فلم ریویو؛ کراچی سے لاہور

نمرہ ملک  جمعرات 30 جولائی 2015
فلم مزاح، رومانویت سے بھرپور ہے۔ گیتوں کا تڑکا، کراچی سے لاہور کے سحر انگیز مناظر، نوک جھوک اور مزاح انگیز مکالمے فلم کی جان ہیں۔

فلم مزاح، رومانویت سے بھرپور ہے۔ گیتوں کا تڑکا، کراچی سے لاہور کے سحر انگیز مناظر، نوک جھوک اور مزاح انگیز مکالمے فلم کی جان ہیں۔

 

ڈائریکٹروپروڈیوسر: وجاہت رؤف
تحریر: یاسر حسین
کاسٹ: شہزاد شیخ، جاوید شیخ، عائشہ عمر، احمد علی، یاسر حسین، عاشر وجاہت، اشیتہ سید، منتہہ ترین مقصود، رشید ناز، وجاہت رؤف
میوزک: سردرویش (علی نور، علی حمزہ اور شیراز اپل کا اجتماعی تخلیقی پروجیکٹ)

فلم کی کہانی جیسے اس کے نام سے ظاہر ہے کراچی سے لے کر لاہور تک کے سفر پر فلمائی گئی ہے۔ فلم کی کہانی دو پڑوسیوں ضہیم (شہزاد شیخ) اور مریم (عائشہ عمر) سے شروع ہوتی ہے. ضہیم جو پوری زندگی ہر کسی سے بے عزت ہوتا رہتا ہے چاہے وہ اس کے والدین ہوں، باس ہو، اس کے اساتذہ ہوں یا اس کی محبوبہ۔ دوسری جانب مریم کا کردار کو اعتمادیت سے بھرپور دکھایا گیا ہے جو ہر قسم کے حالات اور لوگوں کا سامنا کرنے کی طاقت اور ہمت رکھتی ہے۔ ضہیم کی محبوبہ عاشی (اشیتہ سید) یہ کہہ کر لاہور جاتی ہے کہ وہ اپنے خالہ خالو اور کزن سے ملنے جارہی ہے لیکن وہاں جاکر فون کرکے اپنی شادی کا بتاتی ہے، جس کے بعد ضہیم پریشان حالت میں سوچ و بچار میں پڑجاتا ہے اور دوست کے انجانے میں کہی بات کو سنجیدگی میں لے کر کسی پاگل دیوانے کی طرح دوستوں موتی (یاسرحسین) اور سیم (احمد علی) اور اپنی پڑوسن مریم اور اس کے بھائی زیزو (عاشر وجاہت) کے ساتھ لاہور کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ سفر میں ان کے ساتھ کھٹے میٹھے واقعات و حالات پیش آتے ہیں جس کے لیے فلم دیکھنا لازمی امر ہے۔

فلم میں اداکاری کی بات کہی جائے تو شہزاد شیخ پوری فلم میں چیختے چلاتے ہوئے ہی پائے گئے ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات بھی کوئی خاص نہیں تھے جبکہ عائشہ عمر نے اپنے کردار کے ساتھ کافی حد تک انصاف کیا اور فلم میں انتہائی خوبصورت لگنے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی سے کردار بھی نبھایا۔ فلم میں سب سے بہترین اداکاری کا مظاہرہ سپورٹنگ کاسٹ احمد علی، یاسر حسین اور عاشروجاہت نے کیا۔ احمد علی کی اداکاری فلم میں فلم بینوں کو کہیں گم نہیں ہونے دے گی بلکہ اس کو مزید دیکھنے کی خواہش ہوگی۔ بہت سی جگہ نہ بولتے ہوئے بھی صرف وہی سب سے جاندار اداکاری کرتے نظر آئے۔ یاسر حسین نے بھی اپنے کردار کے ساتھ پورا انصاف کیا جبکہ چائلڈ آرٹسٹ عاشر وجاہت نے تو محفل لوٹ لی۔ عاشر صحیح معنوں میں فنکار ہے، جس کے اندر اداکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات اور مکالمے ادا کرنے کے انداز نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ یہ بچہ اداکاری کر رہا ہے۔ فلم میں جاوید شیخ کی اداکاری بھی مایوس کن رہی۔ اشیتہ سید کی اداکاری مطلبی خودپسند لڑکی کے حساب سے مناسب رہی۔ رشید ناز کا کردار بہت ہی مزیدار ہے جو فلم میں ہنسی اور قہقوں کے سلسلے کو مزید بڑھاتا ہے۔

فلم میں اسپیشل اپیرینس میں مضنہ ابراہیم، شامینے چوہدری، ربیہ چوہدری، رؤف آفریدی، علی حمزہ، علی نور، شیراز اپل (جو ایک گانے میں ہیں)، خود فلم کے ہدایت کار وجاہت رؤف، انکی زوجہ شازیہ وجاہت، وہاب و دیگر تھے۔ ربیہ چوہدری نے تھوڑے سے لمحہ کے لیے ہی لیکن کافی مناسب اداکاری کی جبکہ وجاہت نے سندھی وڈیرے کا کردار مناسب ادا کیا جس کو مزید بہتر طور پر ادا کیا جاسکتا تھا۔ سندھی وڈیرے کے کردار میں وجاہت کے پیٹ پر مائیک کی تار بے حد نمایاں تھی جو نمایاں تکنیکی خامی ہے۔ فلم کے بڑے پردے پر اس طرح کی خامی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

فلم کی ساخت کی بات کی جائے تو فلم میں سین بے ترتیبی کا شکار تھے جن کو کافی حد تک بہتر کیا جاسکتا تھا۔ فلم میں انٹرمیشن غلط جگہ پر دیا گیا جبکہ اسے اس سین پر دینا چاہیے تھا جہاں خان صاحب (رشید ناز) سیم کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ فلم میں چند منٹ کے وقفہ کے بعد ہی لگا تار دو گیت بھی بے ترتیبی کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ فلم کے اختتام میں فرح خان کا انداز اپنایا گیا جس میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر اداکاروں اور ٹیم ممبران کے نام ساتھ میں پیش کیے جاتے تو بہت مضبوط تاثر آتا۔

فلم کی کہانی یاسر حسین نے بہت ہی جاندار انداز میں قلمبند کی ہے حالانکہ فلم کی کہانی (expected) تھی لیکن جس انداز میں یاسر نے اس کے مکالمے تحریر کیے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ فلم میں مکالموں پر محنت صاف دکھائی دی گئی، برجستہ، مزاح سے بھرپور مکالمے اس فلم کی جان ہیں جو اسے باکس آفس کی دوڑ میں بہت آگے لے جانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
فلم کے گیت سروں کی چاشنی سے بھرپور ہیں، فلم میں مجموعی طور پر پانچ گیت شامل کیے گئے جو سب کے سب دل کو چھولینے والے ہیں۔ فلم کی موسیقی علی حمزہ، علی نور اور شیراز اپل نے مشترکہ طور پر تخلیق کی ہے۔ فلم میں دو آئٹم سانگ شامل ہیں ’’ربی رلی‘‘ جو منتہہ ترین مقصود پر فلمایا گیا ہے جبکہ دوسرا ’’ٹوٹی فروٹی‘‘ جو عائشہ عمر پر فلمایا گیا ہے جبکہ اسے گایا بھی خود عائشہ عمر نے ہی ہے۔ عائشہ عمر کی چلبلی ادائیں اور رقص سب کو داد دینے پر مجبور کردیں گی اور اگر یوں کہا جائے کہ کوئی بھی ان کے سحر سے بچ نہیں پائے گا تو یہ غلط نہ ہوگا جبکہ اسے اب تک کا بہترین آئٹم سانگ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

فلم دیکھ کر اس بات کا احساس بھی ضرور ہوگا کہ وجاہت نے فلم میں اسپونسر کا حق خوب ادا کیا جو آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

مختصراً فلم مزاح، رومانویت سے بھرپور ہے۔ گیتوں کا تڑکا، کراچی سے لاہور کے سحر انگیز مناظر، نوک جھوک اور مزاح انگیز مکالمے فلم کی جان ہیں اور یہ کہنا ضرور بنتا ہے کہ فلم دیکھ کر بار بار دیکھنے کو دل چاہے گا۔

یہ فلم انٹرنیشنل ملٹی گروپ آف کمپنی کے تعاون سے ملک بھر کے سینما گھروں میں 31 جولائی کو ریلیز کی جارہی ہے جبکہ پاکستان کی پہلی فلم ہے جس کا پریمئیر 17 آگست کو ہالی ووڈ میں بھی منعقد ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

نمرہ ملک

نمرہ ملک

آپ روزنامہ ایکسپریس میں رپورٹر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔