فیض کے مشورے سے، ڈاکٹر کے مشورے تک

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 30 جولائی 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

یہ غالباً 1969یا 1970 کی بات ہے میں ملک کے معروف ہفت روزہ لیل و نہار کی مجلس ادارت میں شامل تھا۔ لیل ونہار کا آفس طارق روڈ پر تھا اس زمانے میں ویگن یا چنگچی وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے ، بسیں بھی مخصوص روٹس پر ہی چلتی تھیں، طارق روڈ جانے کے لیے دو تین بسیں بدلنی  پڑتی تھیں ، فیض احمد فیض اور سبط حسن  لیل و نہار کے سرپرست تھے وہ اکثر آفس آیا جایا کرتے تھے ہم اور حسن عابدی ہی رسالے کا زیادہ کام کرتے تھے۔

اس زمانے میںآتش جوان تھا سو ہر روز ہری ہری سوجھتی تھی، لیل ونہار کے لیے فیچرز اور انٹرویوز کی ذمے داری بھی ہماری تھی جس کے لیے بسوں میں دھکے کھانے پڑتے تھے۔ صدر میں پنڈی سازش کیس کے ملزم معروف شخصیت محمد حسین عطا کے ہوٹل پام گرو میں ہر روز شام میں اہل قلم اہل دانش کی محفل سجتی تھی جس میں ہم بھی پابندی سے شرکت کرتے تھے، ایک دن ہم شام میں پام گرو ہوٹل کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے فیض احمد فیض  بھی موجود تھے، گفتگو کے دوران ٹرانسپورٹ کی دشواریوں پر بات ہو رہی تھی کہ اچانک فیض نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ارے بھائی! آپ ایک موٹرسائیکل کیوں نہیں لے لیتے۔‘‘

ہم تازہ تازہ جیل سے چھوٹ کر آئے تھے ہماری ملازمت بھی چلی گئی تھی اگرچہ اس زمانے میں اچھی کنڈیشن کی 50 موٹر سائیکل تین ساڑے تین ہزار میں مل جاتی تھی، لیکن اتنی رقم جمع کرنا بھی مشکل تھا لیکن چونکہ فیض احمد فیض کا مشورہ ذہن پر سوار تھا سو کسی نہ کسی طرح ہم نے ایک سیکنڈ ہینڈ  50 موٹر سائیکل خرید ہی لی ۔اس موٹر سائیکل کی وجہ سے ہمارا کنوینس کا بڑا مسئلہ حل ہوگیا لیکن ’’زیر تربیت‘‘ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی ہلکے پھلکے ایکسیڈنٹ ہوجاتے تھے۔

اگرچہ اس دوران اور اس کے بعد قدم قدم پر ہمارے سامنے کاریں اور کوٹھیاں آتی رہیں لیکن ہم ان سوغاتوں کو ٹھکرا کر آگے بڑھتے رہے کہ ہمارے ذہن پر انقلاب سوار تھا اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔ اس لیے 45 سال میں اتنی ترقی کی کہ  50 موٹر سائیکل سے  70 موٹر سائیکل تک پہنچ گئے باقی اللہ اللہ خیر صلا۔

آج فیض احمد فیض اور  ففٹی موٹر سائیکل اس لیے یاد آئے کہ ہم سر سے پیر تک زخمی  ہیں اور کراہ رہے ہیں کندھے، پیر اور پسلی پر بڑی گہری چوٹیں آئی ہیں اور دایاں ہاتھ بھی زخمی ہے بڑی مشکل سے کام لکھا جا رہا ہے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہاتھ کو آرام دینا پڑ رہا ہے۔ ایکسیڈنٹ یوں ہوا کہ ہم چکن لینے کے لیے مارکیٹ جا رہے تھے کہ اچانک ہمارے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا، ہوش آنے پر ہمیں بتایا گیا کہ کسی تیز رو موٹرسائیکل سوار نوجوان نے بڑی بے مروتی سے ٹکر مار دی تھی۔

ہمیں نیم بے ہوشی کے عالم میں قریبی اسپتال لے جایا گیا، جہاں انجکشن لگائے گئے اور مرہم پٹی کی گئی چونکہ چوٹیں زیادہ اور گہری تھیں لہٰذا ایک ہڈی کے اسپیشلسٹ کے پاس لے جایا گیا ایکسرے ہوئے اور یہ مژدہ سنایا گیا کہ نہ کوئی ہڈی ٹوٹی نہ فریکچر ہوا۔ اس اطلاع سے سکون اور اطمینان تو حاصل ہوا لیکن تکلیف ناقابل برداشت تھی اگرچہ سر محفوظ رہا لیکن سر ہی کی چوٹ سے ہم بے ہوش ہوئے ڈاکٹر نے دوائیں لکھ دیں اور احتیاط بھی بتا دیں۔

درد اور سوجن میں کمی نہ ہوئی تو ڈیفنس کے ایک بڑے ہڈی کے ڈاکٹر کے پاس گئے موصوف نے جن کی فیس مبلغ ایک ہزار تھی ہمیں مبارکباد دی کہ ہم کسی ممکنہ بلکہ حقیقی بڑے نقصان سے بچ گئے۔ بڑے ڈاکٹروں کی بڑی مشکل یہ ہوئی ہے کہ انھیں ’’خدمت خلق‘‘ کے لیے کئی کلینکس میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ہر کلینک کا ایک ٹارگٹ ہوتا ہے۔

جسے پورا کرنے کے لیے ان اسپیشلسٹ حضرات کو جتنا جلد ہو سکے مریضوں کو بھگتانا پڑتا ہے۔ ہمارا درد کے مارے برا حال تھا کئی جگہ سویلنگ ہو رہی تھی ڈاکٹر صاحب نے ایک ہزار فیس کے عوض ہمیں پانچ منٹ کا وقت دیا اور درد کی گولیوں کے ساتھ یہ مشورہ دیتے ہوئے ہمیں رخصت کیا کہ ہم روزانہ 12 غبارے منہ سے ہوا بھر کر پھاڑیں اس عجیب و غریب مشورے کی ہم وجہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ اگلا مریض اندر آگیا اور ہم غبارے پھلانے کی مصلحت کو جانے بغیر کلینک سے باہر آگئے۔

دو ڈاکٹروں کے علاج سے فائدہ نہ ہونے کی وجہ ہم اب ایک تیسرے اسپیشلسٹ کے زیر علاج ہیں زخم ابھی تک ہرے ہیں۔ اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں فراہم کرنا حکومتوں کا فرض ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میں جو علاج مہیا کیا جاتا ہے اس کا ذکر اس لیے بے کار ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے اندر اور باہر مریض ڈاکٹروں کی جس زبان میں تعریف کرتے ہیں وہ ناقابل اشاعت ہے۔ اس حوالے سے دہری صورتحال وہی ہے جو تعلیمی اداروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشی نظام میں ہر چیز پیسے کے عوض خریدی جاسکتی ہے لیکن کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنے کا جو کلچر مستحکم ہے اس میں ڈاکٹر مریض کو نہ وقت دیتا ہے نہ تفصیل سے اس کا معائنہ کرتا ہے اس بے راہ روی کا نتیجہ یہ ہے کہ مریض پیسے خرچ کرکے بھی معقول علاج سے محروم ہوتا ہے۔ جاہل سے جاہل حکمران کو بھی یہ علم ہوتا ہے کہ شہریوں کو مکمل طبی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے لیکن کراچی جیسے دو کروڑ آبادی والے شہر میں صرف دو بڑے سرکاری اسپتال ہیں باقی پرائیویٹ دکانیں جگہ جگہ کھلی ہوئی ہیں جہاں مالکان مریضوں کو اسی بے دردی سے لوٹ رہے ہیں جس طرح حکمران عوام کو لوٹ رہے ہیں۔

روٹی کپڑا اور مکان کے بعد تعلیم اور علاج عوام کی اولین ضرورت ہے لیکن ان دو شعبوں پر بہ مشکل دو فیصد رقم بجٹ میں رکھی جاتی ہے اور لوٹ مار کا عالم یہ ہے کہ اس دو فیصد میں سے بھی بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ ترقی کے نام پر اربوں ڈالروں کے منصوبوں پر عملدرآمد کر رہا ہے لیکن اس بے رحم طبقے کو یہ احساس نہیں کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام اپنی اہم بنیادی ضرورتوں تعلیم اور علاج کے لیے کس قدر خوار ہو رہے ہیں۔

لوٹ مار کا جو سلسلہ اوپر سے شروع ہوا ہے اب وہ ایک خطرناک زہر کی شکل میں ہر شعبہ زندگی تک اس طرح پھیل گیا ہے کہ اس کا شکار اس ملک کے غریب عوام ہو رہے ہیں۔ ہم بڑے بڑے ڈاکٹروں کے علاج کے باوجود ابھی تک زیر علاج ہیں ، درد اور تکلیف سے برا حال ہے، حکمرانوں کی بے شرمی پر کڑھ رہے ہیں کہ ہم جس غیر ذمے داری کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ دولت کی بے لگام خواہش ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔