پرانے لوگوں کی نئی باتیں

امجد اسلام امجد  جمعرات 23 جولائی 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

رات برادرم خالد چشتی اور ساجد حبیب اپنی بیگمات کے ساتھ غریب خانے پر تشریف لائے تو باتوں باتوں میں کچھ بزرگ احباب سے وابستہ دلچسپ واقعات کا سلسلہ چل نکلا اور ہم بہت دیر تک ان رفتگاں کی زندہ رہ جانے والی باتوں کو یاد کر کر کے لطف اندوز ہوتے رہے۔ دونوں دوستوں کا اصرار تھا کہ میں ان واقعات کو اپنی سوانح عمری یا کسی اور شکل میں محفوظ کر دوں تاکہ وہ تمام لوگ جو ان بڑے لوگوں کی خوش طبعی اور حاضر جوابی سے دلچسپی رکھتے ہیں ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔

میں نے عرض کیا کہ یہ بات مجھ سے کئی اور دوست بھی کر چکے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوجوہ کچھ ایسے عجیب قسم کے رویے رائج ہو چکے ہیں جنھیں نرم سے نرم الفاظ میں بھی ’’مریضانہ‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک تو ہم میں خود پر ہنس سکنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور دوسروں کی باتوں پر ہنستے وقت بھی ہمارا عمومی رویہ تضحیک اور پھکڑ پن کا ہوتا ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ جو احباب ان مشاہیر سے من گھڑت اور خود ساختہ قسم کے واقعات نتھی یا تخلیق کر کے ایک طرح سے ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں وہی ان کی عام‘ حقیقی اور خوش طبعی پر مشتمل باتوں کے بیان کو گستاخی‘ بدتمیزی اور سنانے والے کی بدنیتی پر محمول کرتے نظر آتے ہیں اور عام طور پر ان راویوں کے چشم دید اور محبت آمیز بیان کو بھی یہ کہہ کر نشانہ تنقید بناتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی شہرت اور مقبولیت کے تکبر کی وجہ سے ’’ہمارے بزرگوں‘‘ کا مذاق اڑاتے ہیں اور میں یہ الزام کئی بار سہہ چکا ہوں۔

ساجد حبیب اور خالد چشتی دونوں پاک فضائیہ کے بہت سینئر ریٹائرڈ افسران ہیں اور دونوں کی حس مزاح بہت عمدہ ہے ان کا اصرار تھا کہ اس طرح کے لوگ تو ہر معاشرے اور ہر دور میں ہمیشہ سے رہے ہیں سو معاملہ ان کی کم ظرفی کا ہو یا ناپختہ حس مزاح کا‘ اس اقلیت کے جرم کی سزا اس بہت بڑی اکثریت کو نہیں ملنی چاہیے جن کے لیے یہ باتیں کسی روحانی ٹانک سے کم نہیں اور جن کے واسطے ان مقتدر شخصیات کا یہ مختلف روپ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس کی وجہ سے یہ پہلے سے محبوب لوگ‘ محبوب تر ہوجاتے ہیں، سو ان دوستوں کی تحریک اور عید کے خوشگوار ماحول اور موڈ سے حوصلہ پا کر میں چند ایک واقعات درج کرتا ہوں اور ایک بار پھر یہ ’’غیر ضروری‘‘ وضاحت بھی کرتا ہوں کہ میرا مقصد کسی کی دلآزاری یا مضحکہ اڑانا ہرگز نہیں ہے۔

تقریباً 33 برس قبل مرحومہ پروین شاکر سول سروس اکیڈمی لاہور میں اپنی تربیت مکمل کرنے کے لیے آئیں تو میں نے گلبرگ کے ایک چینی ہوٹل میں ان کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے تقریباً تمام اہم ادیب اور شاعر بشمول احمد ندیم قاسمی‘ اشفاق صاحب‘ بانو آپا‘ سید محمد کاظم‘ محمد خالد اختر‘ مستنصر حسین تارڑ‘ خالد احمد‘ عطا الحق قاسمی‘ نجیب احمد اور میرے کچھ غیر ادبی دوست مثلاً شمیم اختر سیفی‘ جاوید شیخ‘ رضا مہدی‘ افتخار بٹ‘ انیس الرحمن‘ محمود قریشی‘ مظفر بخاری‘ استاد اختر اور باؤ رزاق بھی موجود تھے (افسوس کہ اب ان میں سے محمود قریشی اور افتخار بٹ کے سوا سب ہی سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہیں) اس محفل کی مہمان خصوصی تو پروین شاکر ہی تھیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ نصف رات تک چلتی ہوئی شام ملکہ ترنم نور جہاں کے نام رہی کہ اس دن وہ معمول سے بھی زیادہ خوشگوار موڈ میں تھیں، انھوں نے بہت سی دلچسپ اور مزیدار باتیں ایسی شاندار نقالی mimicry کے ساتھ سنائیں جو کم از کم اس وقت میرے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا ایک واقعہ کچھ یوں تھا کہنے لگیں۔

’’کل ایک آدمی مجھے ملنے آیا اور بتانے لگا کہ ملکہ پکھراج نے ان کی دعوت کی ہے جس میں ہرن کے کباب بھی شامل تھے۔ میں نے کہا ہاں شاہ جی (طاہرہ سید کے والد) نے اپنی وفات سے تین سال پہلے ایک ہرن مارا تھا ان کے ڈیپ فریزر میں ابھی تک چل رہا ہے‘‘۔

ملکہ پکھراج سے ان کی یہ چھیڑ چھاڑ شاید اس لیے بھی زیادہ تھی کہ دونوں ہم عصر بھی تھیں ہم عمر بھی اور ہم پیشہ بھی۔ ایک بار وہ اسلام آباد کی فلائٹ پر میرے ساتھ PTV کے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے ہم سفر تھیں ان  دنوں ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید کا ایک پروگرام ’’سر کا سفر‘‘ کے نام سے چلتا تھا، اپنے مخصوص انداز میں لفظوں کو لمبا کر کے اور آنکھوں میں شرارت بھر کر بولیں’’ آپ دیکھ رہے ہیں یہ دونوں ماں بیٹیاں آج کل کیا کر رہی ہیں وہ کیا نام ہے ان کے پروگرام کا ’’سر کا صفر‘‘  اب اس سفر کو صفر کرنے میں جو لطف اور بے ساختہ طنز ہے وہ انھی کا حصہ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔