صاف ستھرے کھانے کی تلاش

عبدالقادر حسن  ہفتہ 1 اگست 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

لاہور شہر کی مشہور و معروف زندہ دلی کا اعظم جزو اس شہر کی خوش خوراکی ہے لیکن معلوم نہیں اس خوش خوراکی اور گوناگوں خوراکوں کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ان دنوں ان پر آفت ٹوٹی ہوئی ہے اور یہ آفت ایک خاتون کے ذریعے ہے جس کا ذکر اب اخباروں میں عام ہو رہا ہے اور یہ سب پڑھ دیکھ کر اس شہر کے خوش خوراک پریشان ہیں کہ ان کی خوراک کے سامان میں اب ملاوٹ اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بازار کی بنی ہوئی کوئی چیز کھانے کھلانے کو خوف آتا ہے۔

اب تو مہمان بھی جھجھکتے ہیں اور ایسا مشکل ہو رہا ہے کہ اچانک کوئی مہمان آ گیا تو بھاگ کر بازار سے کھانا لے آئے۔ ہر محلے گلی اور روڈ کے قدم قدم پر ایسے ریستوران اور طعام خانے موجود ہیں جو زبان کے ذائقے کی مکمل تسکین کر دیتے ہیں اور ان کے پاس ہر قسم کی غذا اور چٹخارا موجود رہتا ہے یعنی ہر قسم اور ہر ذوق کے مہمان کو بھگتانے کا آسان ترین طریقہ۔ لیکن ہماری حکومت نے ایک ایسی خاتون کو کھانوں کے خلوص کی نگرانی پر لگا دیا ہے کہ وہ ہر کھانے کی اصل تک پہنچتی ہے کہ اس کا ذائقہ جو بھی ہے یہ تیار کسی حال میں ہوا ہے اس کو پکانے والا کون ہے اور جن برتنوں میں یہ پکا ہے وہ اتنے صاف ستھرے ہیں کہ ان میں پکا ہوا کھانا انسان کھا سکیں۔

برتن اپنی جگہ کھانے کا سامان کہاں رکھا جاتا ہے اور فرج فریزر وغیرہ صاف ہیں یا نہیں۔ اس خاتون کی باریک بینی پر شک گزرتا ہے کہ کل کلاں وہ کسی ریستوران وغیرہ کے آس پاس کی صفائی بھی نہ دیکھنے لگ جائے بلکہ یہ نہ دیکھے کہ جس محلے میں یہ ریستوران وغیرہ موجود ہیں اس کی صفائی کا کیا حال ہے اور پھر کسی طعام گاہ میں آنے والوں کی ذاتی صفائی کیسی ہے۔ بہر کیف یہ بات بہت ہی پھیل سکتی ہے لیکن فی الحال کھانے کے سامان کھانے کے برتن اور باورچی خانے کا معائنہ ہی کافی ہے۔

اس بے رحم خاتون نے اعلیٰ ترین کئی ستاروں والے ہوٹلوں کے ریستورانوں کو چیک کیا ہے جو قریب قریب سبھی صفائی کے ناقص معیار تک گرے ہوئے ہیں۔ ان کو بھاری جرمانے کیے گئے ہیں لیکن جرمانوں سے بڑھ کر ان کے نام اور ان کی گندگی کی تصویر بھی اخباروں میں چھپی ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولتی کیونکہ وہ انسان کی آنکھ نہیں ہوتی البتہ انسان کی بنائی ہوئی ضرور ہوتی ہے اور انسان اپنی تخلیق کا بہت احترام کرتے ہیں۔

دنیا کے ہر ملک میں جہاں انسان کی کوئی قدر ہوتی ہے وہاں خورونوش کا سامان ممکن حد تک خالص ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں سعودی عرب کے شاہی مہمان خانے میں مقیم تھا تو ایک دن رات کھانے پر لیٹ ہو گیا اور نصف رات کے بعد پہنچا۔ کھانے کے کمرے میں گیا وہاں کا اسٹاف اکثر پاکستانی تھا۔ میں نے کھانا مانگا تو معذرت کر دی گئی کہ ہر رات کو بارہ بجے تمام بچا ہوا کھانا تلف کر دیا جاتا ہے اب تو ٹوسٹ وغیرہ دے سکتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ سعودی عرب میں رات کے بارہ بجے کے بعد کسی ریستوران وغیرہ میں کھانا نہیں رکھا جاتا اور بچا ہوا کھانا ضایع کر دیا جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا بھی ہے سوائے پاکستان کے جہاں کھانا بڑے احترام کے ساتھ دوسرے دن کے لیے رکھ دیا جاتا ہے آخر فریج اور فریزر کس لیے ہیں۔

پاکستانیوں اور خصوصاً کھانوں کے لیے مشہور لاہوریوں کو کھانے کے آداب اور معیار سکھانے کے لیے لازم تھا کہ ان پر ایک سخت مزاج نگران متعین کر دیا جائے جو کر دیا گیا اور وہ جرات اور کامیابی کے ساتھ کام کر رہا ہے جس کا اندازہ آج کل ان نامور ہوٹلوں کی چیخ و پکار سے ہو رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کھانے کی گندگی کی تصویریں چھاپ کر ملک کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

لاہور میں نیکی کا یہ کام جس کسی نے شروع کیا ہے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ نہ صرف متعلقہ عملے کی حوصلہ افزائی کریں بلکہ اسے پھیلائیں بھی۔ پوش علاقوں سے نکل کر لاہور شہر میں داخل ہوں اور خوش خوراک لاہوریوں کو خالص خوراک سے متعارف کرائیں۔ ہماری کئی قومی جسمانی بیماریوں کا اصل سبب یہی گندی خوراک ہے اور آپ یقین کر لیں خالص خوراک لاہور میں دستیاب نہیں تھی اور اب بھی صرف چند جگہوں پر۔ اس خرابی کو ختم کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ کو خصوصی توجہ دینی ہو گی۔

کرپشن کے ہزار رنگ ہیں اور یہ گندی خوراک بھی کرپشن کا نتیجہ ہے۔ ان اونچے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں آتے جاتے عمر گزر گئی اور طول و طویل نشستیں ہوتی رہیں جن میں کھانا پینا بھی چلتا رہا مگر ایک تو یہ کھانا بس رسمی سا ہوتا ہے مثلاً چائے وغیرہ اصل خرابی پکے ہوئے کھانے میں ہوتی ہے۔

بہر کیف کھانوں کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے اور اس گندگی کا علاج بھی کوئی سائنس نہیں ہے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ صفائی کیسے کی جاتی ہے اس لیے ضرورت صرف حکومت کی دلچسپی کی ہے جو اپنے اختیارات کو استعمال کرے اور یہ اختیار صوبے بھر میں پھیلایا جائے یہ کوئی مشکل کام نہیں صرف خلوص نیت اور خالص کھانے کی ضرورت کے احساس کا سوال ہے۔ اگر میاں شہباز شریف یہ کام کر جائیں تو لاہوری اور پنجابی انھیں یاد رکھیں گے۔ ورنہ حکمران تو کئی آئے اور چلے گئے ؎

یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے

اور اب خبر ملی ہے کہ وزیراعلیٰ نے اس خاتون کو تحفہ دیا ہے اور اس کی زبردست قدر افزائی کی ہے۔ لگتا ہے صاف کھانے ملنے کا دور شروع ہونے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔