خاندان حساب کی تاریخ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 23 جولائی 2015
barq@email.com

[email protected]

لیجیے ہماری رگ تحقیق پھر پھڑکی اور ایسی پھڑکی کہ ہم خود بھی پھڑک پھڑک گئے بلکہ کہئے تو پھڑکی نہیں بلکہ پھڑکائی ہوئی ہے، اچھے بھلے بیٹھے تھے حکومت کی مہربانی اور دکانداروں کی مساعی جمیلہ سے بیک وقت دو دو یعنی ’’ٹو ان ون‘‘ مزے لے رہے تھے جن میں ایک مزا تو وہ ہمارا پرانا مہنگائی کا تھا اور دوسری اس کے ساتھ رمضان کی شاندار جوڑی بن گئی تھی، ظاہر ہے ان دونوں ’’مزوں‘‘ کے درمیان ہم سینڈوچ بنے آرام سے جی رہے تھے کہ اچانک مارکیٹ میں یہ نئی مصیبت نازل ہو گئی چنانچہ سیاست کے میلے میں صحافت کے بازار میں اور بیانوں کی دکانوں میں ایک نئے موضوع کی بھرمار ہو گئی، احتساب احتساب احتساب، جسے دیکھو احتساب احتساب کر رہا ہے۔

اس کم بخت احتساب کا تعلق ہمارے ایک پرانے جدی پشتی دشمن ’’حساب‘‘ سے نکل آیا جس نے ہمیں اسکول سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا تھا اور تب سے اب تک ہر وقت ہر جگہ ہر مقام پر اس کے ہاتھوں زچ ہو رہے ہیں، لیکن ہم نے بھی جوابی طور پر کوئی کسر نہیں رکھی کہ حساب اور اس خاندان کے ہر چٹے بٹے سے قطع تعلق کر لیا، نہ ان کے منہ لگتے ہیں نہ یہ ہمارے منہ لگتا ہے لیکن آج اسی کم بخت کے کوچے میں جانا پڑرہا ہے

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو میں

ویسے تو گرامری شجرے کے مطابق اس منحوس خاندان کی ابتدا ’’حسب‘‘ سے ہوتی ہے لیکن اس بدمعاش ’’حساب‘‘ نے اورنگزیب کی طرح اس کے ہاتھ سے اقتدار و اختیار چھین کر اپنے قبضے میں کر لیا اور ’’حسب‘‘ کو بچوں کے پڑھانے پر لگا دیا چنانچہ آج کل یہ جو یہاں وہاں اس خاندان کے اراکین پائے جاتے ہیں ان سب کا جد امجد حساب ہی ہے جیسے محاسبہ، محسوب، حاسب، حسوب اور نہ جانے کیا کیا۔

فارسی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانے میں اس خاندان کے ایک جد اعلیٰ ’’قاضی‘‘ کے بڑے چرچے تھے جو یہاں وہاں معصوم رندوں، مے نوشوں اور مے فروشوں پر چھاپے مارتا رہتا تھا بلکہ اس کم بخت نے عشق و عاشقی اور شعر و شاعری پر بھی بڑے اتیارچار کیے ہیں بلکہ آخر میں تو ہر شریف کا دشمن ہو گیا تھا کسی کو اچھا اور نیک پا کر پکڑ لیتا تھا جیسا کہ ایک محقق حافظ شیراز کا بیان ہے کہ

می خور کہ شیخ و حافظ و مفتی و محتسب
چوں نیک بنگری ھمہ تزردیر می کنند

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک پورا گینگ تھا جس میں شیخ و حافظ اور مفتی نام کے لوگ بھی اس کے ساتھ شامل تھے حافظ کے بیان کے مطابق یہ لوگ پھرتے رہتے تھے اور جہاں کسی ’’نیک‘‘ کو پاتے تھے اسے سزا دیتے تھے اس لیے اس نے کہا ہے کہ جلدی سے شراب پی ورنہ قاضی اینڈ کمپنی نے اگر تمہیں نیک اور شریف دیکھ لیا تو پکڑ لیں گے، اور یہ بیان سچ اس لیے لگتا ہے کہ اس کی یہ عادت یہ خو بو اور یہ طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ اس خاندان کا کوئی بھی رکن ہو کسی کو نیک پاتا ہے تو اسے پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچاتا ہے چنانچہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کالے چور بنو لیکن نیک اور شریف مت بنو کیوں کہ یہ قاضی نہ ان کا عندیہ ہے کہ جو برے ہیں یعنی ’’شراب‘‘ پیتے ہیں پلاتے ہیں بیچتے ہیں خریدتے ہیں وہ تو برے ہیں کون ان کے منہ لگے۔

لیکن یہ نیک شریف اور پارسا لوگ ہیں وہ کیوں ’’یہ یہ‘‘ اور ’’وہ وہ‘‘ کرتے ہیں مطلب یہ کہ قصائی کو تو جانے دو کہ کم بخت کے ساتھ چھری اور کلہاڑی ہے لیکن سبزی والے کو ہر گز نہ چھوڑ … پکڑ لو جکڑ لو کیفر کردار تک پہنچا دو، فارسی شاعری میں اس خاندان حساب و حسبان اورقاضی کے بارے میں بہت کچھ معلومات دی گئی ہیں علاوہ دوسرے اراکین کے کارناموں کے اس خاندان میں ایک شہزادی کا بھی ذکر آتا ہے جو چندے آفتاب و مہتاب کے ساتھ ساتھ سراسر غضب و عذاب بھی تھی اور جو کوئی اس شہزادی میڈیا ’’محاسبہ‘‘ کے زیر عتاب آجاتا تھا وہ پانی پانی ہو کر چلو بھر پانی میں فانی ہو جاتا ہے، اس شہزادی محاسبہ کا ذکر پیر و مرشد نے بھی کیا ہے کہ

اصل حسوب و حاسب محسوب ایک ہے
حیراں ہوں پھر ’’محاسبہ‘‘ ہے کس حساب میں

شہزادی محاسبہ کے والد محترم کا نام قاضی بتایا جاتا ہے ، کسی زمانے میں اس خاندان کا آفتاب اقتدار نصف النہار پر تھا اور عراق و فارس و شیراز میں اسی کا طوطی بلکہ مینا فاختہ اور تیتر بٹیر بولتا تھا لیکن پھر یہ خاندان عیاشی اور لہو لعب میں پڑ کر کہیں کا نہیں رہا، والد محترم جناب قاضی کی وفات ’’مسرت آیات‘‘ ہو گئی، میڈم قاضی نے ایک صاحب اقتدار کے ساتھ دو بول پڑھوا لیے اور جلوہ کثرت اولاد دکھانے میں جت گئی چناں چہ اس کے بچے وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے کچھ مدت تک تو یہاں وہاں پھرا کیے لیکن پھر ایک ’’پاک بستی‘‘ میں مستقل پڑ گئے۔

وہ خاندانی کام تو چھوٹ گیا لیکن پاک بستی میں نام کی مناسبت سے انھوں نے ایک واشنگ فیکٹری اور ڈرائی کلیننگ کی دکان کھول لی یہ کاروبار بہت ہی چل گیا کیوں کہ ’’پاک بستی‘‘ میں ایک تو ’’میل کچیل‘‘ زیادہ تھی بلکہ ہواؤں میں گرد و غبار کے مرغولے اٹھتے تھے اور لوگ طبعاً صفائی اور پاکی کو نصف ایمان سمجھتے تھے چنانچہ میلے کچیلے کپڑوں کے گٹھڑ کے گٹھڑ آنے لگے اور کاروبار میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو گئی چنانچہ یہاں کے لوگ دن رات یہ ترانہ گانے لگے کہ

دھونے سے اور بھی بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

ایک دن اچانک ایک افواہ پھیل گئی کہ محترمہ میڈیم قاضی بھی یہاں اپنے شوہر اقتدار کے ساتھ پدھارنے والی ہیں لیکن ان کے بچوں نے لوگوں کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو ہم ہیں نا ۔۔۔ جب تک ہم ہیں کیا غم ہے

او راکہ حساب پاک است
از محاسبہ چہ باک است

یعنی جن کا حساب پاک ڈرائی کلیننگ اور وائٹ واشنگ فیکٹری پاک کرتی ہے اسے بالکل محاسبہ سے نہیں ڈرنا چاہیے، رہا اس کا شوہر اقتدار تو اس سے تو بالکل بھی نہیں ڈرنا چاہیے کیو ںکہ اس سے ہماری بات ہو چکی ہے اور پچیس پچھتر کے حساب سے اس کے ساتھ معاہدہ طے پا چکا ہے، چنانچہ جو لوگ پاک بستی میں اپنا ’’حساب‘‘ صاف رکھتے ہیں اور میڈم قاضی کے بچوں کی پناہ میں ہیں وہ عیش کریں اور جتنا چاہیے حساب صاف کرتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔