

سو جو مرد اس نسوانی ظہور پر حیران ہیں وہ بجا حیران ہیں۔ وہ اگر سہمے ہوئے ہیں تو بھی بجا سہمے ہوئے ہیں۔ اور اگر خوش ہیں تو بھی جائز طور پر خوش ہیں۔ علامہ اقبال نے تو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ؎

یہ ڈرامہ دکھائے گا ہے کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اور پردہ تو اب اٹھ چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔