کالا باغ یا پھر ہر سال بڑا سیلاب

عبدالقادر حسن  بدھ 29 جولائی 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم تو کسی ایسے غریب اور مرے مارے کی اولاد ہیں کہ جو بھی آتا ہے غصے سے بھرا ہوا ہی آتا ہے۔ قدرت کی طرف سے سیلاب ہو یا بھارت میں مقامی کسی تنازعے پر لڑائی میں چند سکھ مارے جائیں یہ سب ہمارے قصور ہیں۔ بارشیں ہوئیں جو ہر سال ہی ہوتی ہیں کبھی زیادہ کبھی کم کبھی زمینوں کو آبپاش کرنے والی عام سی بارشیں اور کبھی اس سے بڑھ کر سیلاب لانے والی یعنی عام تباہی لانے والی۔ ان دنوں پاکستان کی زمین پر نہ کوئی آبادی محفوظ ہے اور نہ کوئی فصل لہرا رہی ہے اور زندہ ہے۔

ہماری بدقسمتی سے بھارت میں چند افراد مارے گئے تو اس کا الزام فی الفور پاکستان پر لگا دیا گیا۔ ہو سکتا ہے اس سے چند بھارتیوں کی تسلی ہو گئی ہو لیکن پاکستانیوں نے اس الزام کو ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ ہم پاکستانی تو اس قدر نرم مزاج ہیں کہ یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ بلوچستان میں بھارت سر تا پیر ملوث ہے ہم پاکستانی اپنے اس دوست کا نام لیے بغیر اسے کوئی غیر ملکی ہاتھ قرار دیتے رہے۔ ایسے پاکستانیوں سے بھارت میں کسی خونیں گڑ بڑ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

ہم تو وہ لوگ ہیں کہ بھارت کا دشمن ہمارے قابو میں آ جائے تو اسے پکڑ کر اور تحفہ نما کسی پیکٹ میں لپیٹ کر بھارت کی خدمت میں پیش کر دیں۔ ساتھ ایک کیک بھی۔ ہم نے تو شروع دن کہہ دیا تھا کہ ہم اور کسی کے ہوں یا نہ ہوں ہم بھارت کے دوست ضرور ہیں۔ پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر ہمیں ووٹ دیے ہیں اور ہم وج گج کے اقتدار میں آئے ہیں اور آئے ہوئے ہیں جو ہماری طرف سے بھارت کے لیے ایک تحفہ تھا۔ بھارت کے خلاف ہماری کئی جنگیں ہوئیں۔

ہمارے کتنے ہی نشان حیدر ان جنگوں کے تحفے ہیں جو ہمارے دلوں میں جھوم رہے ہیں لیکن پھر بھی ہماری قوم نے ہمیں ٹوٹ کر ووٹ دیے ہیں اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ ووٹ بھارت کے دوست ہیں لیکن یہ قوم کون سی تھی اس کی تلاش ہے کیونکہ بھارت کے ساتھ دوستی کرنے والی قوم تو ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی پاکستان کے خطے میں کوئی ایسی قوم آباد ہے جس کے خواب و خیال میں بھی بھارت دوستی کا کوئی شائبہ بھی موجود ہو۔ پھر پتہ نہیں وہ قوم کہاں سے دریافت کی گئی ہے جو بھارت ایسے دشمن کے حق میں ووٹ دیتی ہے اور اسے اپنی قومی پالیسی سمجھتی ہے۔

بات سیلاب کی آفت سے شروع کرنی تھی جو کسی دوسری آفت کی طرف نکل گئی۔ سیلاب نے ہمارا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ گاؤں کے گاؤں اور بستیاں نابود ہو گئی ہیں۔ کل تک جن گھروں میں ہنستے بستے لوگ تھے آج ان گھروں میں ماتم کے لیے بھی کوئی نہیں۔ ایک تصویر میں ایک چھوٹا سا کوئی دو چار برس کا بچہ ننگ دھڑنگ جسے ایک فوجی نے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا ہے اور بچہ اس حال میں سامنے موجود دوسرے فوجی کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے نیچے ہر طرف سیلاب کا پانی ہے ان دو فوجیوں اور ایک پاکستانی بچے کے علاوہ اور کوئی جاندار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

یہ تصویر دنیا بھر کے سیلابوں اور سیلاب سے بچانے والوں کی ایک نایاب اور بیش قیمت تصویر ہے معلوم نہیں فوج کے متعلقہ محکمے کی نظر اس تصویر پر پڑی ہے یا نہیں ورنہ اس تصویر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔ ایسی تصویریں اتفاق سے بنتی ہیں بنائی نہیں جاتیں۔ دنیا کی نمائشوں میں ایسی ہی نایاب تصویریں آویزاں ہیں۔

سیلاب ہم پاکستانیوں کے لیے کوئی اچانک مصیبت نہیں ہے۔ برسات کا موسم آتے ہی شور مچ جاتا ہے کہ بارشیں آنے والی ہیں بچاؤ کر لیں۔ وارننگ محکمہ موسمیات دن رات جاری کرتا ہے لیکن ہمارے حکمران یہی سوچتے ہیں کہ جب آئے گا تو دیکھا جائے گا اور پھر وہ سیلاب کے مطابق محفوظ بند گاڑیوں میں یا ہیلی کاپٹروں میں چار و ناچار گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور سیلاب زدگان کو دیکھ کر گھر لوٹ آتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے وہ ان سیلاب زدگان کے لیے نقد امداد کا اعلان کرتے ہیں۔

اپنی جیب سے انھوں نے کسی مصیبت زدہ کو کبھی ایک پائی بھی نہیں دی۔ سرکاری خزانہ ہے جو ان کی انسان پروری کی مثال بنتا ہے یعنی غریبوں کے ٹیکسوں کی دولت  کسی دوسرے ہاتھ سے ان تک واپس پہنچا دی جاتی ہے اور ہم پاکستانی عوام حکمرانوں کی اس غریب پروری پر خوش ہو جاتے ہیں۔

بلاشبہ منہ زور پانی اور اس سے بننے والا سیلاب کسی کے بس میں نہیں ہوتا لیکن قدرت نے عقل بھی دی ہے اور کسی حد تک رسائی بھی کہ سیلاب کے متوقع راستوں پر بند بنا لیں اس کے خطرناک پانی کو راستہ دکھا دیں جو آبادیوں سے کترا کر نکل جائے اور کالا باغ بند جو کسی سیلاب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہم نے صرف تقریروں اور اخباری بیانوں کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ کالا باغ کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔

بھارت نے شروع میں چند کروڑ اور چند ارب روپے پاکستانیوں پر خرچ کر کے کالا باغ کا راستہ روکا ہے اور پاکستانیوں کو زندگی کی ایک لہر کے راستے سے دور کر دیا ہے۔ کالا باغ پر اتنی بحث ہو چکی ہے کہ اب اسے دہرانا ہی ہے کیونکہ اس کا کوئی بھی پہلو اب چھپا ہوا نہیں رہا۔ میں کئی ماہرین اور درد مند پاکستانی ماہرین کو جانتا ہوں جو کالا باغ کے قائل اور وکیل ہیں ان سے سب سے بڑھ کر شاید محترم شمس الملک ہیں جو واپڈا کے چیئرمین بھی رہے وہ خالص پٹھان ہیں اور اس علاقے میں ان کا آبائی گھر ہے جہاں کالا باغ کا پانی پہنچے گا اور پورا علاقہ زیر آب ہو گا۔ وہ بلاشبہ پانی کی سائنس کے ماہر ہیں اور وہ علی الاعلان اپنے صوبے میں بھی ہمیشہ کالا باغ کے حق میں بولے ہیں۔

ایک بار مرحوم خان عبدالولی خان نے انھیں دیکھتے ہی کہا کہ تم پٹھان ہو کر کالا باغ کے حق میں ہو جواب میں کہا گیا کہ محترم میں مجبور ہوں کہ یہ بند ضروری ہے۔ ایسی اور کئی مثالیں موجود ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنرل مشرف نے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی بعد اندرون سندھ صحافیوں سے بڑی تیاری کے بعد تفصیلی خطاب کیا موضوع صرف کالا باغ بند تھا اس طویل خطاب اور سوال و جواب کے بعد جنرل صاحب نے محسوس کیا اب کوئی سوال باقی نہیں رہا تو انھوں نے کہا کہ اب آپ سب نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔

اس پر ایک سندھی صحافی نے اٹھ کر کہا کہ لاجواب ہونے کے باوجود میں اس کے خلاف ہوں اور اس جواب پر یہ تقریب ختم ہو گئی جس کی پوری ریکارڈنگ ٹی وی کے پاس موجود ہے اور کالا باغ کے حق میں ایک بڑی دستاویز ہے۔ اگر یہ طے ہے کہ کالا باغ پاکستان کے مکمل مفاد میں ہے اور اس کے کچھ لوگ خلاف ہیں تو برسر عام ان سے بحث کی جائے اور پھر ان کی ضد اور بے جا مخالفت کے باوجود کالا باغ شروع کر دیا جائے۔ پھر دیکھا جائے کہ کیا ہو گا۔ محب وطن پاکستانی جیت جائیں گے اور سرزمین پاکستان پر یہ بند بن چکا ہو گا اور پھر سیلاب کے سامنے بھی ایک بند باندھ دیا گیا ہو گا جو اس کا زور توڑ دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔