ڈاکٹرز ہمارا اثاثہ ہیں

علی احمد ڈھلوں  بدھ 29 جولائی 2015

چند روز قبل ایک خبر نظر سے گزری جس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا، خبر کے مطابق پاکستانی ڈاکٹرز بھارت میں جوتے فروخت کرتے ہیں،کوئی موبائل ریپئرنگ کی دکان پر کام کررہا ہے اور کوئی اسپتال کے مردہ خانے میں نعشوں کو ٹھکانے لگاتا ہے،کوئی میڈیکل اسٹور پر اور کوئی خیراتی اسپتال میں سیو ا کرتا ہے۔

یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر بھارت چلے گئے لیکن وہاں انھیں بھارتی میڈیکل کونسل پریکٹس کی اجازت نہیں دیتی جب کہ انھیں بھارتی شہریت بھی نہیں ملتی‘ یوں وہ بھارت میں چند ہزار روپے کی معمولی سی نوکری کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ بھارتی گجرات میں دو سو پاکستانی ڈاکٹر اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہیں۔

بھارتی اخبار’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر احمد آباد میں جوتے فروخت کرتے ہیں۔ یہ پاکستانی ڈاکٹر بھارت کیوں گئے اور وہاں کیوں دھکے کھا رہے ہیں‘ اس پر پھر کبھی بات ہو گی لیکن اس خبر کو پڑھنے کے بعد میرے ایک صحافی دوست کے مرحوم والد محترم کے ساتھ ہونے والا واقعہ یاد آگیا،،، یہ پنجاب کے شہر لیہ کے ایک پسماندہ گاؤں کا ہے۔ 1984ء کی ایک ڈھلتی رات میرے صحافی دوست کے والد محترم گھر آئے تو دیکھا کہ پاؤں کے ایک حصے سے خون کی لکیر سی بہہ رہی تھی اور اس سے تھوڑا اوپر انھوں نے پٹکہ(سر پر  لپیٹنے والا کپڑا) باندھا ہوا تھا۔ انھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔

میرے عزیز دوست کے مطابق ’’بابا کو سانپ کے ڈسنے کا سن کر تمام گھر والے سکتے میں آگئے تھے۔ جوگی ٹائپ لوگ ہی سانپ کے ڈسنے کا علاج کرتے تھے۔ اگلے دن جوگی صاحب آئے انھوں نے اُسترے کے ساتھ زخم والی جگہ پر کٹ لگانا شروع کیے اورخون نکالنا شروع کیا۔ بابا پر غنودگی طاری ہوچکی تھی۔ اس دوران شہر جا کر گاڑی کا بندوبست کیا گیااور انھیں ملتان لے گئے۔ لیکن وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ بابا نے مرنے سے پہلے اماں اور میرے بھائی سے یہ قسم لی تھی کہ وہ ہر صورت میرے بڑے بھائی نعیم کو ڈاکٹر بنائیں گے۔ بھائی نعیم کو میڈیکل کالج، بہاولپور میں بابا کی زندگی میں ہی داخلہ مل چکا تھا۔

1992ء میں کینسر کے ہاتھوں مرنے سے پہلے اماں بابا کو دی گئی قسم پوری کرچکی تھیں کہ وہ نعیم کو ڈاکٹر بنائیں گی۔۔۔‘‘ ایک ڈاکٹر بنانے کے لیے ایک خاندان کو جن اذیتوں اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو کبھی نہیں ہو سکے گا۔ آج پتہ چلتا ہے کہ محض چند ہزار روپے کا ایک انجکشن سانپ کے کاٹے کا علاج ہے۔ وہ دوست آج بھی نم آنکھوں کے ساتھ ذکر کرتا ہے ’’اگر میرے اس گاؤں میں ڈاکٹر ہوتا تو شاید آج سب کچھ مختلف ہوتا۔‘‘ آج یہ سوچ کر والدین گھبرا جاتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو ڈاکٹر یا انجیئنرنگ کی تعلیم دیں گے۔

کیونکہ ہمارے تعلیمی اخراجات بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے کسی طور کم نہیں ہیں۔ ان اداروں کے سالانہ اخراجات 20 لاکھ روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جو طالب علم 1کروڑ روپے خرچ کر کے ڈاکٹر بنے گا تو اس کے ہاتھ میں 30 سے  40ہزار روپے کا چیک تھما دیا جائے گا تو وہ پاکستان کیوں کر رکے گا ۔ اس وقت ملک سے باہر کام کرنے والوں ڈاکٹروں میں چوتھی بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے جو کہ حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 6 ماہ میں تقریباََ 4ہزار ڈاکٹرز ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔میر ی نظر میں جان لینے والوں کے بجائے جان بچانے والے اصل ہیرو ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو وہی اپنا ہیرو سمجھ سکتا ہے جس کے کسی پیارے کی زندگی کسی ڈاکٹر کے وسیلے سے مل رہی ہو۔ محدود ترین وسائل کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹر لاکھوں غریب مریضوں کی مسیحائی کر رہے ہیں۔ جب ہم ان ڈاکٹرو ں کے رویے کی شکایت کرتے ہیں تو پھرہمیں ان کی شکایتوں پر بھی کان دھرنے چاہئیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر جب تک اپنا معاملہ آہستہ آواز میں سناتے رہتے ہیں کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی اور جب یہ لوگ اپنا کام چھوڑ کر سڑکوں پر آتے ہیں تو میڈیا، وزیر، مشیر سب متحرک ہو جاتے ہیں، پھر مجھ جیسے یہی سمجھتے ہیں کہ شاید ڈاکٹر بارش کا پہلا قطرہ ہیں تاکہ حاکم وقت جاگ جائے۔ ویسے بھی جب کرپشن کرنے والے ، نااہل، چاپلوس ہر میدان میں آگے نکلنے لگیں تو زندگی میں محنت کرنے والوں کی فرسٹریشن اور بڑھ جاتی ہے۔

ہمارے لیے افسوس کی بات ہے کہ اساتذہ، نرسز، ڈاکٹرز اور کلرک سب سڑکوں پر ہیں لیکن حکمران سو رہے ہیں۔ محکمہ صحت صوبائی حکومتیں ڈیل کرتی ہیں‘ یہ اپنے مشیروں وزیروں کے ذریعے ڈاکٹروں سے مذاکرات کرتی اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے اور اسے طول دینے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 2012ء میں لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت سے ختم ہونے والے احتجاج میں سروس اسٹرکچر کی یقین دھانیاں آج بھی کرائی جارہی ہیں۔ خدارا!!! حکومتیں ہوش کے ناخن لیں‘ کیوں کہ اس عوام کو اور خصوصاََ ہمارے دیہاتیوں کو ان ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔

ہمارے حکمرانوں کے پاس خود کی سیکیورٹی پر خرچ کرنے کے لیے ماہانہ کروڑوں روپے موجود ہیں، کروڑوں روپے کے صحت عامہ سے متعلق اشتہار دے کر اپنی دکانداری چمکانے کے پیسے موجود ہیں لیکن ان ڈاکٹرز خصوصاََ ینگ ڈاکٹرز کے لیے کچھ نہیں ہے، میرے خیال میں سب ان ینگ ڈاکٹرز سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کہ وہ یہ ملک چھوڑ کر کسی اور ملک چلے جائیں۔۔۔ خود بھی پیسے کمائیں اور پاکستان کو بھی اپنے پیسوں سے چلائیں۔۔۔  اور عوام کو جوگیوں، حکیموں کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں تاکہ یہ سسکتے سسکتے مرتے مر جائیں۔۔۔!!! شاعر نے موت کی آغوش میں اترنے والے انسان کی بے نوائی کا نقشہ کیاہی دلکش الفاظ میں کھینچا ہے:

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ! میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔