عقیدہ اور انقلاب

عمران شاہد بھنڈر  جمعرات 23 جولائی 2015
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 68 برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس ملک کے عوام کی اکثریت ابھی تک بنیادی انسانی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں۔ ایک طرف بھوک، افلاس اور بیروزگاری ہے تو دوسری طرف بجلی، گیس اور شفاف پانی کی قلت ہے۔ دہشت گردی جو حکمرانوں کی غلط سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جہاں لوگ اس سے لقمہ اجل بن رہے ہیں تو وہاں لوگ بھوک، پیاس اور گرمی سے بھی مارے جا رہے ہیں، جو بلاشبہ مفاد پرستانہ سیاسی پالیسیوں ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔

حالات یہ ہیں کہ سماجی اور سیاسی سطح پر غربت، بھوک، استحصال، ناانصافی اور ظلم و دہشت نے عوام کو مضبوط حصار میں لے رکھا ہے، امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی تفریق مزید گہری ہوتی جا رہی ہے، مگر اس کے شعور کا فقدان ہے۔ عوام کی کسی بھی حوالے سے کوئی فکری رہنمائی نہیں ہے۔ سیاست دان اور مذہب پرست مسلسل لوگوں کو فکری و عملی سطح پر غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ معاشی، سماجی اور سیاسی تفریق میں اضافہ لوگوں میں طبقاتی شعور کو بیدار کرنے کی بجائے مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا رہا ہے۔

اس سارے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جن میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ لوگوں کا طبقاتی شعور اجاگر نہیں ہو رہا ہے اور عوام کیوں اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد سے گریزاں ہیں؟ لوگ کیوں موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ لوگ افلاس، بھوک اور گرمی سے گھروں اور سڑکوں پر پڑے ہوئے مر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے غم و غصے کو کسی انقلابی تحریک میں مجتمع نہیں کر پاتے ہیں؟ کیا عقیدہ، انقلاب کے راستے میں رکاوٹ ہے؟ جب کہ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ہر عقیدے کا آغاز ایک انقلابی تحریک کے طور پر ہی ہوا ہے۔

پھر تضاد کہاں پر ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست کسی بھی انقلابی سرگرمی کو روکنے کے لیے ریاستی جبری آپریٹس (فوج، پولیس ، عدلیہ وغیرہ) اور ریاستی آئیڈیالوجیکل آپریٹس ( تعلیم، مذہب، تصوف، اسپتال وغیرہ) کا استعمال کرتی ہے، لیکن پاکستان میں مختلف طبقات کے درمیان جنم لینے والے تضادات و کشمکش درست سمت میں متعین ہونے سے جو پہلو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے اور جس کی وجہ سے سماج میں جنم لینے والی انقلابیت التوا کا شکار ہے وہ ’عقیدے‘ کا اہم کردار ہے۔

یہاں عقیدے کا پرچار صرف اور صرف ریاستی اداروں ہی میں نہیں ہوتا بلکہ گھر سے محلے اور مسجد و مدارس سے ’جدید‘ تعلیمی اداروں تک طالبِ علموں اور عام لوگوں کے اذہان میں عقیدے کو راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عقیدے کو لوگوں کے اذہان میں اس لیے راسخ نہیں کیا جاتا کہ اس کے مبلغوں کے باطن میں لوگوں کے لیے سچی محبت پیدا ہو چکی ہے اور یہ مبلغ نہیں چاہتے کہ لوگ مرنے کے بعد جہنم میں جائیں، یہ ممکن نہیں ہے کہ جن لوگوں سے محبت ہو ان کے لیے اس دنیا کی جہنم کو تو قابل قبول بنانے کے لیے باقاعدہ تبلیغ کی جائے اور اگلی دنیا میں انھیں جنت کی بشارت دے دی جائے۔

یہ گہرا تضاد ہے جسے دنیا اور آخرت میں اعلیٰ زندگی کی تفریق کو ختم کر کے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ اگلے جہاں میں جنت کی ملّائی بشارت کا واحد مقصد مذہبی آئیڈیالوجی کی تبلیغ کر کے لوگوں کے اذہان پر تسلط برقرار رکھنا ہوتا ہے، انھیں مسلسل غلامی کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو اگر مفاد پرستانہ تعلیمات سے نجات مل جائے تو یہ بنیادی طور پر سیکولر ہیں۔ اگر ان پر سیاست مسلط نہ کی جائے تو وہ اپنے عقیدے سمیت جدید سیکولر سماج سے ہم آہنگ ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن عقیدے کے انتہا پسندانہ استعمال سے لوگ ’سچائی‘ دیکھنے کے اہل نہیں رہتے ہیں۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ جہاں ایک طرف لوگوں کے عقائد کا استحصال موجود ہے، جس کا استعمال کر کے انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ ’روشن خیال‘ اور ’ترقی پسند‘ ہیں جو عقیدے کے سیاسی استعمال اور اعتدال پسندلوگوں کے قلب و ذہن میں ان کے عقیدے کے لیے تقدس کے پہلو کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ یہ لوگ عقیدے کے سیاسی کردار کو نشانہ بنانے کی بجائے عقیدے پر عمومی انداز میں حملہ کرتے ہیں۔

پاکستان جیسے عقیدہ پرور معاشرے میں عقیدے پر اس قسم کی غیر سنجیدہ اور سماجی حرکیات سے نابلد ہو کر علمی تنقید کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اعتدال پسند لوگوں نے انقلابی جدوجہد کو عقیدے کا ایک اہم حریف تصور کر لیا ہے۔ لوگوں کو اس سوچ پر مجبور کرنے میں سب سے اہم کردار انھی انقلاب کا نعرہ لگانے والوں نے ادا کیا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ لوگوں کی اکثریت افلاس، غربت، ناانصافی، ظلم اور استحصال کا شکار تو رہنا چاہتی ہے مگر اپنے عقیدے کو انقلاب کی’ بھینٹ‘ نہیں چڑھانا چاہتی ہے۔

سماجی سطح پر کسی بھی انقلابی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے فطری سائنسوں اور سماجی سائنسوں کے درمیان واضح فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ سماجی سائنس کا آغاز کسی تجریدی تعقل پسند نظریے سے نہیں کیا جا سکتا، جو صرف خود کو تھیوری کی سطح پر درست ثابت کرتا ہو۔ کیونکہ سماج میں جذبات و احساسات کے حامل انسان رہتے ہیں، ان میں سے بیشتر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ اس دنیا میں ناانصافی، ظلم اور استحصال ہوتا ہے انھیں اس کا صلہ اگلے جہاں میں ملتا ہے۔ اس خیال کو جس طرح پیش کیا جاتا ہے، اس سے سماجی سطح پر ذلت و رسوائی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔

سماجی جدوجہد میں اس خیال سے نبرد آزما ہونے کا طریقہ یہ نہیں کہ لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کا عقیدہ غلط ہے، بلکہ انھیں اس نکتے پر لایا جائے کہ جس طریقے سے ان کے جذبات و احساسات کو یرغمال بنایا جا رہا ہے اس کے مقاصد مذہبی نہیں، بلکہ سیاسی نوعیت کے ہیں، ایسے رہنما اپنے پیروکاروں کو آخرت میں جنت کا لالچ دیتے ہیں۔ وڈیرے، جاگیر دار، سرمایہ دار خود تو پارلیمان میں پہنچنے کے لیے کوشش کریں مگر اپنے پیروکاروں کو مزاروں پر بیٹھنے کا درس دیں تو اس وقت ضروری یہ ہے کہ لوگوں میں اس تفریق کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سماجی انصاف کا شعور بیدار کیا جائے۔ ان میں ارضی جنت کا احساس پیدا کر تے ہوئے ان کی اور ان کے رہنماؤں کی زندگیوں کے درمیان معیاری فرق کو اجاگر کیا جائے۔

سماجی سائنس میں تعقل پسندی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ پہلے اپنے ذہن میں خیالات و افکار کا ایک خاکہ تیار کر لیا جائے اور اس کے بعد اس کے اطلاق کی کوشش شروع کر دی جائے۔ سماجی سائنس معروضی صورتحال کے معروضی تجزیے پر زور دیتی ہے، جس کا بنیادی نکتہ اس حقیقت کا جائزہ لینا ہے کہ کسی بھی سماج میں وہ کون سے عوامل ہیں جو انقلابی تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ان سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے! جس سماج میں لوگوں کی اکثریت سماجی معاملات کو مذہب کی نظر سے دیکھتی ہو وہاں مذہب کو کبھی بھی انقلابی نظریے کے ساتھ تضاد میں لانے سے مثبت نتائج برآمد نہیں کیے جا سکتے۔

’عقیدے‘ کے کردار کی تبدیلی کو وسیع تر مفہوم میں سماجی انقلاب سے جوڑ کر دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان جیسے سماج میں اشتراکیت جیسے انسان دوست نظریے کے ساتھ بھی یہی المیہ پیش آیا ہے کہ اس کے مبلغوں نے لوگوں میں استحصال و ظلم کی نوعیت اور اس کی روشنی میں ان کے باطن میں طبقاتی شعور کو بیدار کرنے کی بجائے، براہِ راست اشتراکیت کو مذہب کا مدِ مقابل بنا کر پیش کیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اشتراکیت میں موجود وہ تمام پہلو جو سماجی انصاف کی اہمیت کو واضح کرتے تھے، وہ تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے۔

بیشتر لوگ اشتراکیت کے بارے میں جاننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔اشتراکیت کے نام لینے سے ان کے ذہن میں پہلا خیال یہی آنا چاہیے تھا کہ اس نظریے کا بنیادی مقصد استحصال و ظلم، امتیاز و تفریق اور مساوات کی بنیاد پر ایک ’مثالی‘ معاشرے کو قائم کرنا ہے، مگر جس طریقے سے اسے پیش کیا گیا ہے، اس سے پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ اس نظریے کا اکلوتا مقصد ’الحاد‘ کی تبلیغ کرنا ہے۔

جس معاشرے میں لوگ ظلم، تشدد، غربت و افلاس اوراستحصال کے خاتمے سے زیادہ اہمیت عقائد کو دیتے ہوں وہاں نظریات کی اشاعت میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ عقیدہ جب لوگوں کے ذہن و قلب پر نقش ہو جائے تو اسے ’باطل شعور‘‘ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مخصوص طبقاتی پس منظر میں اس کی نظری تشریح ’باطل شعور‘ کے طور پر ضرور کی جا سکتی ہے، مگر ذہن میںیہ رہنا بھی ضروری ہے کہ جب کوئی نظریہ لوگوں کے شعور کا لازمی حصہ بن جائے تو اس نظریے کی طاقت کو نہ دیکھنا بھی ایک طرح سے ’باطل شعور‘ ہی کے مماثل ہوتا ہے۔ لوگوں کی ترجیحات کو دیکھ کر، ان کا محتاط انداز میں تجزیہ کر کے ہی سماجی لازمیت کی جانب ان کے شعور کا رخ متعین کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔