’’دیس کا لااُبالی پردیس کا مثالی کیوں؟‘‘

فہیم زیدی  منگل 28 جولائی 2015
اگر قوانین اور سزا پر سختی سے عملدرآمد ہو تو آئندہ کوئی بھی قانون توڑنے کا تصور بھی نہ کرے۔ فوٹو:فائل

اگر قوانین اور سزا پر سختی سے عملدرآمد ہو تو آئندہ کوئی بھی قانون توڑنے کا تصور بھی نہ کرے۔ فوٹو:فائل

تقریباً آٹھ، دس سال بعد جب میں بیرون ملک سے اپنے وطن چھٹیاں منانے کی غرض سے واپس آیا تو ہر چیز میں واضح تبدیلی دیکھی۔ چونکہ زمانہ تغیر پذیر ہے تو ہر چیز کا بدل جانا فطری عمل ہے مگر مجھے اب یہاں مادی اشیاء کے علاوہ انسانی رویوں میں بھی واضح تبدیلی محسوس ہوئی۔ مساوات، اخوت، بھائی چارگی، رواداری اور بالخصوص قوت برداشت کے فقدان نے مجھے خاصا دکھی اور افسردہ کیا۔ 

مجھے چھٹیاں بہت کم ملی تھیں اس لئے میں نے سوچا کہ کچھ ضروری اور استعمال کی اشیاء کی خریداری جلد از جلد مکمل کرلی جائے، بس یہی سوچ کر اپنے ایک دیرینہ دوست کو فون کیا کہ وہ اپنی گاڑی لے آئے تاکہ میں باآسانی خریداری کرسکوں۔ مقررہ وقت پر میرا دوست گاڑی لے آیا، دوران سفر یادِ ماضی عذاب ہے یارب کے مصداق ماضی کو کرید کرید کر اچھے وقت کو یاد کرتے رہے اور عہد حاضر کی نفسا نفسی پر کف افسوس ملتے رہے۔

بات چیت کے دوران میری نگاہ سڑکوں کے اطراف دیواروں پر موجود چاکنگ پر پڑی، میں نے محسوس کیا کہ اب یہاں سیاسی اور مذہبی جماعتیں بہت زیادہ وجود میں آچکی ہیں۔ نئی نئی سیاسی اور خاص طور پر مذہبی جماعتوں کی اشتعال انگیز اور متعصبانہ جملوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے یہاں مسلمان ہونے کے بجائے فرقہ وارانہ مسلکی اعتبار سے پہچان کا احساس کس قدر بڑھ گیا ہے۔ ابھی میں چاکنگ سے متعلق سوچ میں مستغرق ہی تھا کہ ہماری گاڑی کے قریب سے فراٹے بھرتی گاڑی آئی اور سگنل توڑتی بلکہ مخالف سمت سے آنے والے ٹریفک کو بھی ملحوظ خاطر لائے بغیر خطرناک انداز میں دوسری گاڑیوں سے زگ زیگ کی صورت میں بچتی بچاتی اس طرح روانہ ہوئی کہ سنگل پر کھڑے ٹریفک اہلکار بھی منہ تکتے رہ گئے۔ مجھے اس نوجوان کی یہ حرکت دیکھ کر غصے کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا کہ اگر اسے اپنی جان کی پرواہ نہیں تو کسی دوسرے کی جان کا تو خیال کرلے۔ سبز لائٹ روشن ہونے پر میرے دوست نے ایک مرتبہ پھر گاڑی آگے بڑھادی۔ اگلے سگنل پر میں نے جو منظر دیکھا، اُس کے بعد پچھلے سگنل پر قانون شکنی کرتے نوجوان کی حرکت کی وجہ سمجھ آگئی۔ اس سگنل پر ایک ٹریفک افسر ببانگ دہل ایک گاڑی کی اوٹ میں ایک بس ڈرائیور سے توڑ جوڑ کررہا تھا۔ میں یہ سب دیکھ کرسوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب ہمارے سرکاری اداروں کے اہلکار اس طرح قانونی شکنی کرنے والوں کو رشوت کے بل پر با آسانی چھوڑ دیتے ہیں تو پھر کون قانون کی پاسداری اور اس کے اصولوں کو اپنائے گا۔

مجھے گزشتہ دس سال پرانا اپنا زمانہ بھی یاد آگیا جب میں خود بھی اسی طرح موٹر بائیک پر کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اسی انداز میں سڑکوں پر بائیک اڑاتا پھرتا تھا، کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات ازبر ہوچکی تھی کہ پولیس اہلکاروں کو 50 یا 100 روپے کے عوض باآسانی چھٹ جاؤں گا تو میرے اس لا اُبالی پن کا سلسلہ ایک طویل عرصے تک چلتا رہا۔ پھر قسمت سے مجھے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا اور پھر جب میں نے بیرون ملک پہلی ہی مرتبہ اپنے روایتی انداز میں قانون شکنی کا مظاہرہ کیا تو قانون نے آڑے ہاتھوں لیا اور حسب روایت یہاں کی پولیس کو رشوت کی پیشکش کی تو مزید اس جرم کے ارتکاب پر بھاری جرمانہ کے علاوہ کچھ عرصہ قید بھی رہنا پڑا۔ یہاں کے سخت ترین قوانین کے سبب مجھے اپنی تمام تر ایسی منفی عادات کو ترک کرنا پڑا جس کی وجہ سے میں قانون کی گرفت میں آ سکتا تھا اور پھر میں پردیس اور اپنے ملک میں موجود لاقانونیت کے بارے میں سوچنے لگا کہ اگر ہمارے یہاں بھی رشوت لینے کے بجائے قانون پامال کرنے والوں کے خلاف بروقت کارروائی عمل میں لائی جائے تو جرم کی شرح میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

یورپ اور دیگر خلیجی ممالک میں یکساں اور مساوی قوانین ہونے کی وجہ سے وہاں جرائم کی شرح کم سے کم ہے۔ وہاں پر ہر اعتبار سے خاص اور عام لوگ قانون سے بالاتر نہیں وہاں قانون سب کے لئے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑا انسان بھی وہاں عام انسان کے ساتھ  قطار میں کھڑا نظر آئے گا۔ یورپی اور خلیجی ممالک میں قتل جیسے سنگین جرم کی سزا بھی بہت سخت ہیں۔ سخت سزا کے بعد کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ سنگین نوعیت کے تو کیا کسی معمولی نوعیت کے جرم کا بھی مرتکب ہو جبکہ ہمارے یہاں عدالتوں کا معاملہ اس کے برعکس اور جانبدار نظر آتا ہے۔ جب اس سطح پر اور اس قدر اہم اور مضبوط ادارے کسی بھی وجہ سے بے بس اور کمزور نظر آئیں گے تو معاشرے میں جرائم کا فروغ پانا غیر معمولی بات ہوگا۔

اگر دیگر اقوام عالم کا جائزہ لیا جائے تو چین کے صوبے جیسکی میں حکومت کے ایک سابق مشیر پر20 بلین امریکی ڈالر کی کرپشن پر اسے موت کی سزا سنا دی گئی تھی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے ہی ایک سابق وزیر ریلوے کو کرپشن ثابت ہونے پر موت کی سزا سنا دی گئی اور ابھی کچھ عرصہ قبل ہی شمالی کوریا کے وزیر دفاع کو ایک سرکاری تقریب میں صرف اونگھنے کی پاداش میں توپ شکن گولے سے موت کے گھا ٹ اتار دیا گیا۔ یہ توچند ایسی سزائیں ہیں جو منظر عام پر ہیں اگر تحقیق کی جائے تو ایسی بہت سی مثالیں آپ کو مل جائیں گی جہاں کرپشن کی بنیاد پرسخت ترین سزا کے بعد حکمرانوں کو ایک لمبے عرصے کے لئے جیل کے پیچھے دھکیل دیا گیا یا پھر موت کی سزا سنا دی گئی۔ ایسی سزاؤں پر عملدرآمد کے بعد کسی ملک میں لاقانونیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں کسی ملک کے صدر سے لے کر ایک سرکاری ادارے کا معمولی نائب قاصد تک کرپشن کا لبادہ اوڑھ لے تو وہاں پھر انتشار، انارکی، بد امنی، لاقانونیت اورسیاسی اور مذہبی بنیاد پر قتل و غارت گری کا بازار ہی گرم نظر آئے گا۔ یہ بھی عام ہے کہ ہمارے یہاں کے حکمراں حکومت میں رہ کر اپنی بدنیتی اور بدعنوانیوں کے تحت لوٹ کھسوٹ کرکے بیرون ملک پیسہ منتقل کرکے جسے زبان زد عام میں منی لانڈرنگ کہا جاتا ہے یا پھر اربوں ڈالر کی مالیت کی جائیداد بنا لیتے ہیں، ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کے لئے جن ممالک میں یہ جائیداد اور پیسہ جمع کیا جاتا ہے ان ممالک کے سرکردہ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کی جانچ پڑتال کرکے انھیں قانونی دائرہ میں لے کران کو آڑے ہاتھوں لیں تاکہ متاثرہ ملک کی عوام کا پیسہ اسی ملک میں رہے۔

ایسے لوگ جو اپنے اپنے دیس میں لا اُبالی نظر آتے ہیں وہ از خود پردیس جا کر مثالی بن جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے کسی بھی ناخوشگوار تجربے یا سرزنش کے بعد قانون کی پاسداری اور احترام کرنا اچھی طرح سیکھ لیا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ لازم ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت ان کو پردیس بھیج کر ہی کرسکتے ہیں کہ وہ باہر جائیں اور قانون سے محاذ آرائی کریں، اُس کے بعد وہ اپنے کئے کی سزا پائیں اور پھر وہ سیدھے ہوجائیں؟ نہیں اس کے لئے صرف اور صرف یہ ضروری ہے کہ اپنے ملک میں قانون کو اس قدر مضبوط بنا کر سخت سے سخت سزا کا تعین کیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی قانون توڑنے کا تصور بھی نہ کرے اور یہ ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا جب اوپر سے لے کر نیچے یعنی ہر سطح پرغیر جانبداری کے ساتھ سب کو قانون شکنی کرنے پر کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

فہیم زیدی

فہیم زیدی

لکھاری اِس وقت سعودی عرب میں ہوتے ہیں۔ کراچی میں مختلف اخبارات میں کم و بیش پندرہ سال کا تجربہ ہے اور آج کل بھی پاکستان کے ایک ہفتہ روزہ کے لئے بحیثیت نمائندہ کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔