انتخابی اصلاحات…مسئلے کا حل

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 1 اگست 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہو گئی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم تحریک انصاف کے اراکین کو قومی اسمبلی سے نکالنا چاہتی ہیں مگر وزیر اعظم مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس مسئلے پر برداشت اور نظام کو متحرک رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ قومی اسمبلی کی انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اپنی رپورٹ کو خاصی حد تک مکمل کر لیا ہے۔

دوسری طرف خارجہ امور، ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے آپریشن اور سیلاب کی صورتحال سے بھی نواز شریف انتظامیہ خاصی دبائو میں ہے۔ ایک متبادل انتظامیہ اخبارات کے صفحات اور ٹی وی اسکرین پر نظر آرہی ہے۔ یہ پراپیگڈا بھی جاری ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ کچھ ریٹائرڈ جنرلوں کے تیار کردہ روڈ میپ کے مطابق کیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سال 14 اگست سے شروع ہونے والی یہ تحریک تضادات کا شکار رہی۔ عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں کو یہ گمان تھا کہ  لاکھوں لوگ لاہور سے ان کے جلوس میں شامل ہوں گے اور خیبر پختونخوا سے آنے والے عوام کے ریلے اسلام آباد میں ایک تاریخی جلسہ کا ریکارڈ منظر پیش کریں گے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک کی قوت ان کے عزائم کو تقویت دے گی اور میاں نواز شریف عوام کے سمندر کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے یوں ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہو جائے گی ، 90 دن میں انتخابات کے بعد تحریک انصاف ملک پر راج کرے گی مگر انتخابی دھاندلی کے خلاف نعرے عوام کو متحرک نہ کر سکے۔

تحریک انصاف کی غیر سیاسی حکمت عملی کی بناء پر عمران خان کا دھرنا اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا مگر ان قوتوں کے مقاصد پورے ہو گئے جو شریف حکومت کی پالیسیوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے تھے مگر پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی کی قیادت کی بصیرت کی بناء پر عمران خان مذاکرات پر آمادہ ہو گئے، جوڈیشل کمیشن پر اتفاق رائے ہوا۔ اگر چہ دھرنے اپنے حتمی اہداف حاصل نہ کر سکے مگر انتخاب اور الیکشن کمیشن کے نظام میں موجود  خامیوں کی نشاندہی ہوئی اور اس نکتے پر رائے عامہ ہموار ہوئی کہ شفاف انتخابات  کے لیے شفاف انتخابی نظام کا قیام اشد ضروری ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کا اسمبلیوں میں اپنی سیٹوں پر واپس آنے کا فیصلہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے ایک بہتر فیصلہ تھا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اپنے ذاتی تحفظات کے باوجود تحریک انصاف کے اراکین کو قومی اسمبلی میں خوش آمدید کہا اور ان قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا تھا جو تصادم کی سیاست چاہتے ہیں۔

اب اگر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے استعفوں کو منظور کرنے کے بارے میں فیصلہ دیتی ہے تو یہ تحریک انصاف کی شکست نہیں ہو گی بلکہ عمران خان کی 14 اگست 2014ء کی اسمبلیوں کے خاتمے کی تحریک کو ایک بار پھر تقویت ملے گی۔ ملک میں ضمنی انتخابات کا میلہ لگے گا۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف ضرور حصہ لے گی۔ اسی طرح سیاسی الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گا اگر تحریک انصاف کے امیدوار ان انتخابات میں کامیاب ہوئے تو عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ 2013ء کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے اگر ان کے امیدوار ہار گئے تو پھر دھاندلی کی کہانی دہرائی جائے گی۔

اس صورتحال میں غیر سیاسی قوتیں متحریک ہوں گی اور مجموعی صورتحال میں پیپلز پارٹی کا موقف بالکل درست ہے کہ اب سب کچھ بھول کر اسمبلیوں میں کام کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس ساری صورتحال کی پیچیدگیوں کو محسوس کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں ایم کیو ایم اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کو تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے رکنیت ختم کرنے کے بارے میں قرارداد واپس لینے کی استدعا کی ہے مگر اصل مسئلہ انتخابی اصلاحات کا ہے۔

18 ویں ترمیم میں آزاد الیکشن کمیشن کے معاملے پر توجہ دی گئی۔ اسی طرح وفاق اور صوبوں میں عبوری نگراں حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار طے ہوا تھا چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کو الیکشن کمیشن کے اراکین نامزدگی کرنے کا طریقہ کار بھی طے ہوا تھا، ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے اختیارات یکساں رکھے گئے تھے مگر جب اس طریقہ کار پر عمل درآمد ہو ا تو نتائج حوصلہ افزاء نہ  تھے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم نے بھارت کے الیکشن کمیشن کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور کچھ اصلاحات کی تجویز پیش کی مگر چاروں اراکین ان تجاویز پر متفق نہیں ہوئے یوں فخر الدین جی ابراہیم کو مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا ۔ اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن چلانے کے نقصانات 2013ء کے انتخابات والے دن سامنے آئے جب الیکشن کمیشن کی بدنظمی ظاہر ہو گئی ۔

ریٹرننگ افسران  نے انتظامات پر توجہ نہیں دی۔ انتخابی امور کے ماہر فہیم الزماں کہتے ہیں کہ انتخاب والے دن بدنظمی کی وجہ ڈپٹی کمشنر کا ادارہ ختم ہونا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولنگ اسٹیشن کی سیکیورٹی عملے کی فراہمی اور انتخابی مواد کی بروقت فراہمی میں ڈپٹی کمشنر اور پولیس کا عملہ اہم کردار ادا کرتا تھا۔

امیدواروں پر ووٹوں کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر پابندی اور ووٹروں کے گھروں کے قریب پولنگ اسٹیشن بنانے کے عجیب و غریب نتائج سامنے آئے۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے دفتر وں میں بیٹھ کر انتخابی حلقوں کے نقشے کو دیکھتے ہوئے پولنگ اسٹیشن قائم کر دیے۔

ان افسران نے پولنگ اسٹیشن کی عمارتوں کا فزیکل سروے نہیں کیا یوں آبادی کے درمیان اسکولوں کی مخدوش عمارتوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ جب ایک پولنگ اسٹیشن پر ایک ساتھ ایک ہزار کے قریب مرد اور خواتین جمع ہو گئیں تو سیکیورٹی کے سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، ووٹروں کے انگوٹھے  لگانے کا معاملہ بھی خاصا گمبھیر رہا ۔

ملک کے مختلف علاقوں میں سیاہی کا معیار مختلف تھا پھر عملے کو ووٹر کے انگوٹھے پر درست طریقہ سے سیاہی لگانے کی تربیت نہیں دی گئی اور ووٹر ذہنی طور پر سیاہی کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھے یوں جب ان انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا کے کمپیوٹر نظام سے تصدیق کا مرحلہ آیا تو منفی رپورٹوں کی  بناء پر دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی۔ فارم 5 1 کا معاملہ بھی عملے کی تربیت نہ ہونے کی بناء پر پیدا ہوا۔ انتخابات میں بعض پولنگ اسٹیشن کے پریذائیڈنگ افسروں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے تعاون نہیں کیا۔ کراچی اور اندرون سندھ صورتحال خاصی خراب رہی ۔

یہ الزامات بھی لگے کہ انتخاب میں مسلم لیگ ن نے پولیس افسران پر خاصا دبائو ڈالا۔ نگراں حکومتوں کا تجربہ بھی بہت زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ وفاق میں وزیر اعظم پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوا۔  الیکشن کمیشن کے اراکین کے اکثریتی فیصلے کے تحت جسٹس کھوسو کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔

جسٹس کھوسو کی اتھارٹی کو بیوروکریسی نے قبول نہیں کیا۔ نگراں وزیر اعظم، وزیر اعظم ہائوس میں مہمانوں سے ملاقات اور ان کی باتیں سننے تک محدود رہے۔ سندھ میں انتخابات سے کچھ عرصے قبل ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی حمایتی بن گئی یوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے عبوری حکومت تشکیل دی جس نے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

بلوچستان میں رئیسانی حکومت انتخابات سے کچھ عرصے قبل تقریباً معطل ہو گئی تھی جب کہ نگراں حکومت بھی محض نمائشی ثابت ہوئی۔ نجم سیٹھی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اعتماد حاصل کر کے نگراں وزیر اعلیٰ بننے کا شوق پورا کیا مگر خود ان کا کہنا ہے کہ انتخاب کے قریب آتے ہی بیوروکریسی کا رخ رائے ونڈ کی طرف ہو گیا تھا۔ خیبرپختونخوا میں طالبان نے عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

تحریک انصاف جماعت اسلامی جمعیت علمائے اسلام نے آزادی سے ووٹروں سے رابطہ کیا۔ نگراں حکومت اس صورتحال میں محض نمائشی حکومت کا کردار ادا کر سکی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں الیکشن کمیشن کے نظام میں بہت سے ناموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

شفاف انتخابات کے لیے کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے انتخابی خامیوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کی ہیں۔ یہی وقت ہے کہ یونیورسٹیوں، پریس کلب، بار کونسلوں سیاسی جماعتوں کے فورمز اور میڈیا پر انتخابی اصلاحات پر باریک بینی سے بحث کی جائے۔  قومی اسمبلی کے اراکین اس بحث کی بنیاد پر ایسی جامع قانون سازی کریں کہ آیندہ ملک میں ہونے والے انتخابات ایک مثال بن جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔