فن پارہ تبھی اچھا ہوتا ہے جب اس کی تخلیق ناگزیر ہوجائے

امجد طفیل  پير 27 جولائی 2015
رائینر ماریا رلکے 1875 میں آسٹرو ہنگیریئن سلطنت کے شہر پراگ میں پیدا ہوا، فوٹو: فائل

رائینر ماریا رلکے 1875 میں آسٹرو ہنگیریئن سلطنت کے شہر پراگ میں پیدا ہوا، فوٹو: فائل

رائینر ماریا رلکے 1875 میں آسٹرو ہنگیریئن سلطنت کے شہر پراگ میں پیدا ہوا، یوں وہ عمر میں آٹھ سال کی تاخیر سے کافکا کا ہم عصر تھا اور اس کے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بھی جرمن زبان ہی تھی۔

اس کی بنیادی پہچان شاعر اور ناول نگار کی ہے مگر اس کے ’نوجوان شاعر کے نام لکھے گئے دس خطوط‘ کو بھی خصوصی شہرت حاصل ہوئی۔ گو اس کے لکھے یہ خطوط اس کی وفات (آسٹریا 1925) کے بعد شائع ہوئے۔ انگریزی میں رلکے کی پانچ تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ ان میں تین شعری مجموعے، ایک جزوی سوانحی ناول اور دس خطوط پر مشتمل ایک مجموعہ شامل ہے۔ اردو قاری اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ رلکے کے، نوجوان شاعر کے نام لکھے خطوط اور اس کے دس نوحے ترجمہ ہو کر شائع ہوچکے ہیں۔

رلکے کا مزاج ابتدا ہی سے شاعرانہ تھا، جس نے فوجی اکادمی کے سخت نظم و ضبط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے لیے ایک ایسے طرز زندگی کا انتخاب کیا، جسے خانہ بر دوش (Bohemeian) طرز زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رلکے نے اپنی زندگی میں یورپ کے کئی ایک ملکوں کی سیاحت کی، خاص طور پر وہ جرمنی، فرانس، اٹلی، روس، اسپین اور آسٹریا وغیرہ میں اپنے روحانی کرب اور جسمانی عوارض کے علاج کے لیے سرگرداں رہا۔

رلکے اپنی فکر میں زندگی کے مادی اور روحانی پہلوؤںکو یکتائی میں دیکھتا ہے اور وہ انسانی زندگی میں اعلیٰ تخلیقی رویوں کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور شاعر کے لیے باطنی تسکین کو اہم جانتا ہے، اس نے ’’نوجوان شاعر کے نام خطوط‘‘میں لکھا ہے :

’’کوئی بھی فن پارہ اسی وقت اچھا ہوتا ہے، جب اس کی تخلیق ناگزیر ہو جائے۔ چناں چہ عزیز محترم ! میں آپ کو اس کے علاوہ کوئی اور مشورہ نہیں دے سکتا کہ آپ اپنے اندر اتر جائیں اور ان گہرائیوں کا جائزہ لیں، جن سے آپ کی زندگی کی بنیاد اٹھی ہے۔ اس منبع سے آپ کو اپنے اس سوال کا جواب ملے گا کہ کیا تخلیق آپ کے لیے ناگزیر ہے؟ جیسا بھی جواب ملے، بے کم و کاست اسے قبول کریں۔ غالباً آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ آپ کو فن کار بننے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ پھر تقدیر کے اس فیصلے کو قبول کر لیں۔ اس کے لیے اپنے اندر جرات پیدا کریں۔ اس ذمہ داری کے لیے، اس عظمت کے لیے ۔۔۔ اور اس کی پروا نہ کریں کہ باہر سے آپ کو کس قسم کا اعزاز ملتا ہے، اس لیے کہ تخلیق کار کو تو خود ایک دنیا ہونا چاہیے اور اس کے اپنے اندر اور اس فطرت میں، جس سے اس نے خود کو منسلک کر لیا ہے، اس کی ہر ضرورت کوپورا ہونا چاہیے۔‘‘ (ترجمہ: رضی عابدی)

خود رلکے کی شاعری ہمیں ایک ایسے شاعر سے متعارف کراتی ہے، جو اپنی ذات میں پوری طرح ڈوبا ہوا ہے۔ وہ اپنے اردگرد کی دنیا پر لاپروائی سے نگاہ ڈالتا ہے، جو انسانی وجود میں اس مرکز کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اصل انسانیت ہے۔ وہ زندگی کی مادی قدروں کے ساتھ ساتھ روحانی معاملات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ رلکے کئی ایک جرمن لکھنے والوں کی طرح مشرقی، بالخصوص ایرانی مسلم شعری جمالیات سے متاثر ہے۔ جرمن لکھنے والے مشرق، بالخصوص مسلمانوں کی فکری اور جمالیاتی طرز فکر سے متاثر ہیں، ان میں گوئٹے، رلکے، ہرمن ہیسے، این میری شمل کے ساتھ بہت سے نام آتے ہیں۔ وہ اپنے نوحوں میں بے غرض محبت کو سراہتا ہے، وہ جنس کو صرف مادی حوالے سے نہیں دیکھتا بل کہ جنس کو اعلیٰ انسانی اوصاف میں سے ایک سمجھتا ہے۔ اُس کے تیسرے نوحے سے ایک بند ہے:

ستارو، جو سکوں ہوتا ہے حاصل ایک عاشق کو
رخِ محبوب کے دیدار سے، مجھ کو بتاؤ کیا

تمہارے پرسکوں افسوں کا وہ ممنوں نہیں ہوتا؟
تمہارے حسن پاکیزہ کا یہ فیضاں نہیں ہے کیا

کہ آتا ہے نظر عاشق کو حسن روئے دلبر میں
خود اپنے عشق کی پاکیزگی کا اک حسیں پر تو

(ترجمہ : عادی حسین)

رلکے کے نوحے ہمیں انسانی ضمیر کی اُس آواز سے شناسا کرا دیتے ہیں، جو مادی آلائشوں میں دب کر اپنی قوت سے تو محروم ہو جاتی ہے لیکن اس میں دبی چنگاریاں ہمیشہ شعلۂ جوالہ بننے کو بے قرار رہتی ہیں۔ رلکے جب انسانی زندگی پر نگاہ ڈالتا ہے، تو وہ روپ اور بہروپ کی ازلی بحث کی طرف پلٹتا ہے اور انسانی زندگی کی معنویت کو کچھ یوں بیان کرتا ہے، چوتھے نوحے کا ایک بند ملاحظہ ہو :

جب انساں نزع کے عالم میں ہوتا ہے،
تو وہ جی میں یقیناً سوچتا ہوگا

کہ ہم اس حصے میں رہ کر
جہاں ہر چیز مایا ہے، نظر کا دھوکا ہے

کیا کرتے ہیں جو کچھ بھی وہ اک بہروپ ہوتا ہے
چھپی ہوتی ہے جس کے روپ میں کچھ اور اصلیت

(ترجمہ ہادی حسین)

رائنر ماریا رلکے کے نوحے اپنے اندر عجیب سرور و مستی کے حامل ہیں۔ ان میں لطیف انسانی جذبوں کا اظہار بھی ہے اور حیات و کائنات کے گہرے مسائل کا ادراک بھی۔ رلکے ایک طرف تو انسانی ذات کے مخفی روحانی پہلوؤں کو ابھارتا ہے اور دوسری طرف فطرت اور انسان کے باہمی تعلق کو اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے۔ رلکے کی شاعری میں ہمیں ایک مضطرب روح دکھائی دیتی ہے، جو ایک نئے قالب کی تلاش میں ہے۔ وہ فکری سطح پر یورپی ہونے کے باوجود جذباتی سطح پر مشرقی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی شاعری میں ایک آہستہ روی ہے، جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میںلیتی ہے۔ اُس کی ایک نظم ’’شام‘‘ ملاحظہ ہو:

’’شام‘‘

سست رفتار سے پوشاک بدلتی ہوئی شام
کہنہ اشجار کا اک حاشیہ تھامے ہے جسے

دیکھتا جا کہ بچھڑتی ہیں زمینیں تجھ سے
اک سوئے عرش اٹھی ایک ہوئی فرش تمام

تو بچھڑ کر نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا ٹھہرا
نہ کسی خانۂ خاموش کی مانند فقط تیرہ و تار

نہ گواہی کسی تارے کی جو ہر رات کے پار
ابھرا آتا ہے، سدا جیسے یوں ہی چمکے گا

اپنی گتھی کے سلجھ جانے کی باقی یہ امنگ
پختگی پاتی ہوئی سہمی ہوئی اتنی مہیب

ذات چو طرفہ گھری اور خود اپنے ہی قریب
باری باری سے کبھی تجھ میں ستارہ کبھی سنگ

(ترجمہ: محمد سلیم الرحمن)

حال ہی میں مجلس ترقیٔ ادب لاہور سے ’’رلکے نوحے‘‘ کی اشاعت نے ممکن بنا دیا ہے کہ اردو قارئین برسوں پہلے کیے گئے ہادی حسین کے ترجمے سے لطف اندوز ہوسکیں۔ اس کتاب میں شامل رلکے کی چند نظموں کے محمد سلیم الرحمن کے کردہ تراجم اور اس کے اوپر لکھا گیا این میری شمل کے مضمون کا ترجمہ اور ڈاکٹر تحسین فراقی کا ابتدائیہ کتاب کی معنویت کو دو چند کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔