وہ ایک گھر

مقتدا منصور  پير 13 جولائی 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کچھ گھر اپنے نہیں ہوتے مگر ان سے اپنوں سے زیادہ انسیت ہو جاتی ہے۔ اس لیے ان سے بچھڑنے کا قلق و ملال بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک گھر گلشن اقبال کراچی میں واقع ہے، جس میں کبھی معروف ترقی پسند دانشور اور کالم نگار احمد الطاف مرحوم رہا کرتے تھے۔ اس مکان میں گزشتہ 38 برس سے بلاناغہ احباب کی محفلیں سجتی رہی ہیں، جن میں اہل علم و دانش اپنے علم کے موتی بکھیرتے اور ہم جیسے نوسکھیے کسب و فیوض حاصل کرتے رہے ہیں۔ یوں یہ گھر اینٹ گارے کا بنا مکان نہیں بلکہ ایک انسٹیٹیوشن رہا ہے، جس کے مکینوں نے فکر و فہم کی آبیاری کے علاوہ خلوص، محبت اور وضعداری کی ایسی نظیریں قائم کیں، کہ ہر آنے والا ان کی چاہت کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ مگر اب یہ گھر بک چکا ہے اور 31 جولائی کے بعد اس میں نئے مکیں ہوں گے، نئی زندگیوں کا نیا چلن ہو گا، نئی آوازیں اس کے در و دیوار میں گونجیں گی اور وہ آوازیں جو چالیس برس تک یہاں گونجتی رہی ہیں، قصہ پارینہ ہو جائیں گی۔

یہ مکان احمد الطاف مرحوم کے چھوٹے بھائیوں فردوس اور سہیل نے مشترکہ طور پر 1978ء میں تعمیر کیا تھا، جس میں برصغیر کی روایات کے مطابق سبھی خلوص و محبت سے رہتے تھے۔ تسبیح کے ان دانوں کو ان کی والدہ اور پھر بڑے بھائی احمد الطاف مرحوم نے ایک لڑی کی طرح پروئے رکھا تھا۔ محبت آج بھی ان کا وتیرہ ہے۔ مگر زمانے کے بدلتے تیور اور نئی نسلوں کی تبدیل ہوتی ترجیحات کا ادراک کرتے ہوئے، انھوں نے اس سانجھے داری کو ختم کر کے دراصل اپنی محبتوں کو زمانے کے گرم و سرد سے محفوظ کیا ہے۔ اس لیے اس دانشمندانہ فیصلہ سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کی توصیف کی جانی چاہیے۔ لیکن اس گھر سے جڑی وہ اَن گنت یادیں بھی اپنی جگہ ہیں، جو ذہن کے گوشوں میں نمودار ہوتی رہیں گی، جنھیں فراموش کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

مجھے دسمبر 1986ء کی وہ ہلکی سی خنک سہ پہر یاد ہے، جب میں نے پہلی مرتبہ ڈاکٹر منظور احمد مرحوم کے ساتھ اس مکان کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن احمد الطاف مرحوم کی وضعداری اور ان کے بھائیوں کے اخلاص نے ایسا گرویدہ کیا کہ ان 30 برس میں بہت کم ہفتہ وار چھٹیاں ایسی ہوں گی کہ کراچی میں ہوتے ہوئے، یہاں نہ آیا ہوں۔ احمد الطاف مرحوم سے اس سے قبل میری کئی ملاقاتیں ڈاکٹر منظور احمد کی رہائش گاہ پر ہو چکی تھیں۔ دراصل جب میں سکھر سے کراچی کے لیے چلا تھا، تو ڈاکٹر اعزاز نذیر مرحوم نے مجھے دو رقعے دیے تھے۔

ایک ڈاکٹر منظور احمد مرحوم کے نام اور دوسرا محمد محسن ایڈووکیٹ مرحوم کے لیے۔ اس کے علاوہ تاکید کی تھی کہ میں پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم اور احمد الطاف مرحوم سے ضرور رابطہ کروں۔ ڈاکٹر منظور احمد کی خواہش پر میں 17 برس شاہ فیصل کالونی میں رہا۔ جب وہاں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہو گئی، تو میں وہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ شاہ فیصل میں رہائش کے دوران ڈاکٹر منظور احمد کی رہائش گاہ پر کئی برس تک فکری نشستوں کا اہتمام کیا۔ ساتھ ہی رفاہ عام سوسائٹی میں منصف رضا مرحوم کے گھر پر ہونے والی ’’بزم علم و دانش‘‘ میں دس برس تک بلاناغہ شرکت کی۔

منصف رضا کے انتقال کے بعد بزم علم و دانش تقریباً غیر فعال ہو گئی۔ اسی طرح محمد محسن ایڈووکیٹ کے انتقال نے ڈاکٹر منظور احمد کے گھر پر ہونے والی نشستوں کو بے جان کر دیا تھا۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ہم لوگ کچہریوں کے بہت زیادہ دلدادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب گفت و شنید کے دیگر راستے بند ہوئے تو پھر ہماری پوری توجہ سیاسیات اور سماجیات کے ایک نوسکھیے طالب علم کے طور پر احمد الطاف کے گھر ہونے والی نشستوں پر مرکوز ہو گئی۔ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک اہل علم و دانش آیا کرتے تھے۔ جن کی وجہ سے یہ محفلیں علم و آگہی کا سرچشمہ بن گئی تھیں۔ یہاں سیاست سے صحافت تک، ادب سے تاریخ و فلسفہ تک اور فنون لطیفہ سے ذاتی امور تک شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو، جس پر بے لاگ گفتگو نہ ہوتی ہو۔

جب یادوں کے دریچے کھلتے ہیں، تو بہت سی بھولی بسری یادیں تازہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ شروع کے برسوں میں جب ان کی والدہ حیات تھیں، تو ان کی محبت، خلوص اور چاہت بھی دیدنی ہوا کرتی تھی۔ وہ اپنے بیٹوں کے احباب کا بیٹوں ہی کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوا کہ کسی دوسری جگہ سے ہوتے ہوئے آئے تو وقت سے ذرا پہلے ہی پہنچ گئے، تو فوراً کواڑ کے پیچھے سے ان کی آواز آتی ’’آپ نے کھانا کھایا ہے یا لگواؤں‘‘۔ کبھی کسی جمعہ کو ناغہ ہو جائے تو اندر سے پوچھتیں کہ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے، گھر پر سب خیریت ہے، اللہ خیر کرے پچھلے جمعہ تشریف نہیں لائے تھے۔ جس سے ان کی محفلوں میں دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔

احمد الطاف مرحوم اور ان کی والدہ مرحومہ کی وضعداریاں اپنی جگہ، ان کے دونوں بھائی فردوس اور سہیل بھی مجسم پیکر خلوص۔ بلکہ سہیل کی بیگم بھی ہم سب کا بالکل ایسے خیال رکھتی ہیں، جیسے خاندان کے فرد ہوں۔ کینیڈا میں مقیم بھائیوں سرفراز اور نوشاد دو چار برس بعد جب بھی آتے ہیں، تو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کہیں دور بستے ہیں۔ ایسا لگتا کہ گویا اگلی گلی سے اٹھ کر چلے آئے ہوں۔ یہ گھر جہاں کبھی احمد الطاف کے سب سے چھوٹے بھائی سہیل کے بچوں کو ان کی گود میں ہمکتے دیکھا کرتے تھے، آج دیکھتے ہی دیکھتے وقت یہ بچے اب خود صاحب اولاد ہو چکے ہیں۔

یہاں ہماری ملاقات جون ایلیا سے بھی ہوا کرتی تھی، جو اگلی گلی میں رہتے تھے۔ جون مرحوم سے پہلی ملاقات زمانہ طالب علمی کے دوران پرانے سکھر میں اپنے ایک دوست رضوان اللہ خان مرحوم کے گھر ہوئی تھی۔ جہاں جون صاحب ٹھہرے ہوئے تھے۔ رضوان اللہ خان کے بڑے بھائی سعیداللہ خان ایوب خان کے بی ڈی سسٹم میں پرانے سکھر کے چیئرمین تھے۔ لیکن علم و ادب اور محفلیں سجانے کے رسیا۔ جب اس گھر میں آنا جانا شروع ہوا تو اکثر و بیشتر جون ایلیا مرحوم سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان کی متلون مزاجی کا یہ عالم تھا کہ کبھی جم جائیں تو اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ احباب سے بھی بیٹھے رہنے پر اصرار کرتے۔

کبھی وحشت کا یہ عالم کے بات مکمل کیے بغیر یہ جا وہ جا۔ اگر شگفتہ بیانی پر آئیں تو محفل لوٹ لیں۔ تلخ و ترش نوائی پر آئیں تو لحاظ مروت سب ایک طرف۔ عجب قلندر صفت شخصیت کے مالک تھے، بولتے تو لگتا کہ علم کا بحر قلزم ہے جو بہے چلا جا رہا ہے۔ شاعری کو بھی نیا اسلوب دیا، یعنی اسے بھی مکالمہ بنا دیا۔ یہیں NSF کے سابق رہنما تسنیم الحسن فاروقی مرحوم کے ساتھ طویل ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ ان دنوں ایم کیو ایم میں شامل تھے۔ یہ وہی تسنیم الحسن فاروقی تھے، جو 1967ء میں شہریار مرزا کے ساتھ سکھر آئے تھے اور ہم دوستوں کو NSF میں شامل کر کے وہاں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔

اس گھر کے ڈرائنگ روم کی یہ خوبی رہی ہے کہ یہاں بحث و مباحثہ کے دوران دوستوں کے چہرے پر غصے کی لالی بھی چھلکی اور آواز بھی بلند ہوئی، مگر جب اٹھے تو ایک دوسرے کو گلے لگا کر اٹھے۔ اپنے نظریہ، فکر اور سوچ کے حق میں دلیل و براہین ضرور دیے، مگر تعلقات کو کشیدہ نہیں ہونے دیا، جس کی مثال سیاسیات کے دو معتبر اساتذہ پروفیسر اقبال احمد خان مرحوم اور پروفیسر لطیف احمد خان مرحوم کی ہے، جو دوران بحث ایک دوسرے سے الجھتے اور لال پیلا ہو کر گرجتے برستے، مگر پھر انھیں لمحہ بھر میں شیر و شکر ہوتے بھی دیکھا۔

یہیں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے اولین سیاسی استاد اختر رضوی مرحوم سے ملاقات ہوئی اور یہیں پہلی بار عظیم احمد طارق مرحوم کو دیکھا۔ اسی گھر میں تیسرے قطب کا فلسفہ پیش کرنے والے افضل جدون سے ملاقات ہوئی اور ان کا فلسفہ سننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہیں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما ڈاکٹر نوشاد مرحوم سے ملاقات ہوئی، جو باچا خان مرحوم کے فکر و فلسفہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ یہیں شاہد علی ایڈووکیٹ سے روابط قائم ہوئے اور احسان الحق سے تعارف ہوا۔ ندیم اختر جن سے محبت اور عقیدت کا رشتہ بہت پہلے قائم ہو چکا تھا، ان نشستوں میں اس تعلق کو مزید گہرائی اور وسعت ملی۔ مروت و وضع داری کا یہ عالم کہ ان 30 سے 35 برسوں کے دوران ہم لوگوں کی نشستیں تک مخصوص ہو گئی تھیں۔

احمد الطاف مرحوم کی بیماری اور پھر ان کی وفات کے بعد ان نشستوں میں کچھ عرصہ کے لیے تعطل ضرور آیا، مگر پھر اسی آب و تاب سے جاری ہو گئی تھیں۔ اب جب کہ یہ گھر بک چکا ہے، ان نشستوں کے جاری رہنے کی امید بھی دم توڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ ویسے بھی نئی جگہ جہاں یہ خاندان منتقل ہو گا، ان نشستوں کے لیے گنجائش پیدا ہو بھی سکے گی یا نہیں؟ پھر یہ بھی سوال ہے کہ وہ احباب جو باقی بچے ہیں، جوانی کی حدود سے بڑھاپے کی دہلیز تک جا پہنچے ہیں، آیا ان کے لیے نئی جگہ پہنچنا ممکن ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ ان تین دہائیوں کے دوران جو کچھ سیکھا اور جو محبت و خلوص پایا، اس کی یادیں اب ہماری زندگی کا اثاثہ ہے۔ رفاقتوں کے ان لمحات کو فراموش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گھر کی نشست گاہ میں گزرے روز و شب اکثر و بیشتر ذہن کے گوشوں میں مہکتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔