- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
خدارا خواتین کو بچائیں!
گزشتہ ایک ہفتے سے معلوم نہیں کیوں، مگر بار بار یہ اشعار ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان اشعار کی گردان ذہن میں اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ لفظ بن کر زبان پر جاری ہوجاتے ہیں اور میں انہیں زیر لب بڑھنے لگتا ہوں۔ وہ اشعار یہ ہیں،
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے
ہر تحریک کا کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے اور میرے ذہن میں ان اشعار کے بار بار آنے کی تحریک کا محرک دراصل مغرب میں ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ ہے جو خواتین میں جنسی بے راہ روی کے پھیلتے رجحان کے بارے میں ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد مجھے بابا اقبال ؒ اور اکبر الٰہ آبادی جیسی عظیم شخصیات بہت یاد آئیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے میں کچھ نئی صدی، جدید ٹیکنالوجی اورکسی بھی قوم کے معاشرتی اخلاقی زوال کے بارے میں کہنا چاہوں گا۔ امید ہے آپ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے۔
جدید دنیا کی 90 فیصد سے زائد جدت کا دارومدار اب کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اس سے جڑے نیٹ ورکس سے ہے۔ ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں اس کے غلط استعمال نے اسے ایک لعنت بھی بنا دیا ہے۔ کمپیوٹر کے بعد جدید اسمارٹ فونز کی آمد کے ساتھ ہی ٹی وی دیکھنے کا روایتی اہتمام و شوق گویا ہوا ہوگیا۔ وہ دن چلے گئے جب گھر بھر کے افراد اور بچے ایک ساتھ بیٹھ کر پی ٹی وی کے پروگرام اور ڈرامے دیکھا کر تے تھے۔ مخرب اخلاق اور حیا سوز فلموں کا صرف خال خال ہی تصور پایا جاتا تھا وہ بھی عموماََ بیمار اور عیاش طبیعت کے حاملین میں حیا سوز فلموں تک رسائی مشکل ترین امر تھا تاہم کیبلز اور ٹی وی چینلز، کمپیوٹر، سی ڈیز اور پھر یو ایس بی نے اچانک ایک انقلاب برپا کیا اور حیا سوز فلموں تک رسائی کی تمام حدود یکسر ختم ہوگئیں۔ پھر انٹرنیٹ کیفوں کا کاروبار بڑھا اور اسکے ذریعے تعمیری، علمی اور پیداواری کام کم اور ان حیا سوز فلموں سے تفریح کا منفی اور بیمار رجحان زیادہ تیزی سے پنپا جس کا زیادہ تر نشانہ مرد حضرات سمیت چھوٹی عمر کے بچے بھی بنے۔
قانون کی عدم موجودگی اور بعض گھرانوں میں بے جا آزادی کے رجحان سے نوجوانوں کی بڑی تعداد گمراہ ہوئی۔ اگر اس معاملے پر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محض گزشتہ 30 برسوں میں شرم و حیا پر پڑے ہمارے روایتی پردے بتدریج اُٹھتے چلے گئے۔ اِن ادوار میں کسی دور کی بے شرمی اور بے حیائی کی غیر معمولی باتیں اور اعمال باقاعدہ ایک عام رواج گئے۔ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے سلسلے میں میرا کئی بار نجی تعلیمی اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان میں وہ تعلیمی ادارے جہاں صرف پوش خاندانوں کے بچے زیر تعلیم ہیں جن کی اخلاقی حالت ناقابل بیان ہے، لیکن یہ حالت اُسی وقت محسوس کی جاسکتی ہے جب کوئی غیرت مند اور باحیا شخص ایسے ماحول کو محسوس کرنے کی کوشش کرے۔ کینٹین میں بیٹھی لڑکیوں کا اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھنے کا انداز اور اس پر ستم ان کا تنگ بالا و زیر جامہ لباس اس رجحان اور حقیقت کا واضح غماز ہے کہ خلوت میں ان کی رسائی زندگی کی ہر پوشیدہ باتوں اور رازوں تک ہے۔ خواہ وہ اچھے ہوں یا برے، جو نوے فیصد برے ہی ہیں۔
مخربِ اخلاق تفریح اور اعمال جیسے ان بُرے حقائق کا اہم ترین ذریعہ پہلے کمپیوٹر و انٹرنیٹ تھے اور اب اسمارٹ فونز ہیں جن کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں اور خاص طور پر اب لڑکیوں کے سارے حجاب کھل چکے ہیں۔ اکبر الہٰ آبادی اردو زبان کے ایک باکمال شاعر تھے۔ ان کی وجہ شہرت بالعموم ان کے طنز یہ اشعار ہیں۔ اکبر کا ایک مشہور قطعہ کچھ اس طرح ہے، جو مذکورہ بالا صورتحال کا بھرپور عکاس ہے۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
جیسا کہ اوپر اکبر الٰہ آبادی کا شعر برصغیر میں بے حجابی کی لہر پر طنزیہ اشعار پیش کرتا ہے اور ساتھ ساتھ آئندہ اس کے نتائج کو بھی واضح کرتا ہے بالکل اسی طرح عظیم شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال مغرب کی اس روش کو ایسے آفاقی اشعار میں پیش کرتے ہیں۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
علامہ اقبال ؒ کی عقابی نگاہوں نے اس حقیقت کی پیش گوئی گویا بہت پہلے کردی تھی کہ مغرب کا معاشرہ اخلاقی سطح پر انحطاط پذیری کا شکار ہے اور یہ کہ:
یہ قوم آپ ہی اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ان اشعار کی روشنی میں انسانی معاشروں میں اخلاقی زوال کا سچ آج جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اور زیادہ واضح ہے جس کا بین ثبوت مغرب میں ہونے والی ایک دل ہلا دینے والی تحقیق ہے۔ ایک وقت تھا کہ فحش فلموں کی لعنت کو صرف مردوں کی بیماری سمجھا جاتا تھا لیکن مغربی ممالک میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد یہ مکروہ اور ذلیل ترین علت خواتین میں بھی عام ہوگئی ہے اور خصوصاََ اعداد و شمار میں فحش بینی کی عادی خواتین کی بڑی تعداد نے سب کو حیران کردیا ہے۔ فحش فلموں کی دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ کے صارفین پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اسے استعمال کرنے والوں کی کل تعداد میں سے چوبیس فیصد خواتین ہیں، یعنی ہر چار میں سے ایک خاتون اس مشغلے میں مبتلا ہے اور خواتین صارفین کی اکثریت کی عمر پینتیس سال سے کم ہے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ہالی ووڈ کی جنسی بے راہ روی کے موضوع پر بنی فلم ’’ففٹی شیڈز آف گرے‘‘ جیسی فلموں اور جدید اسمارٹ فون جیسی ٹیکنالوجی نے فحش فلموں تک خواتین کی رسائی کو بے حد بڑھا دیا ہے۔
Approx. 50% of all Christian men and 20% of all Christian women r ADDICTED to pornography. #sexualaddiction #pornaddiction #thisisyourchurch
— Wayfare Counseling (@WayfareCounsel) July 4, 2015
انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والی خواتین کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ان کی اکثریت اس حیا سوز مواد کو اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے دیکھتی ہے۔ فحش بینوں کی کل تعداد میں 60 فیصد موبائل فون، 7 فیصد کمپیوٹر کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق خواتین صارفین کی فحش مواد دیکھنے کی شرح پیر کے روز سب سے زیادہ جب کہ ہفتے کے روز سب سے کم پائی گئی ہے۔ یورپی ممالک میں فحش فلموں کے سب سے زیادہ شائقین برطانیہ میں پائے گئے جب کہ فحش بینوں کی تعداد کے لحاظ سے کینیڈا اور امریکہ برطانیہ سے بھی آگے ہیں۔ فحش فلمیں ایک نشے کی صورت اختیار کرچکی ہیں اور اس نشے سے نجات کے لئے مدد فراہم کرنے والے ادارے Quit Porn Addiction کا کہنا ہے کہ ان کے مریضوں میں ایک تہائی خواتین بھی شامل ہیں۔
Okay guys #PornAddiction is real and has real negative effects. It's time we stood up together and put an end to this unhealthy drug!!
— Asfandyar Asad (@koolasasfand) July 26, 2015
مغربی تہذیب جس اخلاقی بگاڑ اور مادر پدر جنسی آزادی کے دور سے گزر رہی ہے وہ ایک دن میں اس مقام تک نہیں پہنچی اور نہ ایسا ہے کہ وہ فطری انسانی خوبیوں سے عاری ہوچکے ہیں کہ سب کچھ گنواتے گنواتے وہ شرم و حیا بھی گنوابیٹھے۔
قارئین! اگر آپ نے کالم پڑھ لیا ہے تو بحیثیت باپ، بھائی، شوہر یا وہ سرپرست جن کے ماتحت ان کی گھریلو یا رشتہ دار خواتین اور بچیاں ہیں، انہیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آپ جدید ٹیکنالوجی کو جنسی ہیجان خیز مواد سے لطف اندوز ہونے کے لئے تو استعمال نہیں کرتے۔ اس کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آپ نے اپنی بچیوں کو بے جا آزادی تو نہیں دے رکھی۔ کیا آپ کو خود پر اور اپنی تربیت پر اعتماد ہے کہ جو اسمارٹ فونز آپ نے اپنی بیٹیوں یا بیٹی کو دیا ہے اس کا منفی استعمال نہیں ہو گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔