علمی تحقیق

انتظار حسین  پير 27 جولائی 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

یونیورسٹیوں میں علمی تحقیق کی سرگرمی شب و روز جاری رہتی ہے۔ علمی معاملات عام لوگوں کے لیے دور کی کوڑی ہیں۔ سو اگر کوئی بڑی دریافت ہو بھی گئی تو انھیں کیا۔ مگر اب برمنگھم یونیورسٹی میں تحقیق کا ایسا شگوفہ پھوٹا ہے کہ اس کی مہک یونیورسٹی کے محققوں کے حلقہ سے نکل کر برمنگھم کی مسلمان آبادی تک جا پہنچی ہے۔ برمنگھم میں مسلمان خاصی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان دنوں ان سب کی پرشوق نگاہیں برمنگھم یونیورسٹی پر مرکوز ہیں۔

اس تحقیق کی داستان انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز کی 24 جولائی کی اشاعت میں شایع ہوئی ہے اور یہ اشاعت ایکسپریس ٹریبیون کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہے۔ داستان مختصراً کچھ یوں ہے کہ برمنگھم یونیورسٹی میں ایک خاتون ایلیا فضلی (Allia Fedeli) اپنی پی ایچ ڈی کی تقریب سے ایک تحقیق میں دماغ کھپا رہی تھی۔ اس ذیل میں قرآن مجید کے ایک پرانے مخطوطہ کو اپنی تحقیقی باریک بینی کے ساتھ الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھیں۔ اس مخطوطہ کے بیچ دو ورق یا کہہ لیجیے کہ دو پارچے ایسے نظر آئے کہ وہ ٹھٹھک گئیں۔ ان کی خطاطی باقی مخطوطہ کے خط سے کسی قدر مختلف تھی۔ یونیورسٹی نے فوراً ہی ان اوراق کی ریڈیو کاربن ٹیسٹنگ کرائی۔ متعلقہ محققوں نے ٹیسٹنگ کرکے یہ انکشاف کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوراق قرآن کے قدیم ترین مخطوطہ کا حصہ ہیں۔

امکان یہ ہے کہ یہ خطاطی عہد رسالت کی کسی شخصیت کا کارنامہ ہے۔

اس انکشاف سے یونیورسٹی سے وابستہ محققوں کے حلقہ میں ایک کھلبلی پڑگئی۔ یہ دو پارچے ان سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ پروفیسر ڈیوڈ ٹامس اس یونیورسٹی میں اسلام اور عیسائیت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے یہ بیان دیا کہ پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں تو قرآن کتابی شکل میں مرتب ہوا ہی نہیں تھا۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ تو کلام الٰہی ہے۔ وحی کی صورت آپ پر نازل ہوا تھا۔ اس وقت تو وہ حافظہ کا حصہ تھا۔ جنہوں نے ان آیات کو حفظ کررکھا تھا وہ اس کی قرات کرتے تھے۔ ہاں اس کے کچھ حصے پتھروں پر، پتوں پر، کھالوں پر، خاص طور پر اونٹ کے کوہان کی کھالوں کے پارچوں پر رقم کیے گئے تھے۔

واضح ہو کہ یہ جو دو ورق ہیں وہ اصل میں بکری یا بھیڑ کی کھال کے دو پارچے ہیں جن پر قرآنی آیات رقم ہیں اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اصل میں 1920ء کے لگ بھگ ایک مورخ اور عالم دینیات تھا جس کا نام تھا Alphonse Mingana وہ اس علاقہ میں پیدا ہوا تھا جو اب عراق کا حصہ ہے۔ اس نے بہت کھوج لگا کر ایسے پارچوں کو ڈھونڈ نکالا تھا جن پر قرآنی آیات رقم تھیں۔ اس ذخیرے میں ایسے تین ہزار پارچے جمع تھے۔ یہ پارچے اس ذخیرے کا حصہ ہیں۔ ان دو پارچوں میں اٹھارویں سے بیسویں سورہ تک کی آیات نقل کی گئی ہیں اور یہ کہ یہاں جو خط استعمال کیا گیا ہے وہ خط حجازی ہے اور ہاں ایلیا فضلی کو تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی ہے۔

مگر ریاض میں اسلامی مطالعہ و تحقیق کا جو کنگ فیصل سینٹر ہے اس کے ڈائریکٹر سعود السارحان نے ان پارچوں کی قدامت کے بارے میں اپنا شک ظاہر کیا ہے۔ یہ کہ یہ پارچے واقعی اتنے قدیم ہیں جتنا کہ برمنگھم یونیورسٹی کے محققین نے دعویٰ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پارچوں پر جو تاریخ متعین کی گئی ہے وہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ یہ واقعی اسی عہد کے پارچے ہیں۔ کیونکہ جن کھالوں پر خطاطی کی جاتی تھی انھیں کچھ مدت کے بعد دھو کر صاف کرلیا جاتا تھا۔ پھر ان کھالوں کو دوبارہ کسی دوسری عبارت کو رقم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

مگر برمنگھم کی مرکزی مسجد کے امام محمد افضل کہتے ہیں کہ مجھے ان پارچوں کی دید کا شرف حاصل ہوا ہے۔ واقعی ان کی حیثیت منفرد ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے ان کا رشتہ نظر آتا ہے۔

ہالینڈ کے ایک محقق نے کہا ہے کہ قطعی طور پر تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ سوالات تو پھر بھی اٹھیں گے کہ کہاں، کب اور کیسے یہ مخطوطہ مرتب ہوا۔

پروفیسر ٹامس کہتے ہیں کہ ویسے تو یہ متن مروجہ قرآن کے متن سے پوری مطابقت رکھتا ہے لیکن بہرحال یہ صرف دو اوراق ہیں۔ انھیں بنیاد بناکر قطعی طور پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا۔

ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ چونکہ یہ اوراق حجازی خط میں رقم ہوئے ہیں اور قدیم عربی اسی خط میں لکھی جاتی تھی اس لیے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ یہ اوراق بھی اسی قدیم زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں اور تحقیق کے میدان میں تو یہی کچھ ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی ایک محقق اپنی تحقیق سے کچھ ڈھونڈ نکالتا ہے اور شواہد اس کے حق میں تلاش کرکے اپنی دریافت کو مصدقہ ثابت کر بھی دے تو بھی دوسرے محققوں کے لیے بال کی کھال نکالنے اور نئے نئے سوال کھڑے کرنے کی گنجائش تو بہرحال رہتی ہے۔

لیکن یہاں بیشک سعودی عرب کے محقق نے اپنے شک کا اظہار کردیا ہے مگر برمنگھم کی مرکزی مسجد کے امام نے تو اس تحقیق کے حق میں بیان دیا ہے۔ اور برمنگھم کے مسلمان بھی اس تحقیق پر بہت پرجوش نظر آرہے ہیں اور پروفیسر ٹامس نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ جب ہم اپنی تحقیق کے بعد اپنی قطعی رائے ظاہر کریں گے تو پھر برمنگھم یونیورسٹی دنیا کے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن جائے گی۔ ویسے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ عہد رسالت کی تحریر ہے تو اس سے یہ کیسے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ اس عہد کی واحد ایسی تحریر ہے۔ آخر حضرت علیؓ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کچھ اوراق تو پہلے سے موجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔