انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور عمران خان

اصغر عبداللہ  ہفتہ 1 اگست 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

سپریم کورٹ کے تین رکنی انکوائری کمیش کی رپورٹ یہ ہے کہ 11مئی 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ کہ انتخابی عملہ اور ریٹرننگ افسروں پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ بدانتظامی کی نشاندہی البتہ کئی گئی ہے، لیکن یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے اور نہ رپورٹ کی رو سے اس کی ذمے داری انتخابی عملہ اور ریٹرننگ افسروں پر عائد کی جا سکتی ہے۔

افتخار محمد چوہدری نے بھی بحیثیت حاضر سروس چیف جسٹس کے، ریٹرننگ افسروں کے انتخابی کردار کی تعریف کی تھی اور شفاف الیکشن کرانے پر ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انکوائری کمیشن کے روبرو، اگرچہ سوائے ن لیگ کے، تمام جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کی، مگر پیش پیش پی ٹی آئی تھی جس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حقیقتاً وہی ن لیگ کے خلاف فریق ہے۔

اسلام آباد دھرنا کی طرح یہاں بھی اس کا رحجان سولو فلائٹ کی طرف تھا۔ انکوائری کمیشن میں پیش ہونے والی دیگر پارٹیوں سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا؛ جیسے مہم تو سر ہو چکی، اب اس کے کریڈٹ میں ان کو حصہ دار بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

پھر یہ صرف عمران خان تھے جو انکوائری کمیشن کے قیام کا کریڈٹ لیتے، اسکو خراج تحسین پیش کرتے، اس کی غیر جانبداری پر مہر تصدیق ثبت کرتے، اور اپنے کارکنوں کو یہ یقین دلاتے پائے گئے کہ انکوائری کمیشن کے ’ انقلابی فیصلہ‘ کے نتیجہ میں2015میں ’ازسرنو الیکشن‘ ہوں گے۔

حالانکہ معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی سمجھ سکتا تھا کہ یہ انکوائری کمیشن جو حکومت کی مرضی سے وجود پذیر ہوا ہے، حکومت کے خاتمہ کا موجب نہیں بن سکتا۔  نواز شریف حکومت کو اگر کوئی خطرہ تھا ، تو اس وقت تھا، جب پچھلے سال عمران اور طاہر القادری کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کا گھیراو کر  رکھا تھا۔ یہ موقع وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے کھو چکے تھے۔

عمران خان  نے اپنے دھرنا سے جو کچھ حاصل کیا، انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے اس پر سیلابی پانی پھیر دیا ہے اور نواز شریف جتنے طاقتور ہو کر اب ابھرے ہیں، اتنے وہ ۱۱ مئی کے الیکشن کے فوراً بعد بھی نہیں تھے۔ نواز شریف یقیناً عمران خان پر مسکرا رہے ہوں گے، جن کی بدولت ان کے عوامی مینڈیٹ پر عدالتی مہر بھی لگ گئی ہے۔

11 مئی کے الیکشن پر اس کالم نگار سمیت بہت سے لوگوں کو جو تحفظات ہیں، انکوائری کمیشن رپورٹ بھی ان کا ازالہ نہیں کر سکی؛ لیکن انکوائری کمیشن رپورٹ پر عمران خان نے جو تنقید کی ہے، ان کے پاس بہر طور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، کیونکہ وہ کمیشن کو ثالث تسلیم کر چکے تھے۔

دوران سماعت ان کی طرف سے کمیشن کی غیر جانبداری  پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی کہ جب کمیشن کو انکوائری کی غرض سے ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی سے مدد لینے کا اختیار ہے، تو وہ اسے بروئے کار نہیں لا رہا۔ کمیشن کے روبرو عمران خان کی طرف سے سابق چیف جسٹس افتخار  چوہدری کی ذات کوئی الزام عائد کیا گیا، نہ ان کے انتخابی کردار پر کوئی سوال اٹھایا گیا۔

سابق نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی ، جنکی نگرانی میں ۱۱ مئی کے الیکشن ہوئے تھے ، ان کو عمران خان نے یہ کہہ کے خود کلین چٹ دیدی کہ 35 پنکچروں کا ان کا  الزام محض سیاسی بیان تھا۔ حقیقت یہ ہے، عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ بطور پارٹی لیڈر، ان میں پیش آمدہ صورتحال کو سمجھنے کی صلاحیت اس درجہ کی نہیں ہے، جس درجہ کی ہونی چاہیے۔ مثلاً، الیکشن کے فوراً بعد وہ اور ان کی پارٹی کے ارکان، دھاندلی کے خلاف بغیر کسی احتجاج کے، اسمبلیوں میں حلف اٹھانے پہنچ گئے، جیسے ان کی یہ نشستیں کہیں بھاگی جا رہی ہیں۔

پورا ایک سال اس تذبذب میں مبتلا رہے کہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کریں یا نہ کریں۔ بہت تاخیر سے حکومت کے خلاف نکلے لیکن یہاں بھی دھرنے کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ون آن ون ملاقات میں کچھ حاصل کیے بغیر آ گئے۔ اور بغیر حکومت سے کوئی مطالبہ منوائے دھرنا بھی ختم کر دیا۔ اسمبلیوں سے استعفے دیے اور اعلان کیا کہ ’دھاندلی کی پیداوار اسمبلی‘ میں اب قدم نہیں رکھیں گے، مگر اس پر بھی قائم نہ رہ سکے۔

حکومت کے ساتھ جس معاہدے کے تحت یہ انکوائری کمیشن وجود میں آیا تھا، اس میں واضح طور پر یہ درج ہے کہ انکوائری کمیشن کا فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں پی ٹی آئی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات سے دستبردار ہو جائے گی۔ اس معاہدہ پر عمران خان کی طرف سے شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے دستخط ثبت ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انکوائری کمیشن کے  فیصلہ کے بعد پارٹی کے اندر عمران خان سے باز پرس کی جاتی، مگر کوئی شیخ رشید کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، کوئی جہانگیر ترین کو۔ کسی میں اتنی جرات نہیں کہ عمران خان کی باز پرس کر سکے، یا ان پر سوال اٹھا سکے۔

حالانکہ پچھلے دو سال میں پی ٹی آئی کے تمام بنیادی فیصلے عمران خان نے اپنی مرضی سے کیے۔ یہ کہنا کہ فلاں نے ان کو غلط صلاح دی اہم نہیں۔ پارٹی صلاح کار صلاح ضرور دیتے ہیں، مگر فیصلہ پارٹی لیڈر ہی کرتا ہے اور اسی پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔ پھر، عمران خان تو ایسے پارٹی لیڈر ہیں، جنہوں نے اپنی پارٹی کے منتخب صدر جاوید ہاشمی کو دھرنے کے دوران کھڑے کھڑے پارٹی سے فارغ کر دیا تھا۔

پی ٹی آئی ان کے مکمل کنٹرول میں ہے، جس طرح باقی پارٹیاں، اپنے لیڈروں کے کنٹرول میں ہیں۔ جو سیاسی خانہ بدوش، پی پی پی اور ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں، اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، وہ عمران خان کے سامنے نظر اٹھا کر بات نہیں کر سکتے، کجا یہ کہ ان کی باز پرس کر سکیں۔ لہذا، لگتا یہی ہے کہ اگلے چند روز میں جب انکوائری رپورٹ کی گرد بیٹھ جائے گی تو پی ٹی آئی کے اندر بھی ’سب اچھا‘ ہو جائے گا۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے جلوسوں کا مرکز پنجاب تھا۔ پنجاب ن لیگ کا گڑھ ہے اور فی الحقیقت پنجاب میں اپنی عددی طاقت کے بل بوتے پر ہی اس کے پاس وفاقی حکومت بھی ہے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن نے ن لیگ کو دھاندلی کے الزامات سے بری الذمہ قرار دیدیا ہے تو  پنجاب میں اس کے بھاری مینڈیٹ پر عدالتی مہر بھی لگ گئی ہے اور اس کی سیاسی اور انتخابی طاقت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی، پی پی پی اور ق لیگ نے الگ الگ الیکشن لڑا، تو ن لیگ پنجاب کو بلدیاتی سطح پر بھی تسخیر کر لے گی۔

قومی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر اتنی طاقت سے جب ن لیگ 2018کے الیکشن میں اترے گی تو پی ٹی آئی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ پچھلے دو سال میں پی ٹی آئی کی سولو فلائٹ کی سیاست نے پنجاب میں ن لیگ کے مقابلہ میں اپوزیش کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ عمران خان، پی پی پی اور ق لیگ سے پارٹی کی سطح پر بات کرنے کو تیار نہیں، لیکن انھی پارٹیوں کے ان عناصر کو، جن پر کرپشن سمیت ہر طرح کے الزامات ہیں، ان کو ان کے خاندانوں سمیت گلے لگا رہے ہیں۔

لندن پلٹ محمد سرور 11مئی کے الیکشن سے پہلے جو کام ن لیگ کے لیے کر رہے تھے، وہ اب پی ٹی آئی کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ معمولی نکتہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مقامی سطح پرجو پڑھا لکھا نوجوان طبقہ انھی مقامی خاندانوں سے تنگ آ کے پی ٹی آئی کی طرف دیکھنے لگا تھا، جب اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے اس کو انھی خاندانوں کی انتخابی مہم چلانے،   اور انھی کو ووٹ دینے کے لیے کہا جائے گا تو ان کے دل پر کیا گزرے گی اور وہ کیونکر اس کے لیے راضی ہو گا۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں پی ٹی آئی، لاہور اور راولپنڈی کے ان علاقوں سے بھی ہار گئی، جہاں ۱۱ مئی کے الیکشن میں اس نے کامیابی حاصل کی تھی۔ گویا پی ٹی آئی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں شکست کے بعد انکوائری کمیشن کا یہ فیصلہ عمران خان کی سیاست کے لیے دوسرا بڑا جھٹکا ہے جو معمولی جھٹکا نہیں، بقول شاعر،

میں نے کہا کہ ’’بزم ناز چاہیے غیر سے، تہی‘‘

سن کے، ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ ’’یوں؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔