جادوبھری مٹھائی

مرزا ظفر بیگ  اتوار 2 اگست 2015
دلی عمدہ پکوان، مٹھائیاں اور طرح طرح کے ذائقوں والی اشیاء ہمیشہ ہی یہاں رہنے اور باہر سے آنے والوں کو اپنا دیوانہ بناتی رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

دلی عمدہ پکوان، مٹھائیاں اور طرح طرح کے ذائقوں والی اشیاء ہمیشہ ہی یہاں رہنے اور باہر سے آنے والوں کو اپنا دیوانہ بناتی رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

انڈیا کا دارالحکومت دہلی قدیم اور جدید تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ یہ دو حصوں نئی دہلی اور پرانی دہلی پر مشتمل ہے۔ یہاں کے عمدہ پکوان، مٹھائیاں اور طرح طرح کے ذائقوں والی اشیاء ہمیشہ ہی یہاں رہنے اور باہر سے آنے والوں کو اپنا دیوانہ بناتی رہی ہیں۔ خاص طور سے اس شہر کے قدیم حصے کے گلی کوچے تو بے مثال کھانوں اور پکوان کے لیے ہمیشہ سے مشہور رہے ہیں۔

ان گلی کوچوں میںاگر تکے کباب بنائے جارہے ہیں تو منفرد ذائقے والی نہاری اور پائے بھی اس شہر کی خاص پہچان ہیں۔ بریانی، زردہ، قورما، شاہی ٹکڑے اور نہ جانے کیا کیا چیزیں اس شہر میں بڑے اہتمام سے تیار کی جاتی ہیں۔ اگر بات میٹھے کی کی جائے تو یہاں کے لوگ ہمیشہ سے دیسی گھی میں تربتر مٹھائیوں کے دیوانے ہیں۔ ماضی میں دہلی کا سب سے بڑا اور مشہور بازار چاندنی چوک تھا۔ یہ بازار آج بھی اپنی پوری آن بان کے ساتھ موجود ہے۔

یہ بازار چاندنی چوک کی مشہور تاریخی مسجد فتح پوری کے مشرقی دروازے سے شروع ہوکر سامنے لال قلعے کی دیوار تک چلا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہ بازار، لال قلعے کے شاہی دربار تک جاتا تھا، مگر بعد میں اس کے درمیان سڑکیں بنادی گئیں جس سے یہ بازار لمبائی میں تو چھوٹا ہوگیا، مگر اس کی اپنی تاریخی اہمیت برقرار ہے۔ چاندنی چوک میں دو اور مشہور چیزیں بھی ہیں جن میں ایک سکھوں کا گردوارہ سیس گنج ہے اور دوسرا اسی گردوارے کے سامنے معروف قدیم فوارہ جس پر کسی زمانے میں انگریزوں نے ٹکٹکی لگائی تھی اور وہاں اپنے مجرموں کو سزائے موت دیتے تھے۔

چاندنی چوک میں دنیا بھر کی اشیاء ملتی ہیں جن میں خاص طور سے ملبوسات، جوتے، چپلیں، سینڈل وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ اسی علاقے یعنی چاندنی چوک میں مٹھائیوں کی ایک نہایت مشہور اور قدیم دکان تھی جو ’’گھنٹے والا ‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ اس دکان کی تیار کردہ مٹھائی اور خاص طور سے سوہن حلوہ اور کراچی حلوہ اس قدر مشہور ہوئے کہ جلد ہی ان حلووں نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنالیا، یہاں تک کہ دوسرے ملکوں سے بھی گھنٹے والا کے تیار کردہ ان حلووں کی فرمائش آتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جو شخص ایک بار گھنٹے والا کا سوہن حلوہ یا کوئی اور مٹھائی کھالیتا، پھر وہ بار بار یہی مانگتا تھا۔

کسی زمانے میں دیسی گھی کو صحت و طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا، مگر آج کے ڈاکٹر اسے مضر صحت قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ گھی بے شمار موذی بیماریوں کا سبب ہے جن میں ذیابیطس، دل کی بیماری اہم ہے۔

بہرحال ماضی کے مٹھائی فروش دیسی گھی اور خاص طور سے شکر یا چینی سے جو مٹھائیاں تیار کرتے تھے، وہ نہ صرف دہلی والوں کو، بلکہ باہر سے آنے والوں کو بھی بے حد مرغوب ہوتی تھیں۔ دہلی میں مٹھائی کی ویسے تو کئی دکانیں تھیں، مگر ان میں ’’گھنٹے والا‘‘ کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ مٹھائیوں کی یہ منفرد دکان 225سال قبل دہلی کے ایک قدیم علاقے چاندنی چوک میں 1790ء میں قائم کی گئی تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا کے صدر جارج واشنگٹن تھے، موزارٹ کا میوزک دنیا میں دھوم مچا رہا تھا اور فرانس انقلابی ترقی کی شاہ راہ پر چل پڑا تھا۔ اس دور میں برطانیہ میں تخت شاہی پر شاہ جارج سوم براجمان تھے اور ادھر تختِ دہلی پر مغل فرماں روا شاہ عالم ثانی حکومت کررہے تھے۔

یہ ایسا یادگار زمانہ تھا جس میں دنیا بھر میں نئے نئے واقعات ظہور پذیر ہورہے تھے۔ لوگ ترقی اور خوش حالی کی خاطر ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک شہر سے دوسرے شہر آجارہے تھے اور اپنی قسمت آزما رہے تھے۔ انہی دنوں راجستھان کے شہر امر کا ایک چھوٹا سا مٹھائی فروش لالہ سکھ لال جین اپنے کام میں ترقی کی خواہش لیے دہلی پہنچا۔ وہ یہاں مٹھائی کی ایک دکان قائم کرنا چاہتا تھا۔ لالہ سکھ لال جین کوئی معمولی مٹھائی فروش نہیں تھا۔ اسے اپنے کام میں بڑی مہارت تھی۔ وہ طرح طرح کے ذائقوں کی مٹھائیاں تیار کرنے کے ہنر سے واقف تھا۔

اسے مختلف طرح کی مٹھائیوں میں شامل کرنے والے اجزاء کی ترتیب میں خاص مہارت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پورے اعتماد اور بھروسے کے ساتھ دہلی پہنچا تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اس شہر بے مثال میں کام یاب ہوگا اور یہاں اس کی تیار کردہ مٹھائیاں دھوم مچادیں گی، کیوں کہ یہ حکم رانوں کا شہر تھا جہاں اس وقت بھی مغل بادشاہ تخت پر بیٹھا حکومت کررہا تھا۔

لیکن مٹھائی اور گھنٹے کا آپس میں کیا تعلق ہے، اس کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب لالہ سکھ لال جین نے اپنا کام شروع کیا تو ابتداء میں وہ اپنی تیار کردہ مٹھائیاں پیتل کے ایک چمک دار سونے جیسے تھال میں بڑے سلیقے اور مہارت سے جماتا، پھر اس تھال کو اپنے سر پر رکھ کر پھیری لگاتا۔ اس دوران اس کے ایک ہاتھ میں پیتل کی چھوٹی سی گھنٹی بھی ہوتی تھی، جسے بجابجاکر وہ اپنے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔

اس طرح لالہ سکھ لال جین نے گلی گلی گھوم پھر کر مٹھائی بیچنی شروع کی اور اپنی گھنٹی کی وجہ سے ہی وہ ’’گھنٹے والا‘‘ کہلایا۔ مگر لالہ کو کبھی اس بات پر نہ تو شرمندگی ہوئی اور نہ ہی اس نے اسے اپنی توہین سمجھا، بلکہ اسے اپنی اس شناخت پر اتنا فخر تھا کہ اس نے یہ نام اپنے نام کا حصہ بنالیا۔ بعد میں کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ یہ لالہ سکھ لال جین کی مٹھائی ہے، بلکہ یہ کہتا تھا کہ یہ گھنٹے والا کی مٹھائی ہے۔

آہستہ آہستہ لالہ سکھ لال جین کی مقبولیت بڑھتی گئی اور اس کی مزے دار مٹھائیاں بھی مشہور ہونے لگیں تو کچھ عرصے بعد لالہ نے ایک ریڑھی خرید لی اور اس پر اپنی تیار کردہ مٹھائیاں فروخت کرنے لگا۔1790تک لالہ اتنی ترقی کرچکا تھا کہ اس نے دہلی کے تاریخی اور پرہجوم بازار چاندنی چوک میں ایک بڑی دکان لے لی اور اس طرح مغل حکم راں کے لال قلعے کے بہت قریب اپنا کاروبار شروع کردیا۔

گھنٹے والا کے موجود مالک سشانت جین کہتے ہیں:’’سوہن حلوہ گھنٹے والا کی سب سے مشہور مٹھائی ثابت ہوئی، کیوں کہ یہ حلوہ مغل بادشاہوں کا پسندیدہ ترین تھا۔ بعد میں انڈیا کے صدور اور وزرائے اعظم بھی اس حلوے کے شائق ہوگئے اور عام لوگ تو تھے ہی اس کے دیوانے، اسی لیے گھنٹے والا کی مٹھائیوں میں سب سے زیادہ طلب سوہن حلوے کی تھی۔

انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سوہن حلوہ شوق سے کھاتے تھے۔ ان کی وزیر اعظم بیٹی اندراگاندھی بھی گھنٹے والا کی مٹھائیاں بہت پسند کرتی تھیں اور بڑے شوق اور اہتمام سے منگواتی تھیں۔

کسی زمانے میں جب انڈیا کے فوجی جوان کوریا میں تھے، اس وقت اندراگاندھی نے ان کے لیے گھنٹے والا کی سوغات تحفے میں بھجوائی تھی۔ بعد میں اندراگاندھی کے بیٹے اور انڈیا کے وزیراعظم راجیوگاندھی بھی سوہن حلوے کے ساتھ ساتھ گھنٹے والا کی تیار کردہ دوسری مٹھائیوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ راجیوگاندھی کی بیٹی پریانکا کی شادی کے لیے گھنٹے والا کی مٹھائیاں خصوصی طور پر تیار کرائی گئی تھیں اور بڑے اہتمام سے ہم نے ان کی سپلائی کی تھی۔‘‘

سشانت جین نے ماضی کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ 1912 کے دہلی گزیٹیر میں گھنٹے والا اور اس کی تیار کردہ مٹھائیوں کا ذکر بھی شامل ہے اور اسے دہلی کے ذائقوں کا ایک آرٹ قرار دیا گیا ہے۔ نیپال کے آنجہانی بادشاہ بریندرا نے بھی گھنٹے والا کی مٹھائیوں کی تعریف کی تھی اور انہیں ایک توصیفی خط بھی لکھا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیر عہدے دار، انڈیا کے سیادت دانوں اور مشاہیر نے بھی اس دکان کی بار بار تعریف کی۔ معروف مصور ایم ایف حسین نے بھی گھنٹے والا کی مٹھائیوں کو بہت پسند کیا تھا اور انہیں مرغوب ترین قرار دیا تھا۔

سشانت جین کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھنٹے والا کی آٹھ نسلوں نے اپنی تیار کردہ منفرد ذائقوں کی مٹھائیوں کے ذریعے بے شمار لوگوں کی خدمت کی اور ان سے داد و تحسین بھی وصول کی۔

گھنٹے والا کے ایک پڑوسی جن کا ساڑھی کا کاروبار ہے، ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہتے ہیں:’’مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں کہ جب دہلی میں دیوالی کا تہوار آتا تھا تو گھنٹے والا کی دکان پر مٹھائی خریدنے والوں کا اتنا بڑا ہجوم جمع ہوجاتا تھا کہ دکان کے مالکان کو لوگوں کی قطار بنوانے کے لیے پولیس کی مدد حاصل کرنی پڑتی تھی۔

ان میں وہ گاہک بھی شامل ہوتے تھے جو دوسرے شہروں اور دہلی کے مضافاتی علاقوں سے آتے تھے، یہ سب لوگ علی الصبح گھنٹے والا کی دکان پر پہنچ جاتے تھے اور ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ کسی طرح اس کا نمبر پہلے آجائے اور وہ اپنی پسندیدہ مٹھائی لے کر واپس گھر چلا جائے۔‘‘

یہ تو تھی گھنٹے والا کی ماضی کی داستان، مگر آج یہ دکان ویران ہوچکی ہے۔ نہ اس کے سامنے گاہکوں کی قطار ہے اور نہ ملازمین ہیں۔ گذشتہ دنوں مالکان نے خود ہی اس دکان کو بند کردیا ہے، کیوں کہ ان کے خیال میں یہ دکان اب ان کے لیے منافع بخش نہیں رہی ہے اور یہ ان کے لیے خسارے کا سودا بن گئی ہے، ویسے بھی کچھ قانونی پیچیدگیوں نے ان کی راہ میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں کہ انہوں نے اسے بند کرنے ہی میں اپنی عافیت جانی۔

اس حوالے سے سشانت جین کہتے ہیں:’’گھنٹے والا کی مٹھائیوں کے منفرد ذائقے کے پیچھے دیسی گھی اور شکر (چینی) کا ہاتھ ہوتا تھا، مگر جب سے ذیابیطس اور دیگر بیماریاں منظر عام پر آئی ہیں، لوگ ان سے دور ہوگئے ہیں۔ اب تو بچے بھی ان مٹھائیوں کے بجائے چاکلیٹ اور کینڈیز وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔

میرے اپنے بچے میری دکان کی تیار کردہ مٹھائیوں کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ دوسرے یہ کہ گھی اور مکھن ہر مٹھائی کی جان ہوتے ہیں، جب یہ نہیں ہوں گے تو مٹھائی میں کیا خاک مزہ آئے گا۔ بہر حال ہمیں لوگوں کی صحت بھی تو عزیز ہے، اسی لیے گھنٹے والا کی مٹھائیوں کی طلب میں کمی آگئی۔ آج کے لوگ کیک، پیسٹری اور پزا کی طرف راغب ہوگئے ہیں اور اسی لیے گھنٹے والا اب داستان ماضی بن گیا۔‘‘

ماضی کے اس مٹھائی گھر کو بند کرنے کے فیصلے کے حوالے سے سشانت جین نے بتایا:’’یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا، لیکن مجبوری تھی، اس لیے کرنا پڑا۔ ہمارے چاہنے والے اور کرم فرما اس فیصلے کی مسلسل مخالفت کررہے ہیں۔ مجھے روزانہ بے شمار ای ملیز موصول ہورہی ہیں۔ لوگ پریشان ہیں۔

ان میں سے بعض نے تو شدید ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں: تم اسے بند کرنے والے کون ہوتے ہو؟ بہرحال یہ فیصلہ میرے لیے بہت مشکل تھا، ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے کوئی بڑی بھول ہوگئی ہے جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے، مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں نے جیسے اپنے آباو اجداد کی توہین کردی ہے اور ایک ایسی جگہ کو اجاڑ دیا ہے جسے ان بزرگوں نے بڑی محنت سے آباد کیا تھا۔ لیکن کیا کریں، ہمارے سامنے کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں بچا تھا۔‘‘

ماضی کی شان دار دکان ’’گھنٹے والا‘‘ میں آج ویرانی نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس کا فرش مٹی اور دھول سے اٹا ہوا ہے۔ ادھر ادھر گتے کے ڈبے پڑے ہیں۔ چند ایک ڈسپوزیبل پلیٹیں فرش پر بکھری رہتی ہیں۔ البتہ دکان کی دیوار پر ’’نو اسموکنگ‘‘ کا بورڈ اسی طرح لٹکا نظر آتا ہے جس طرح ماضی میں ہوتا تھا۔ یہ گھنٹے والا کا سخت اصول تھا کہ ان کی دکان میں سگریٹ نوشی پر پابندی تھی۔

آج ماضی کی ایک شان دار روایت ختم ہوگئی، لوگ چاہتے ہوئے بھی اس ورثے کو نہ بچاسکے جو آہستہ آہستہ دم توڑ گیا۔ اب گھنٹے والا کا نام صرف ماضی کے تذکروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

(بہ شکریہ بی بی سی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔