گل ہائے نعت

امجد اسلام امجد  جمعرات 16 جولائی 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

ارادہ تھا کہ اس بار رمضان کے دوران سارے کالم نعت اور نعت سے ملحقہ موضوعات پر لکھوں گا مگر وہ جو جناب علیؓ کا قول ہے کہ ’’میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘ تو ادھر بھی کچھ ایسی ہی صورت حال بن گئی کہ پہلے عشرے میں سید مبارک شاہ اور دوسرے عشرے میں عبداللہ حسین ہم سے جدا ہو گئے اور یوں دو کالم ان کی یادوں کی نذر ہو گئے کہ یہ ان کا حق تھا اور ہم سب کا فرض۔ یہ کالم عید سے پہلے کا آخری کالم ہے سو اس میں نعت کے جدید ترین دور یعنی عصر حاضر میں کہی گئی چند نعتوں پر ہی بات ہو سکے گی کہ سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے۔

زاہد فخری غزل کے راستے سے اقلیم شعر میں داخل ہوئے اور پھر مزاح کے ایوان میں جاگزین ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت کم اس طرف توجہ دی گئی کہ وہ نہ صرف نعت کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں بلکہ ان کا ایک پورا مجموعہ ’’محمدؐ محمدؐ‘‘ کے عنوان سے 2001ء میں شایع بھی ہو چکا ہے سو ابتدا انھی کی ایک نعت سے کرتے ہیں جس کا ہر ایک شعر آرزو اور تمنا کی ایک ایسی سرشاری کا آئینہ دار ہے جو قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے

ساری صدیوں پہ جو بھاری ہے وہ لمحہ ملتا
کاش سرکارؐ دو عالم کا زمانہ ملتا
آپ کو دیکھتا طائف میں دعائیں دیتے
یوں مرے صبر و تحمل کو سلیقہ ملتا
آپؐ کے پیچھے کھڑے ہو کے نمازیں پڑھتا
آپؐ کے قدموں کے پیچھے مجھے سجدہ ملتا
بھول جاتا میں کسی طاق میں آنکھیں رکھ کر
آپؐ کو دیکھتے رہنے کا بہانہ ملتا
حشر تک میری غلامی یونہی قائم رہتی
میری ہر نسل کو فخری یہی ورثہ ملتا

خالد احمد ہماری ہم عصر نسل کا ایک بہت بڑا اور اہم شاعر تھا اس نے نعتیہ قصائد کی روایت کو جس حیات نو اور وقار سے آشنا کیا ہے وہ اسی کا حصہ ہے اس کی بہت سی زندہ جاوید اور بابرکت نعتوں میں سے میری ایک بہت پسندیدہ نعت یہ ہے
تو نے ہر شخص کی تقدیر میں عزت لکھی
آخری خطبے کی صورت میں وصیت لکھی
تُونے ہر ذرے کو سورج سے ہم آہنگ کیا
تونے ہر قطرے میں اک بحر کی وسعت لکھی
حسن آخر نے کیا حسن کو آخر تجھ پر
آخری روپ دیا‘ آخری سورت لکھی
تیرے اوصاف فقط تجھ سے بیاں ہوتے ہیں
نعت خود لکھی‘ بہ پیرائیہ سیرت لکھی
خالد احمد تیری نسبت سے ہے خالد احمد
تونے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی

چونکہ اب مکمل نعت درج کرنے کی گنجائش نہیں ہے اس لیے میں ماہنامہ ’’بیاض‘‘ کے تازہ شمارے میں درج نعتوں کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں کہ ان سے آپ اس بہار کا کسی حد تک قیاس کر سکتے ہیں جس کی خوشبو میں ہمارے آج کے یہ عاشقان رسول نہائے ہوتے ہیں۔
آئینہ سیرت جو عنایت نہیں ہوتا
انساں نے خدوخال سنوارے کہاں ہوتے
جلیل عالی
صبح صادق ہے‘ کعبہ مرے سامنے ہے‘ میں سجدے میں ہوں
میری آنکھوں میں ہے آنسوؤں میں چھلکتی ہوئی کالی کملی
اعجاز کنور راجہ
شامل حال مرے ان کی دعا ہو جائے
مجھ کو ہر راز حقیقت کا پتہ ہو جائے
سید ریاض حسین زیدی
دیکھ کر ہو جائے گی امت کو بخشش کی امید
حشر میں جب ہو گا چہرہ آپؐ کا پیش نظر
صابر عظیم آبادی
عشق نبیؐ کی ہریالی ہو میری فصلوں میں
میرے خدا یہ نعمت رکھنا میری نسلوں میں
محمد انیس انصاری
شہر نبیؐ کو جانا ہے اشکوں میں ڈھل کے جا
یہ راہ پاؤں سے نہیں‘ پلکوں سے چل کے جا
جمیل یوسف
آپؐ کی شان کے لفظ ملتے نہ تھے میں پریشان تھی
آپؐ نے لفظ بھیجے تو آقا مری‘ نعت بھی ہو گئی
نجمہ شاہین کھوسہ
آقاؐ کا کرم ہے کہ کسی حال میں مجھ پر
آنے نہیں دیتے کبھی دشوار شب و روز
پہنچے سدا فلاک یہ فریاد ضروری
اے سرور کونینؐ ہے امداد ضروری
رخشندہ نوید
طوفاں میں جیسے دور سے ساحل دکھائی دے
میں ان کو سوچ لوں مجھے منزل دکھائی دے
اور آخر میں برادرم ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور عزیزی عامر جعفری کی فرمائش پر اپنی ایک نعتیہ نظم اس امید اور دعا کے ساتھ کہ جس جس نے بھی نعت کہنے کی سعادت حاصل کی ہے ان سب پر مولا کریم اپنا خاص فضل فرمائے۔
اداسی کے سفر میں جب ہوا رک رک کے چلتی ہے
سواد ہجر میں ہر آرزو چپ چاپ جلتی ہے
کسی نادیدہ غم کا کہر میں لپٹا ہوا سایہ
زمیں تا آسماں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے
گزرتا وقت بھی ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے
تو ایسے میں تری خوشبو
محمدؐ مصطفے صل علیٰ کے نام کی خوشبو
دل وحشت زدہ کے ہاتھ پر یوں ہاتھ رکھتی ہے
تھکن کا کوہ غم ہنستا ہوا محسوس ہوتا ہے
سفر کا راستہ کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔