پاکستان کی قومی زبان

انیس باقر  جمعـء 24 جولائی 2015
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی قومی زبان، اردو اور صرف اردو ہوگی، یہ تھے الفاظ بانی پاکستان محمد علی جناح کے۔ مگر 68 برس بعد بھی اس قول پر عمل نہ ہوسکا۔ درمیان میں 1978 میں دستور پاکستان کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ 15 برس بعد اس پر عمل درآمد ہوگا۔

اس بیان پر عمل کرانے کے لیے ایک اردو دوست نے پٹیشن داخل کی تھی جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک بینچ آج 14 برس بعد اس کی سماعت کا جائزہ لینے کے لیے بیٹھے گا۔ حکومت کی جانب سے سیکریٹری اطلاعات پیش رفت کا جائزہ لیں گے، لفظ پیش رفت ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیکریٹری صاحب الفاظ کے فروغ میں تندہی سے مصروف ہیں مزید وقت درکار ہے کہ مزید نئی انگریزی اصطلاحات کو اردو میں متعارف کروا سکیں۔

ایسا ہر گز نہیں کیونکہ اس زبان میں اگر گلی کوچوں کو لگا لیں تو کروڑوں شاعر پیدا ہوچکے ہیں اور مستند ہزاروں شعرا صاحب دیوان ہیں، زیر بحث آتے ہیں۔ زبان کے آہنگ کو درست کرنے کے لیے سیکڑوں شعرا پیدا ہوئے اس زبان کی سبک روی، پیپل کی چھاؤں جیسی ہے جس کا ہر پتا دوسرے سے ٹکرا کے جھانجھ کی آواز نکالتا ہے۔ انگریز حکمرانوں نے اردو کی سرپرستی اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے دی اورکلکتہ میں فورٹ ویلیم کالج کی بنیاد رکھی۔

بالکل اتنی دراز زبان جو شیرشاہ سوری کی گرینڈ ٹرنک روڈ کی طرح پھیلی ہوئی، اگر برصغیر تقسیم نہ ہوتا تو بلاشبہ ہندوستان کی یہ قومی زبان ہوتی۔ مگر اردو زبان کے آخری بڑے شاعر جوش جس پر جواہر لعل نہرو بھارت کے اول وزیر اعظم کو ان کی پاکستان روانگی نے بڑا دھچکا لگایا۔ نہرو جوش صاحب کو روکنے کے لیے ڈپارچر لاؤنج تک آئے مگر جوش صاحب نہ رکے اور پاکستان آگئے۔ویسے بھی اردوپر مسلمانوں کی زبان ہونے کی پیوند کاری مہاسبھائی کرتے رہے۔

مگر اردو زبان تو اپنی سیکولر رنگت برقرار رکھے رہی۔ اس کے شعرا ادبا نے ترقی پسند تحریک کے ذریعے اردو کو کسی خاص مسلک رنگ اور رنگت کا حامی قرار نہ دیا۔ اردو زبان پر پاکستان میں قومیتوں پر برے اثرات ڈالنے کی تہمت لگائی جاتی رہی اس سے سندھی کے معروف شاعر شیخ ایاز بھی نہ بچ سکے۔ بعض لیڈروں کو بھی اردو کا خوف طاری تھا مگر ابلاغ کی قوت نے اردو کو مٹنے نہ دیا۔ بھارتی فلم انڈسٹری نے اردو زبان کو ہمیشہ بلند رکھا جس سے انڈسٹری کو بہت فائدہ ہوا۔

اب بھارت کے کئی صوبوں کی سرکاری زبان اردو ہے، اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے کئی کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس کی بدولت بھارت میں اردو زبان کے شعرا اور ادبا کے حالات پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ جب کہ پاکستان میں اردو زبان میں ترقیاتی کام ہو رہا ہے اور نہ ہی اردو کتب پر ٹی وی چینل گفتگو کرتے ہیں جب کہ یہ اردو زبان ہے جس نے اتنے لوگوں کو روزگار سے آسودہ حال کیا ہے۔

مگر اردو زبان میں بیشتر کمنٹری بے سود اور لاحاصل ہوتی ہے اور غلط تلفظ کی زبان دانی جاری و ساری ہے اردو زبان کا سفر طویل ہے اس کی سماجی، تہذیبی، مذہبی قوت کسی مسلک کی محتاج نہیں۔ اور نہ یہ حکومتوں کی محتاج ہے، نہ کورٹ، نہ تھانہ، نہ پولیس بلکہ یہ سب اردو کے محتاج ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ تمام اردو ادب کے حصار میں آجائیں گے یہ تو آج کے سیکریٹری اطلاعات فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں، بھلا یہ کیا فیصلہ کریں گے۔

عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں شعبہ طب میں تمام شعبے اردو زبان میں موجود تھے۔ نواب عثمان علی خان علمی ادبی کاموں پر خطیر رقم خرچ کرتے تھے۔ آپ سوچیں کس قدر اچھا لگتا ہے جب اقوام متحدہ میں روس، چین، فرانس اور دیگر ممالک کے مندوب اپنی قومی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ اور پھر ہمارے مندوبین ٹوٹی پھوٹی انگریزی، ان کا اردو اور مقامی زبانوں کا ملا جلا لہجہ انگریزی کی تھالی میں گوندھا ہوا، ہماری ترجمانی کرتا ہو تو کیسا لگتا ہے۔

اور دیگر قوموں کی نظر میں ہمارا وقار کیا ہوتا ہوگا۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو پاکستان میں اردو کو محض اقتدار میں رہنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مگر اس کو سرکاری یا دفتری زبان کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کی اصل وجہ محض طبقاتی سوچ ہے، حکمران طبقے نے جو بنیادی طور پر انگریزوں کا فکری طور پر غلام تھا،اس نے انگریزی کو اختیار کیا۔

انگریز چاہتا تھا کہ ہم تو جا رہے ہیں مگر ہمارے جانے کے بعد کس طرح یہ ہماری گرفت میں رہے اس کے لیے یہاں ایسی لابی (Lobby)ہونی چاہیے جو عالمی طور پر ہماری بغل بچہ ہو، یعنی اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی ہماری تابع ہو اس کے لیے اس کی تربیت یافتہ ٹیم ضروری تھی، اس کا نظام سلطنت، سیاسی اور معاشی نظام، اسی لیے ایسے حکمران درکار تھے جو لکھے پڑھے ہوں یا نہ ہوں بس ان کو ایسے حاکموں کی ضرورت ہے جن سے وہ باآسانی گفتگو کرسکیں۔ اپنا مدعا پیش کریں اور اپنا ڈکٹیشن یعنی املا لکھا سکیں لہٰذا وہ جاتے جاتے اپنی لابی پاکستان اور بھارت میں چھوڑ گئے۔

بھارت کے ساتھ تھوڑا سا مسئلہ یہ تھا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو فیشن کے اعتبار سے سوشلسٹ تھے لہٰذا انھوں نے روس نوازی اختیار کی اور جاگیرداری ختم کی۔ اس سے دو فائدے ہوئے۔ زیادہ تر جاگیردار مسلمان تھے۔ ان کو کٹ ٹوسائز (Cut to Size) کیا۔ ان کی معاشی قوت کمزور ہوگئی اور سوشلزم کے ایک عمل پر عمل درآمد بھی ہوگیا پھر ملک کو مجموعی طور پر فائدہ ہوا۔ دوئم پاکستان کے حکمران قطعی طور پر انگریز سرکار کے کاسہ لیس تھے، سو وہ اس پر عمل پیرا رہے۔

اسی لیے پاکستان نے نیٹو حکم پر ہمیشہ عمل درآمد کیا۔ اس کی ایک مثال ملا ضعیف جو افغان حکومت کے پاکستان میں سفیر تھے ان کو امریکا کے حوالے کرنا، بات یہ نہیں تھی کہ وہ طالب تھا، بات اصول کی تھی کہ وہ طالب تھا یا مطلوب۔ اصولی طور پر وہ سفارت کار تھا۔ جس حکومت کو پاکستان نے تسلیم کیا تھا یہ تاریخ عالم کا انوکھا واقعہ تھا، یہ حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کا قیدی تو ہوسکتا تھا مگر امریکا کا ہرگز نہیں۔ یہ عالمی سفارتکاری کے اصول سے ہٹ کر ایک واقعہ تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی محض مغرب نواز رہی ہے۔

اس کی وجہ انگریز تسلط کے زیر اثر، آپ کہیں گے کہ بات اردو زبان کی ہے تو یہاں سیاست کیسے آگئی جی ہاں پاکستان کو کھوٹے سکے ہی حکمران ملے۔ جس کا اظہار قائد اعظم نے اپنی آخری تقریر میں فرمایا اور پھر یہی جملے موہٹا پیلس میں 1964 میں مادر ملت سے صدارتی انتخاب لڑنے سے قبل سنے۔ لہٰذا مفاد پرست ٹولے کو اردو زبان کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرنا ہے نہ کہ دفتری زبان کے طور پر، اردو زبان دنیا کے تمام بڑے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے اس زبان میں انگریزی زبان کے ہر لفظ کو ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ بعض اعتبار سے اردو زبان فارسی اور عربی کے بعض الفاظ پر مضبوط گرفت رکھتی ہے مثلاً گ، اور ج کی آواز نرگس اور نرجس کی آواز اسی لیے داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

مگر پھر بھی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ پاکستان میں نہ ملے گا کیونکہ مفکر پاکستان علامہ اقبال اور معمار پاکستان قائد اعظم دونوں ہی اس ملک کو اردو زبان کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے پہلے ایک عذر لنگ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش تھا سو وہ بھی جاتا رہا اب دیر کیسی ہے؟ لیکن اردو زبان یوں ہی پیشیاں بھگتتی رہے گی اور نافذ نہ ہوگی کیوں؟ وہی طبقاتی پہلو۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔