سیلاب سے مزید 14 افراد ہلاک، متاثرین کو نئے گھر بنا کر دیں گے، وزیراعظم

ویب ڈیسک  جمعـء 24 جولائی 2015

رحیم یار خان: وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کے کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنا ہو گا، ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلیے انتظامات مکمل رکھے جائیں۔امدادی ٹیمیں اچھا کام کر رہی ہیں تاہم اگر پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا تو بڑا سیلاب آنے کا خدشہ ہے۔

رحیم یار خان کے علاقے چاچڑاں شریف میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے موقع پر انھوں نے کہا کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر بند پر آباد ہونے والے متاثرین سیلاب کی مشکلات صرف اس وقت کم ہو سکتی ہیں جب ان کی بھرپور مدد کی جائے اور ان کے دکھوں کا ازالہ کیا جائے۔ انھوں نے مظفر گڑھ میں سیلاب کے باعث3بچوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ متعلقہ محکموں کو مزید محنت کی ضرورت ہے۔ چترال میں سیلاب بارشوں سے نہیں بلکہ گلیشئرز پگھلنے کی وجہ سے آیا۔ حکومت مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور ان کی مشکلات کا مداوا جبکہ نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ انھوں نے متاثرین کے لیے لگائے گئے ریلیف کیمپوں کا بھی تفصیلی معائنہ کیا۔

ڈی سی او کیپٹن (ر) ظفر اقبال نے وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا کہ دریائے سندھ میں سیلاب سے ضلع رحیم یار خان میں41 ہزار 396ایکٹر رقبے پر کھڑی فصلیں66 دیہات، 3400مکانات متاثر ہوئے ہیں۔ زیر آب بستیوں میں سے70 فیصد آبادیوں کا محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ ضلع بھر میں انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ خیمہ بستیوں میں 60 خاندان پناہ گزین ہیں جنھیں کھانا، ادویات سمیت تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ارکان اسمبلی شیخ فیاض الدین اور نواز رند کے توجہ دلانے پر وزیراعظم نے قدیمی قصبہ چاچڑاں شریف کیلیے4کروڑ کی لاگت سے سیوریج اسکیم دینے کا اعلان کیا اور چیف سیکریٹری پنجاب کو فوری اقدام کرنے کی ہدایت کی اور ایم پی اے مخدوم مسعود عالم کے کہنے پر لیاقت پور کے حفاظتی بند کو بھی مضبوط کرنے کے احکامات دیے۔ انھوں نے بہترین انتظامات پر ڈی سی او کیپٹن (ر) ظفر اقبال اور امن و امان کے قیام پر ڈی پی او طارق مستوئی کو شاباش دی۔

نواز شریف نے کہا کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ گھروں کی تعمیر کیلیے امداد فراہم کرے گی۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہلے سے کشتیاں پہنچنی چاہئیں تھیں۔ متاثرین کو منتقل کرنے کیلیے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کرینگے۔ امدادی ٹیمیں اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دیں اور متاثرین کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کریں۔ متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ متاثرین کو دوائیاں اور کھانے پینے کی اشیا وقت پر فراہم کی جائیں اور ان سے اچھا سلوک کیا جائے تاکہ ان کے دکھوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ کیا جاسکے۔ انھوں نے چیف سیکریٹری پنجاب سے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں مزید کشتیوں کا انتظام کریں۔ آن لائن کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالی پاکستان کو تمام قدرتی افات سے محفوظ رکھے۔ بے گھر ہونے والے متاثرین کو نئے گھر بنا کر دیں گے اور تخمینہ لگا کر ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائیگا۔ متاثرین جلد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کیلیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اس ضمن میں کسی اہلکار کی طرف سے کوئی سستی برداشت نہیں کی جائے ۔

دوسری جانب ملک کے مختلف علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ڈوبنے، کرنٹ لگنے اور آسمانی بجلی گرنے سے مزید14 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز دریائے سندھ کا سیلابی ریلا جہاں سے گزرا ہر شے ملیا میٹ کر گیا۔ گھوٹکی کے علاقے کچے میں70 سے زائد دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ جی او سی پنوں عاقل میجر جنرل عارف وڑائچ نے قادر پور لوپ بند کا دورہ کیا اور انتظامیہ کو کچے کے علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کی ہدایت کی۔ لاڑکانہ کے قریب ایل ایس حفاظتی بند پر سیلابی ریلے کے دبائو میں اضافہ ہوگیا جس کے باعث50 سے زائد دیہاتوں میں پانی داخل ہوگیا ہے۔ نوابشاہ میں نہر میں شگاف پڑنے سے وسیع علاقہ زیرآب آگیا۔ سیلاب سے لیہ کاڈھائی لاکھ ایکڑ رقبہ جبکہ382 بستیوں کے دو لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ میانوالی کے علاقے محمد شریف والی کے مقام پر بند ٹوٹنے سے پانی درجنوں دیہات میں داخل ہوگیا۔ راجن پور میں بیٹ سوترہ بند ٹوٹ گیا، پانی قریبی دیہات میں داخل ہوا تو ہر شے ملیامیٹ ہو گئی۔

ڈیرہ غازی خان میں گزشتہ روز جکھڑ امام شاہ بند میں پڑنے والا شگاف ڈیڑھ سو فٹ چوڑا ہوگیا اور پانی قصبہ شیرو کی جانب بڑھ رہا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اداروں اور پاک فوج کی جانب سے امدادی کارروائیاں جاری رہیں۔ مظفرگڑھ میں داخل ہونے والا درمیانی درجے کا سیلابی ریلا کوٹ ادو سے گزرتا ہوا تحصیل علی پور کے علاقے سرکی پہنچ گیا ہے۔ سیلاب روڈو سلطان میں بھی متعدد دیہات میں داخل ہوگیا ہے۔ ادھر چترال میں بارشوں اور سیلاب کے باعث مرنے والوں کی تعداد9 ہوگئی ہے۔ رابطہ سڑک بہہ جانے سے اپرچترال کا متبادل زمینی راستہ بند ہوگیا۔ گلگت بلتستان کے اضلاع استور اور غذر میں حالیہ بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں سے نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ تورکوہ میں رائیم ندی میں طغیانی سے رابطہ پل بہنے سے تورکوہ کا رائیم سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ لوند، برنس اور ریشن کی ندی نالوں میں بھی طغیانی آگئی ہے۔ کیلاش ویلی، بندو گائوں، شوگرام، گوہکیر کے علاقوں میں بھی سیلابی ریلا داخل ہونے سے متعدد مکانات بہہ گئے۔ چترال میں سیلاب سے اب ایک ارب روپے کا نقصان ہوچکا جبکہ3 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ مہمند ایجنسی میں 2 بہنیں بارانی تالاب میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔

رحیم یارخان کے علاقے جن پور میں آسمانی بجلی گرنے سے دو افراد بھورل اور شکیل زندگی کی بازی ہار گئے۔ خان پور میں کرنٹ لگنے سے4 سالہ بچہ ہلاک ہوگیا۔ واہنڈو سے نامہ نگار کے مطابق نالہ ڈیک پار کرتے ہوئے 30 سالہ شخص محمد ناصر ڈوب کر جاں بحق ہوگیا ہے۔ پڈعیدن کے قریبی گائوں ڈگیجا راجپر میں تیز ہوا کے باعث گھر کی چھت گرنے سے ایک خاتون جاں بحق ہوگئی۔ پاک فوج نے چترال، گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب میں سیلاب زدگان کیلیے ریلیف ریسکیو آپریشن جاری رکھا ہوا ہے، سینکڑوں افراد کی جان بچالی گئی جبکہ ہزاروں متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق چترال میں اب تک 17.5ٹن راشن متاثرین میں تقسیم کیا جاچکا،164 افراد کورمبورکرغ بیری بھمبروٹ اور چشمہ کے علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا، چترال تک ہرقسم کی ٹریفک کیلیے فوجی انجینئرز نے این45کھول دیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی فوج نے ڈی جی خان کے علاقے جھکڑ امام شاہ میں71 افراد کو بچا لیا۔ پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو 1122) نے اب تک پنجاب کے سیلاب زدہ اضلاع سے 14210 متاثرین کومحفوظ مقامات پر منتقل کردیا ہے جن میں رحیم یار خان سے5516افراد جبکہ لیہ کے مختلف علاقوں سے 5998افراد کو ریسکیو کرتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

فیڈرل فلڈ کمیشن کے مطابق دریائے سندھ میں کالا باغ اور چشمہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جبکہ جہلم، چناب اور ستلج معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔ گورنر گلگت بلتستان برجیس طاہر ،وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ گھروں کے مالکان کو 50، 50 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔ این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا، بالائی پنجاب میں مون سون کی تیز بارشوں کے باعث بالائی خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان کے ندی نالوں اور دریائوں میں طغیانی اور سیلاب کا خطرہ ہے، بھارت میں مون سون عروج پر ہے اور بھارت کے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے کے معاملے کو دیکھا جا رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق بھارت نے پانی چھوڑا تو اس سے بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔