مخالف سفارش کی مار

عبدالقادر حسن  جمعرات 30 جولائی 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اپنی پاکستانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس پر سے دو چار پردے اٹھا کر نیچے دیکھیں تو کروڑوں نہیں اربوں کے غبن آرام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ملک کے نامور لوگ انھیں پنکھے جھل رہے ہوتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کرپشن کے کسی محافظ کو آپ ہاتھ لگا سکیں۔ پوری دنیا ان کے سامنے کھلی ہے اور روپیہ ہر زبان بولتا ہے وہ اگر آج دبئی میں ہیں تو کل دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں آرام کر رہے ہوں گے۔ ان کا بھی ہر ملک کسی مجاہد کی طرح ان کا اپنا ملک ہے کہ اپنے خدا کا ملک ہے۔

یہ کرپشن عجیب و غریب تماشے دکھاتی ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں سے سر نکال کر حیران کر دیتی ہے۔ لاہور کے ایک مشہور و معروف تعلیمی ادارہ ایچی سن کالج جو پورے برصغیر میں تین چار اداروں میں سے ایک ہے اس کے پرنسپل کو اس لیے نکال دیا گیا کہ اس نے چند بڑے لوگوں کی اولاد کو ان کی نالائقی کی وجہ سے اس قابل نہیں سمجھا کہ انھیں اس اسکول میں داخل کیا جا سکے جو طالب علم داخلہ نہ پا سکے ان میں سے چند ایک بڑے بہت ہی بڑے لوگوں کی اولاد تھے۔ مثلاً سردار ایان صادق جو اسپیکر نیشنل اسمبلی کے پوتے تھے۔

میران مصطفے گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے پوتے، حزیں حسن منشا جو مشہور منشا خاندان کے فرزند تھے۔ اسی طرح مانیکا نون خاندان اور دوسرے معروف خاندانوں کے نالائق بیٹے۔ اس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر آغا غضنفر کو کالج کے بورڈ نے فارغ کر دیا جب کہ معاہدہ کے مطابق انھیں 2018ء میں فارغ ہونا تھا۔ اس کالج میں داخلے کے لیے وہ تمام کرپشن کی جاتی تھی جو امتحانی پرچوں کی فروخت وغیرہ سے متعلق ہے اور لاکھوں کی دوسری رشوت ہے۔

یوں تو میرے بھی پوتے اور نواسے بھی اسی کالج کے پڑھے ہیں اور اب بھی پڑھ رہے ہیں لیکن بحمد للہ کہ ان میں سب داخلے کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ تعلیم کا معیار تو اس مشہور ومعروف کالج کا بھی شاید بعض دوسرے کالجوں سے بہتر نہ ہو لیکن جن لوگوں کو صرف تعلیم ہی نہیں طالب علم کی شخصیت بنانے کی فکر بھی ہوتی ہے وہ اس کالج کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہونہار طلبہ بہت آگے نکل جاتے ہیں مثلاً میرے بڑے نواسے کو اسی کالج میں دوران تعلیم اس کی ذاتی کوششوں سے امریکا کے ایک معروف ادارے کی مکمل اسکالر شپ ملی اور اب وہ امریکا کی دنیا بھر میں مشہور یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

جان ہاپکن میں داخلے پر اس کے کالج کے پروفیسروں نے بھی اس پاکستانی کو مبارک دی کہ اس نے ایک مشکل مرحلہ حل کر لیا ہے۔ ایچی سن کالج اپنے طلبہ میں اعتماد اور حوصلہ پیدا کرتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی مدد کرتا ہے خواہ وہ شہسواری ہو یا کھیل کا کوئی اور میدان‘ انگریزوں نے اپنے اونچے غلام خاندانوں کے لیے یہ کالج بنایا تھا جس کا نام چیفس کالج تھا لیکن پاکستان بن گیا تو میرے جیسے عام لوگوں کے بچے بھی اپنی محنت سے یہاں داخل ہونے لگے لیکن کالج کی تعلیم اور تربیت کا معیار قائم رہا اور یہ ادارہ ایک منفرد نام بن گیا۔

آج کے ہمارے کئی سیاستدان اسی کالج کے پڑھے ہوئے ہیں بلکہ بلوچستان وغیرہ کے تمام سردار اسی کالج کے طلبہ تھے۔ پنجاب کے بڑے خاندان بھی یہاں تعلیم کو لازم سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے کالج کے پرنسپل کو جانا پڑ گیا ہے کیونکہ وہ نالائق طلبہ کو داخلہ دینے پر آمادہ نہ تھے اور کالج کا ایک خاص معیار برقرار رکھنے پر مصر تھے۔

اس کالج میں داخلے کی جو روایات پرانے زمانے سے چلی آ رہی تھیں ان میں کسی امیدوار کے خاندان کا دخل بھی ہوتا تھا بلکہ خاندانی نام ضروری تھا چنانچہ آج تک خاندانی نام کا سلسلہ چل رہا ہے۔

میں نے جب پہلا بچہ داخل کرایا تو پرنسپل سے ملنے گیا تاکہ ان سے مہربانی کی درخواست کر سکوں۔ پرنسپل نے میری بڑی خاطر تواضع کی اور باتوں باتوں میں بتا دیا کہ ہمارے ہاں داخلہ کے امید وار کا کسی خاص زمیندار خاندان سے تعلق مناسب ہے۔ صرف کالم نگاری سے کام نہیں چل سکے گا۔

اس پر میں نے عرض کیا کہ اگرچہ میں یہاں لاہور میں صرف ایک صحافی ہوں لیکن پھر میں نے داخلہ کے لیے اپنے خاندان کا حوالہ دینا مجبوری سمجھ لیا اور پرنسپل صاحب کو مناسب حد تک خاندانی تعارف کرا دیا۔ اس پر انھوں نے کہا کہ اگرچہ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ آپ کے بچے کو داخل کر لوں گا لیکن آپ نے میرا کام آسان کر دیا۔ اب جن بچوں کا کام پہلے سے آسان ہے جب ان کو ان کی نالائقی کی وجہ سے داخلہ نہ ملا تو ان کی سیاسی طاقت نے اس تعلیمی ادارے کو ایک اچھے نگران سے محروم کر دیا کیونکہ ان کے بچوں کو کسی اعلیٰ درجہ کی نگرانی کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ خود ہی اپنے نگراں ہوتے ہیں اور کالج کے اندر بھی اپنا نگراں گروپ بنا کر نام نہاد تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

جن بڑوں نے اپنے بچوں پر ایچی سن کالج کے طالب علم کا تمغہ لگانا تھا وہ تو اب لگ ہی جائے گا لیکن میں اپنے پنجاب کے نئے گورنر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ گورنر بننے کے بعد انھوں نے جو عوامی دعوے کیے تھے وہ سب کہاں گئے۔ وہ تو پہلی ہی آزمائش میں پسپا ہو گئے لیکن اچھا ہی ہوا کہ ایک غلط آدمی سے امیدیں نہ بندھ سکیں۔ میں نے بچوں کو بتا رکھا ہے کہ میں نے کبھی ملازمت کے لیے درخواست نہیں دی اور ہمیشہ میرٹ پر ملازمت کی ہے ۔

اس لیے آپ بھی اپنا میرٹ بنائیں یہ مقابلے کی دنیا ہے سفارشوں کی دنیا عارضی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں ہمارے اخبار میں ایک سفارشی بھرتی ہو گیا جسے میرٹ پر آنے والوں نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اوراس کا نام ہی سفارشی پڑ گیا۔ چیف ایڈیٹر فیض صاحب کو تجسس ہوا تو انھوں نے اسے بلا لیا، بعد میں فیض صاحب نے کہا کہ یہ بے وقوف تو میرٹ پر بھی آ سکتا تھا اس نے بدنامی لی، سفارش کیوں کرائی۔ لیکن ہم ابھی سفارشی دور سے گزر رہے ہیں۔ سفارش خلاف ہو تو پرنسپل بھی برخواست ہو سکتا ہے اور سفارش حق میں ہو تو نالائق سے نالائق امید وار بھی داخلہ لے سکتا ہے سفارش کا یہ زمانہ ابھی تک تو چل رہا ہے شاید کبھی گزر جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔