ملا اختر منصور افغان طالبان کے امیر منتخب

ویب ڈیسک  جمعرات 30 جولائی 2015

 اسلام آباد: افغان طالبان کی شوریٰ نے ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ملا اختر منصورکونیا امیرمنتخب کرلیا اش کج سراج الدین حقانی اور ہیبت اللہ اخونزادہ ان کے معاونین مقررکردیے گئے ہیں۔

افغان طالبان شوریٰ نے ملا عمرکی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ملا اختر منصور کو نیا امیر منتخب کرلیا ہے، ملا اخترمنصورملاعمر کے نائب تھے جب کہ 1996 سے 2001 میں طالبان دور حکومت میں سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے، سراج الدین حقانی اور ہیبت اللہ اخونزادہ کو اختر منصورکا معاون مقرر کیا گیا ہے۔ سراج الدین حقانی، حقانی نیٹ ورک کے امیر ہیں جب کہ ہیبت اللہ اخونزادہ طالبان دور حکومت میں چیف جسٹس کے عہدے پرفائز تھے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق افغان طالبان شوریٰ کا اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں ملا محمد عمرکی جگہ ملا اختر محمد منصور کو نیا امیرمنتخب کیا گیا۔ طالبان شوریٰ نے ملا عمرکی ہلاکت کی تصدیق یا تردیدکرنے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ نیا امیر منتخب کرنے سے مفہوم اخذکرلیا جائے۔ ملا عمر کے حوالے سے نئے امیر اختر محمد منصور بیان جاری کریں گے۔ ذرائع کے مطابق طالبان مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ملا اختر منصور کے حلیف گروپوں نے شرکت کی جب کہ ان کے چند ایک حریف اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ملا عمرکا بیٹا ملا یعقوب بھی طالبان کی امارت کا امیدوار تھا تاہم اکثریت نے اختر منصورکو امیر منتخب کیا۔

طالبان عہدیدار نے بتایا کہ بی بی سی رپورٹ کے بعد افغان علاقے میں افغان طالبان شوری کا اجلاس ہوا جس میں 200سے زائد طالبان رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغان طالبان کے نئے امیر کیلئے مختلف ناموں پر غور کیا گیا اور متفقہ فیصلے سے ملا اختر منصور کو نیا امیر مقرر کر دیا گیا۔ طالبان کے نئے منتخب امیر اختر منصور افغان صوبہ قندھار کے رہنے والے ہیں، ان کا تعلق قبیلہ اسحاق زئی درانی سے ہے۔ ذرائع کے مطابق جولائی 2013ء میں ملا عمر کی ہلاکت کے بعد سے طالبان کے تمام تر فیصلے نائب امیر اختر منصور ہی کرتے آ رہے ہیں۔ اختر منصور نے ہی طالبان حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ بھی کیا تھا جس کا پہلا دور7 جولائی کو مری میں ہوا تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کی طرف سے ملا عمر کی ہلاکت کا پردہ اٹھانے کے بعد طالبان کو اختر منصور کو امیر منتخب کرنا پڑا۔ آن لائن کے مطابق افغان مجلس شوریٰ کے ایک رکن نے بتایا کہ ملاعمر کی ہلاکت کراچی میں نہیں ہوئی بلکہ افغان سرحدی علاقے میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ امریکی حملے کے بعد ملا عمر ضلع نوزاداد کے گائوں نزبی منتقل ہوگئے تھے اور زندگی کے آخری ایام اسی علاقے میں گزارے اور دوران جنگ طالبان جنگجوئوں کی مدد کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ اہم طالبان کمانڈر عبدالجبار بھی ملا عمر کے ساتھ رہے جنھوں نے 2013میں افغان طالبان کے 5 عہدیداروں کو بتایا کہ ملا عمر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد افغان طالبان شوریٰ کا اہم اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔

ملا عمر کے خاندان اور افغان طالبان نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا عمر 14 سال تک غیرملکیوں کیخلاف جنگ کے دوران افغانستان میں موجود رہے اور کبھی پاکستان یا کسی اور ملک نہیں گئے۔ بیان میں ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اور بیٹے ملا یعقوب نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر طالبان حکومت کے دوران ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو انھیں معاف کیا جائے۔ ادھر افغان طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں شامل نہ ہونے کا اعلان کردیا۔ طالبان نے ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں قطر دفتر نہ شریک ہے اور نہ اسے اس عمل کا کوئی علم ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق طالبان کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا اختیارصرف طالبان کی سیاسی شوریٰ کو حاصل ہے، جبکہ سیاسی شوریٰ کو مذاکرات سے متعلق کوئی علم نہیں۔ افغان دفتر خارجہ نے بھی مذاکرات ملتوی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔