جانے والوں کی یاد آتی ہے

شکیل فاروقی  منگل 28 جولائی 2015
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

جولائی کا مہینہ ادبی شخصیات کے سانحات و رحلت کے حوالے سے بڑا بھاری ہے کہ عبداللہ حسین اور خاطر غزنوی نے اسی ماہ میں داغ مفارقت دیا۔ بلاشبہ دونوں ہی قصر ادب کے بہت بڑے ستون تھے۔ دیگر خصوصیات کے علاوہ دونوں ہی میں یہ قدر مشترک رہی کہ ان کی شہرت کی خوشبو ان کے اصلی ناموں سے نہیں بلکہ قلمی ناموں سے دنیائے ادب میں پھیلی۔ عبداللہ حسین کا اصل نام محمد خان تھا مگر لوگ انھیں عبداللہ حسین کے قلمی نام سے ہی جانتے ہیں۔

انھوں نے جولائی کے پہلے ہفتے میںلاہور میں 84 برس کی عمر میں وفات پائی۔ وہ 14اگست 1931 کو گجرات کے ایک معززگھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی اسکول تعلیم بھی گجرات ہی میں حاصل کی اور گریجویشن بھی وہیں کے زمیندار کالج سے مکمل کی۔عبداللہ حسین بڑے خوش نصیب تھے کہ ان کا پہلا ہی ناول ’’اداس نسلیں‘‘  ہٹ ہوگیا۔اس ناول کو شایع کرنے کا اعزاز نذیر احمد کے اشاعتی ادارے نیا ادارے کو حاصل ہوا۔ نذیر احمد نے ’’اداس نسلیں‘‘ کا مسودہ حاصل ہوتے ہی اپنے دوست شیخ صلاح الدین کے حوالے کردیا ۔

شیخ صلاح الدین نے صرف ایک ہفتے کے مختصر عرصے کے بعد یہ رائے دی کہ یہ ناول فوراً شایع کرایا جائے کیونکہ ان کے خیال میں مایہ ناز انگریزی ناول نگار ڈی ایچ لارنس کی وفات کے بعد ایسا ناول کسی نے یورپ میں بھی نہیں لکھا تھا۔ چنانچہ نیا ادارہ نے بلاتاخیر اس ناول کو شایع کیا۔ عبداللہ حسین کی فرمائش پر اس کا ٹائٹل پاکستان کے انتہائی نام وَر مصور عبدالرحمن چغتائی سے ڈیزائن کرایا گیا۔

اس ناول کی اشاعت نے نوجوان ناول نگار کو دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کے بام عروج تک پہنچادیا اور ان کی ساکھ اور دھاک ایسی جمی کہ ان کی دوسری تحریروں ’’نشیب‘‘ اور ’’باگھ‘‘ کی اشاعت کا سہرا بھی ’’نیا ادارہ‘‘ ہی کے سر پر سجا اور ان دونوں کی شہرت اور مقبولیت کو بھی گویا پر لگ گئے۔ عبداللہ حسین نے ’’اداس نسلیں‘‘ کا انگریزی ترجمہ “The Weary Generation” کے عنوان سے بذات خود ہی کیا۔ ان کی شہرت کا خوب خوب فائدہ ان کی دیگر تحریروں کو بھی پہنچا جن میں ’’نادار لوگ‘‘ قید ’’اور رات‘‘ کے علاوہ ان کے افسانے بھی شامل ہیں۔

زمیندار کالج گجرات سے گریجویشن کرنے کے بعد عبداللہ حسین نے ایک سیمنٹ فیکٹری میں بطور کیمسٹ ملازمت بھی کی لیکن قسمت کی دیوی ان پر بہت جلد مہربان ہوگئی جس کے بعد بحیثیت ایک لکھاری وہ فکرِ معاش سے آزاد ہوگئے اور لکھنے لکھانے کو ہی انھوں نے اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ اس سے قبل کے درمیانی عرصے میں کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کرنے کے لیے وہ کینیڈا بھی گئے جہاں انھوں نے ایک ڈاکٹرنی سے شادی کرلی جن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔

انھوں نے 40 سال کے طویل عرصے تک برطانیہ میں قیام کیا جس کے بعد وہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان آکر مقیم ہوگئے۔ انھیں دنیا گھومنے کا بڑا شوق تھا۔ اگرچہ وہ مزاجاً Introvert نہیں تھے لیکن محفلوں میں آنے جانے کا انھیں کوئی خاص شوق نہیں تھا۔

سن 60 کی دہائی میں جب ’’اداس نسلیں‘‘ منظر عام پر آیا تو اس وقت ہر طرف قرۃالعین کے شاہکار ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے چرچے تھے اور اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی اور ناول نگار کی بھی دال گل سکتی ہے۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اداس نسلیں، آگ کا دریا سے متاثر ہے مگر ہمارے خیال میں اس بحث میں الجھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ ’’اداس نسلیں‘‘ میں جگہ جگہ سفلی گالیوں کا تڑکا لگا ہوا تھا جب کہ قارئین کا ایک حلقہ اسے ان کی حقیقت نگاری سے تعبیرکرکے اس کی تحسین کرنے میں مصروف تھا۔

مگر ادبی تحریر میں گالیوں کا استعمال محض عبداللہ حسین ہی کا کارنامہ نہیں ہے کیونکہ یہ تجربہ برصغیر کے مشہور انگریزی ناول نگار اور ترقی پسند تحریک کے ایک انتہائی سرگرم کارکن ڈاکٹر ملکھراج آنند کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ بہرحال اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عبداللہ حسین کی تحریروں میں حقیقت نگاری کا عنصر بہت نمایاں ہے جس میں زندگی کا عکس واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک ادیب کی حیثیت سے انھیں سیاست کی بھی بڑی سمجھ تھی۔

جزیات نگاری بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ ہر منظر کینوس پر اتارنے میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ پاکستان اور افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے عمل دخل پر بھی کچھ لکھیں لیکن وقت نے انھیں مہلت ہی نہیں دی اور وہ اپنی اس خواہش کو اپنے دل میں لیے ہوئے ملک عدم سدھار گئے۔

عبداللہ حسین مزاجاً کم آمیز اور فطرتاً جرأت مند انسان تھے۔ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی یا عیب جوئی سے گریز ان کا مومنانہ وصف تھا۔ اصول پسندی اور دوستوں کا احترام ان کے کردار کی دو بڑی خوبیاں تھیں۔ انسان دوستی ان کے کردار کی بہت بڑی خوبی تھی۔جولائی کے مہینے میں ہی اس جہان فانی سے کوچ کرنے والے دوسرے بڑے لکھاری خاطر غزنوی تھے جن کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔

وہ 1925 میں پشاور کے ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوئے اور انھوں نے 1958میں پشاور یونیورسٹی سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ اردو میں ایم اے کا امتحان پاس کیا جہاں انھیں اردو لیکچررکی اسامی پر کام کرنے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن انھوں نے اپنے پرانے ادارے ریڈیو پاکستان سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

شعر و شاعری کے علاوہ لسانیات سے بھی خاطر غزنوی کو بڑا گہرا شغف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اردو زبان ہندکو زبان کی ہی پیداوار ہے۔ یہ نظریہ انھوں نے اپنی کتاب ’’اردو زبان کا ماخذ ہندکو‘‘ میں پیش کیا ہے۔ خاطر غزنوی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک صاحب طرز ادیب، کالم نویس، ایڈیٹر، مترجم، ماہر تعلیم، براڈ کاسٹر، دانشور، شاعر اور اعلیٰ پایہ کے نغمہ نگار بھی تھے۔ علمی اور ادبی سرگرمیوں میں وہ ہمیشہ سرگرم رہے۔

زبانیں سیکھنے کا انھیں بڑا شوق تھا۔ انھیں بہ یک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو، پشتو، ہندکو، انگریزی، فارسی، چینی، ملائیشیائی اور دوسری زبانیں شامل ہیں۔ پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان کے مرکزکا قیام بھی ان ہی کا کارنامہ ہے۔ 1965 میں وہ ایک اسکالر شپ پر چین گئے تھے جہاں انھوں نے چینی زبان میں ڈپلوما حاصل کیا تھا۔

وہ ملائیشیا بھی گئے تھے جہاں انھوں نے چار سال تک اردو اور مطالعہ پاکستان کی تعلیم دی۔ وہ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جس میں اردو کے علاوہ پشتو اور ہندکو کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ان کا انتقال 7 جولائی 2008 کو کراچی کے ایک اسپتال میں ہوا۔

جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔