پاکستانی سرکاری افسرکی کرپشن کے خلاف ’’موبائل ‘‘جنگ

سید عاصم محمود  اتوار 2 اگست 2015
ایک ڈی سی او کی ولولہ انگیز جدوجہد،انھوں نے ضلع میں رشوت خوری ختم کرنے کے لیے بذریعہ موبائل کالز شہریوں کو اپنے ساتھ ملایا اور یوں دیگر سرکاری افسروں کو بھی درست راستہ دکھلا دیا ۔  فوٹو : فائل

ایک ڈی سی او کی ولولہ انگیز جدوجہد،انھوں نے ضلع میں رشوت خوری ختم کرنے کے لیے بذریعہ موبائل کالز شہریوں کو اپنے ساتھ ملایا اور یوں دیگر سرکاری افسروں کو بھی درست راستہ دکھلا دیا ۔ فوٹو : فائل

زمانہ قدیم میں شاہی حکومتوں کو زمین پر لگنے والے ٹیکسوں سے زیادہ تر آمدن ہوتی تھی۔ اس زمانے میں بیشتر لوگوں کا ذریعہ آمدنی کھیتی باڑی تھالہٰذا حکومت وقت کو سرکاری آمدنی بھی اسی ذریعہ معاش سے ملتی۔ بعض کسان اجناس کی صورت مال گزاری (ٹیکس) ادا کرتے یا پھر سکہ رائج الوقت کام آتا۔ برصغیر پاک وہند میں زمینوں پر لگنے والے سرکاری ٹیکسوں کا باقاعدہ نظام عظیم مسلمان حکمران شیرشاہ سوری کے دور حکومت میں سامنے آیا۔

دلچسپ بات یہ کہ زمین کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ۔ پہلے زمین کھیت بنانے یا گھر بسانے میں کام آتی تھی، اب وہاں کارخانے، ہاؤسنگ سوسائٹیاں، شاپنگ پلازہ اور دفاتر بنتے ہیں۔ اسی لیے زمینوں کی خرید وفروخت کے شعبے میں فراڈ خاصا زیادہ ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ ’’قبضہ گروپ‘‘ سامنے آ چکے۔

صوبائی حکومتوں کے محکمہ مال (ریونیو ڈیپارٹمنٹ) ہر قسم کی اراضی یا زمینوں کی خرید وفروخت کا حساب رکھتے ہیں۔ سبھی سرکاری محکموں کی طرح اس محکمے کے متعلق بھی یہ شکایات عام ہیں کہ وہاں کرپشن موجود ہے۔ خاص طور پر عوام پٹواری اور تحصیل دار کو اس ضمن میں خاصا معتوب کرتے ہیں۔

پنجاب میں ’’پٹواری کلچر‘‘ ختم کرنے کے لیے ہی صوبائی حکومت نے ایک نظام ’’کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم‘‘ متعارف کرایا جو صوبے میں رفتہ رفتہ رائج ہو رہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے خصوصاً زمینوں کی خریدوفروخت، انتقال اراضی وغیرہ میں پٹواری کا کردار خاصا محدود ہو جائے گا۔ مدعا یہی ہے کہ پٹواری کی کرپشن ختم ہو سکے۔

درج بالا نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سرکاری اہل کار زمین خریدنے یا فروخت کرنے والے کا موبائل نمبر بھی نوٹ کرتے ہیں۔ بعدازاں شہری کو فون کر کے پوچھا جاتا ہے کہ زمین کی خرید یا فروخت کے معاملے میں کسی نے اس سے رشوت تو طلب نہیں کی؟ یقینا یہ سرکاری محکموں میں پھیلی کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کا نادر طریق کار ہے… یہ کہ بذریعہ موبائل فون (یا ٹیلی فون ) شہریو ں سے خود رابطہ کر کے پوچھا جائے کہ کوئی رشوت خور اہل کار انہیں تنگ تو نہیں کر رہا؟ سرکاری کرپشن کے خلاف جنگ میں موبائل فون کو ہتھیار بنانے والا طریق کار اصطلاح میں ’’جھنگ ماڈل‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ کیونکر معرض وجود میں آیا، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔

بدعنوانوں سے مجادلہ
یہ مارچ 2008ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں زبیر بھٹی ضلع جنگ میں بحیثیت ڈی سی او (ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن افسر) فرائض انجام دے رہے تھے۔ ایک دن غصّے میں بھرا ایک سرکاری افسر ان کے دفتر میں داخل ہوا۔ سرکاری افسر نے زبیر بھٹی کو بتایا ’’میں نے انتقال اراضی کو پٹوارخانے میں رجسٹر کرانا تھا۔

یہ آپ کے دفتر کے قریب ہی واقع ہے مگر پٹواری مجھ سے رشوت مانگ رہا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں سرکاری افسر ہوں مگر اس کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی اور وہ بدستور پیسے طلب کر رہا ہے۔‘‘

زبیر بھٹی نے پھر سرکاری افسر کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے جب افسر پٹواری کو رشوت دے رہا تھا ،تو زبیر بھٹی اچانک وہاں پہنچ گئے۔ یوں پٹواری رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ زبیر صاحب نے فی الفور اس کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کرا دی۔

اس واقعے نے زبیر بھٹی پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ سوچنے لگے، سرکاری افسر اثرورسوخ رکھتا ہے چنانچہ اس نے میری مدد سے اپنا کام کرا لیا ۔مگر میرے ضلع کے 33 لاکھ باشندوں میں سے 99 فیصد لوگ ایسا رسوخ نہیں رکھتے ۔لہٰذا سرکاری ملازمین ان کی غربت و بے بسی سے ناجائز فائدہ اٹھا کر رشوت لیتے اور بدعنوانی کرتے ہیں۔

یاد رہے،ماضی والے ڈپٹی کمشنر کے مقابلے میں ڈی سی او کے اختیارات کم ہو چکے لیکن وہ اب بھی ضلعی انتظامیہ کا سربراہ ہے۔ یہ اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضلع میں مختلف محکموں کے سرکاری افسروں میں باہمی اشتراک یقینی بنائے، امن و امان کی صورت حال برقرار رکھے، ٹیکس جمع کرے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے جاری ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرائے۔

زبیر بھٹی جانتے تھے کہ بعض سرکاری معاملات مثلاً لائسنس لینے، زمین کی خرید وفروخت وغیرہ کے معاملے میں سرکاری اہل کار عوام سے رشوت لیتے ہیں ۔مگر ضلعی انتظامیہ 20 ہزار اہل کاروں پر مشتمل تھی اور ان کے پاس اتنا وقت تھا نہ توانائی کہ وہ ہر ملازم پر نظر رکھ سکیں۔

بچپن سے زبیر صاحب نے والدین اور بزرگوں سے یہی سنا تھا کہ ایمان داری بہترین طرززندگی ہے اور یہ کہ انسان کو رزق حلال کھانا چاہیے۔ چنانچہ وہ سرکاری افسر بنے تو اب تک حرام کا ایک لقمہ بھی ان کے منہ میں نہیں گیا تھا۔ مگر وہ سوچ کر کڑھتے رہتے کہ کئی بے ضمیر سرکاری اہل کار دھڑلے سے بدعنوانی کرتے،رشوت لیتے اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آخر اس غیراخلاقی، ظالمانہ اور عوام دشمن روش کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

سوچتے سوچتے دماغ میں خیال آیا، کرپشن کے خلاف لڑائی میں کیوں نہ خود عوام سے مدد لی جائے۔ اس وقت بھی عوام کسی سرکاری افسر کے خلاف شکایت کر سکتے تھے۔ مگر یہ عمل بڑا سست رفتار اور پیچیدہ تھا۔ فیصلہ ہوتے ہوتے کئی ماہ لگ جاتے۔ اس دوران ملزم اہلکاروں کی پوسٹنگ بھی دوسرے اضلاع میں ہو جاتی۔ لہٰذا نتیجہ عام طور پہ ڈھاک کے پات ہی نکلتا۔

بہرحال زبیر بھٹی کی سوچ کا دائرہ کار وسیع ہوا۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے سرکاری اہلکاروں کی روزمرہ سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے؟ اس ضمن میں زبیر صاحب نے ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے ضلعی محکمہ مال(ریونیو ڈیپارٹمنٹ) کے اہلکاروں کو حکم دیا کہ جو لوگ معاملات اراضی کے سلسلے میں پٹوار خانوں میں آئیں، ان کے موبائل فون نمبر نوٹ کر لیے جائیں اور ان نمبروں کی فہرست انہیں روزانہ بھجوائی جائے۔جلد منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔

اب عملی سرگرمی شروع ہوئی۔ بھٹی صاحب فہرست میں سے کوئی نمبر نکالتے اور سائل کو فون کرتے۔ وہ پھر مختلف سوال پوچھتے۔ مثلاً یہ کہ سرکاری ملازمین کا رویّہ کیسا تھا اور اسے اپنا کام کراتے ہوئے کس قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ یہ تجربہ زبیر بھٹی کو کئی چشم کشا باتوں سے آشنا کرگیا۔

مثال کے طور پر ڈی سی او کو معلوم ہوا، عوام کی اکثریت سرکاری کاموں سے متعلق فیسوں اور ٹیکسوں کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔ چناں چہ وہ پٹواری کے پاس جاتے یا کسی اور سرکاری دفتر، وہاں بیٹھے ایجنٹ انہیں خوب الو بناتے۔ آگاہی نہ ہونے اور ناخواندگی کے باعث عام لوگ ایجنٹوں سے مدد لینے پر مجبور ہیں۔یہ ایجنٹ فیسوں اور ٹیکسوں کی رقم بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ سائل جو رقم دیتا، اس کا کچھ حصہ سرکاری ملازمین کی جیب میں جاتا تاکہ وہ جلد کام کرسکیں۔ باقی رقم ایجنٹ ڈکار جاتے۔

اس قسم کی لوٹ مار ختم کرانے کے لیے زبیر بھٹی نے پہلے قدم کے طور پر پٹوار خانے میں پرچی نظام متعارف کرایا۔ پٹوار خانے کے ایک کلرک کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ پرچی پہ ہر اس رقم کا اندراج کرے جو بطور فیس یا ٹیکس سائل سے لی جائے مثلاً رجسٹری کی فیس، ڈیڈ (deed) لکھنے کو ملی رقم وغیرہ۔ تمام رسیدوں کی نقول ڈی سی او کو بھیج دی جاتیں۔ظہیر بھٹی رسیدوں کا بغور جائزہ لے کر دیکھتے کہ پٹوار خانے کے ملازمین نے کہیں ڈنڈی تو نہیں ماری۔ وہ رسید پہ درج سائلوں کے فون نمبر پر ان سے رابطہ بھی کرتے تاکہ دی گئی رقوم کی تصدیق کرسکیں۔

رفتہ رفتہ شہریوں سے فون نمبر لینے کا طریق کار جھنگ کے تمام سرکاری دفاتر تک پھیلا دیا گیا۔ اس سلسلے میں ظہیر بھٹی نے باقاعدہ ایک فارم طبع کرایا۔ انہوں نے کسانوں کے پاس جانے والے ملازمین کو ہدایت دی کہ ان سے بھی فون نمبر لیے جائیں۔ بھٹی صاحب کسانوں سے بھی رابطہ کرکے سرکاری محکموں کی بابت ان کی آرا جاننا چاہتے تھے۔

رفتہ رفتہ اس اچھوتی جدت کی افادیت نمایاں ہونے لگی۔ بھٹی صاحب کو احساس ہوا، شہریوں سے براہ راست رابطہ کرنے کے باعث عوام میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ وہ اور دیگر اعلیٰ سرکاری افسر دیانت دار، بااعتماد اور مددگار ہیں۔شروع میں بھٹی صاحب روزانہ فون کالیں کرنے پر بیس منٹ صرف کرتے۔ شہریوں سے جو شکایات ملتیں، وہ نوٹ کرلی جاتیں۔ پھر انہوں نے کالوں کا دورانیہ بڑھا دیا۔ بھٹی صاحب کو محسوس ہوا، ناراض شہریوں تک خود پہنچ کر حکومت اپنا مرتبہ و اعتماد بڑھا سکتی ہے۔

ضلع جھنگ میں کسی شہری کو ڈی سی او کی فون کال آتی، تو وہ قدرتاً خوشی محسوس کرتا۔بعدازاں وہ پورے علاقے میں یہ بات مشہور کردیتا۔ آہستہ آہستہ عوام کو احساس ہوا کہ اعلیٰ سرکاری افسر نظام حکومت میں تبدیلی لانا اور بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ چناں چہ وہ علی الاعلان زبیر بھٹی اور ان کے ساتھی افسران کی حمایت کرنے لگے۔ عوام کی حمایت پاکر زبیر بھٹی کو بہت تقویت ملی۔ اب کرپٹ افسروں کے خلاف جہاد کرنا اور قدم اٹھانا آسان ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں ’’ عوام کا اعتماد حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی اور طاقت ہے۔‘‘

شہریوں سے ہوتے ہواتے زبیر بھٹی کی ندرت صحافیوں تک بھی جاپہنچی۔ چناں چہ قومی میڈیا نے سرکاری دفاتر میں پھیلی کرپشن کے خلاف بھٹی صاحب کی جنگ کو خوب سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

اسی دوران میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوچکے تھے۔ وہ صوبائی حکومت میں بہتری لانے کا عزم لیے آئے تھے۔ جب بذریعہ میڈیا انہیں ’’جھنگ ماڈل‘‘ کے بارے

میں معلوم ہوا، تو انہیں یہ کاوش پسند آئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ شہریوں سے براہ راست رابطے کا یہ طریق کار صوبے کے بقیہ اضلاع میں بھی شروع کیا جائے۔ وزیراعلیٰ کو امید تھی کہ اس منصوبے کی مدد سے پنجاب کے سرکاری دفاتر میں کرپشن کا زہر ختم ہوسکے گا۔ نیز شہریوں کو باآسانی سرکاری خدمات تک رسائی مل سکے گی۔

چیلنجوں کا سامنا
وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کے 36 اضلاع میں جھنگ ماڈل رائج کرنا چاہتے تھے۔ مگر جولائی 2008ء میں منصوبے کے خالق زبیر بھٹی نے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ نجی شعبے میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کے متمنی تھے۔ یوں منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ویسے بھی بیشتر ڈی سی او نوجوان بھٹی صاحب جیسا جوش و جذبہ نہیںرکھتے تھے۔ ان کے نزدیک شہریوں سے براہ راست رابطہ وقت اور پیسے کا ضیاع تھا۔ مزید براں زیادہ تر ڈی سی او ایک ضلع میں بمشکل سال ہی گزارتے۔ چناں چہ جھنگ ماڈل کی طویل المعیاد منصوبہ بندی کرنا اور عملی اقدامات اٹھانا کٹھن مرحلہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ دیگر چیلنج بھی سامنے آئے۔

مثال کے طور پر ایک ضلع میں بااثر شخصیات مثلاً جاگیرداروں، صنعت کاروں وغیرہ کی خواہش ہوتی ہے کہ سرکاری عہدوں پر ان کے من پسند بندے تعینات کیے جائیں۔ چناں چہ وہ ڈی سی او پر زور دیتے ہیں کہ فلاں عہدے پر فلاں شخص کا تقرر کیا جائے۔ یوں سرکاری عہدوں پر پسندیدہ افراد بٹھانے کی خاطر اکثر ایک ضلع میں متحارب گروپوں کے مابین ٹھن جاتی ہے۔

یہ متصادم گروہ پھر ڈی سی او کا قرب حاصل کرنے کی خاطر جائز و ناجائز سرگرمیاں اپناتے ہیں۔ اگر وہ کسی ایک گروہ کا من پسند آدمی عہدے پر بٹھا دے، تو مخالف گروپ اس کے خلاف مہم چلا دیتا ہے۔ وہ آدمی ایمان دار ہو، تب بھی اسے کرپٹ ثابت کرنے کے لیے مخالفانہ مہم چلائی جاتی ہے۔ ایسے معاندانہ ماحول میں یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا سرکاری افسر دیانت دار ہے اور کون نہیں۔

بعض اوقات اصول پسند اور بااعتماد ڈی سی او بااثر شخصیات کے دباؤ میں نہیں آتے۔چناں چہ وہ لوگ ڈی سی او کے خلاف ہی پروپیگنڈا کرنے لگتے ہیں۔ اسے بددیانت، سست اور لاپروا ثابت کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں بھی یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا شہری سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ!

مزید براں جھنگ ماڈل کو پورے صوبہ پنجاب پر لاگو کرنے کی خاطر عملہ، دفاتر، آلات، اور بجٹ درکار تھا۔ تبھی حکومت روزانہ ہزارہا شہریوں سے بذریعہ موبائل فون رابطہ کرسکتی تھی۔ نیز ضروری تھا کہ پروگرام سے منسلک سرکاری ملازمین کو خصوصی تربیت دی جاتی۔ تبھی وہ بااعتماد ہوکر شہریوں سے بامقصد فیڈبیک حاصل کرسکتے ہیں۔

شہریوں کے نکتہ نظر سے اہم ترین بات یہ تھی کہ شکایات کے بعد کرپٹ سرکاری ملازمین کے خلاف انکوائری شروع ہوجائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ مرحلہ بھی بے داغ اور صاف و شفاف نہیں۔ معتوب سرکاری ملازمین ’’تگڑی‘‘ سفارشوں کے ذریعے بھر پور سعی کرتے ہیں کہ ان کے خلاف چھان بین رک جائے۔ بعض ’’دے دلا‘‘ کر معاملہ ختم کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض رشوت خور سرکاری ملازموں کے خلاف عملی قدم اٹھانا بھی مسئلہ بن چکا۔

گویا حکومتِ وقت پورے صوبے میں جھنگ ماڈل اپناتی، تو اسے قابل عمل بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وجہ یہی کہ گزشتہ چھ عشروں میں رشوت لینے دینے کی روایات جڑ پکڑ چکیں۔ خاص طور پر سرکاری ملازم رشوت لینا اپنا ’’حق‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ کہیں ’’چائے پانی‘‘ کہلاتی ہے،تو کہیں ’’لال یا ہرا نوٹ‘‘! لہٰذا بدعنوانی کی روایات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بہت قوت درکار تھی۔

جیسا کہ بتایا گیا، زبیر بھٹی رخصت ہوئے،تو جھنگ ماڈل منصوبہ معلق ہوگیا۔ تاہم عوام اور صحافیوں نے اس رشوت مکاؤ منصوبے کو زندہ رکھا۔ خود زبیر بھٹی بھی اسے بہتر بنانے کے لیے سوچ بچار کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے منصوبے کا خاکہ مشہور انگریزی میگزین، دی اکانومسٹ کو بھجوایا۔ رسالے نے ایک مضمون میں اس کی تعریف و توصیف کی۔ یوں زبیر بھٹی کے حوصلے بلند ہوگئے۔

ستمبر 2009ء میں میاں شہباز شریف اور بھٹی صاحب کی ملاقات ہوئی۔ موضوع گفتگو جھنگ ماڈل ہی رہا۔ تب بھٹی صاحب مشہور این جی او، ایشیا فاؤنڈیشن کے لیے کام کررہے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی درخواست پر تنظیم نے دو ماہ تک زبیربھٹی کی خدمات صوبائی حکومت کے حوالے کردیں تاکہ جھنگ ماڈل کو عملی شکل دی جاسکے۔

چناں چہ اپریل 2010ء میں زبیر بھٹی وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹریٹ آپہنچے۔ انہوں نے پھر سرکاری افسر اور اپنے دوست، نبیل اعوان کی مدد سے ’’سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام‘‘ (Citizen Feedback Monitoring Program) کی بنیاد رکھی۔ نبیل اعوان بھی جھنگ ماڈل کے بڑے حمایتی تھے۔ تاہم انہوں نے بھٹی صاحب کو بتایا ’’وزیراعلیٰ بھر پور انداز میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ یہ پروگرام پورے صوبے میں شروع کیا جائے۔‘‘ زبیر بھٹی نے یہ چیلنج قبول کرلیا۔

یہ واضح رہے، جھنگ ماڈل منصوبہ شہریوں کی شکایات رجسٹر کرنے کا پروگرام نہیں، اس سلسلے میں الیکٹرونک منصوبے پہلے ہی کام کررہے تھے۔ اسے شروع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری خدمات استعمال کرنے والے شہریوں سے مثبت یا منفی فیڈ بیک لیا جائے۔شہریوں کے تجزیے، مشوروں، تجاویز وغیرہ کی روشنی میں سرکاری اداروں اور محکموں میں رائج خامیوں پر قابو پاکر حکومتی انتظام کو بہتر بنانا(گڈ گورننس کرنا) ممکن ہوجاتا۔ اس ضمن میں زبیر بھٹی کہتے ہیں:

’’جب ایک ریستوران اپنے گاہکوں سے فیڈ بیک لے سکتا ہے، تو حکومت بھی اپنے شہریوں سے مدد مانگ سکتی ہے تاکہ اپنی خدمات سنوار سکے۔‘‘

وزیراعلیٰ پنجاب کی پشت پناہی کے باعث بھٹی صاحب کو بہت مدد ملی۔ وزیراعلیٰ نے پوری صوبائی بیوروکریسی پر واضح کردیا کہ وہ زبیر بھٹی سے بھرپور تعاون کریں۔ انہوں نے مانیٹرنگ پروگرام کا تجرباتی یا پائلٹ منصوبہ تیار کیا اور 2010ء کے وسط میں اسے چھ اضلاع …گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں شروع کردیا ۔

ابتداً ان چھ اضلاع سے شہریوں کے موبائل نمبروں کی فہرستیں چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں بیٹھے زبیر بھٹی کو بھجوائی گئیں۔ وہ شہریوں کو فون کرکے اہم معلومات جمع کرتے اور انہیں اضلاع کے ڈی سی اوز کو بھجوا دیتے۔ معلومات کی بنیاد پر انہیں پھر یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کرپٹ سرکاری ملازمین کے خلاف عملی قدم اٹھاسکیں۔

بعدازاں ڈی سی اوز اوران کے عملے کو زبیر بھٹی کی ریکارڈ شدہ کالیں سنوائی گئیں۔ مدعا یہ تھا کہ انہیں منصوبے کا طریق کار سمجھ آسکے۔ چناں چہ اسے سمجھنے کے بعد ڈی سی اوز یا ان کا عملہ بھی شہریوں کو فون کرنے لگا۔ اس انوکھے تجربے نے دونوں فریقین پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ پروگرام میں شامل ڈی سی او وقاص علی محمود کہتے ہیں:’’شہری یہ جان کر حیرت زدہ رہ جاتے کہ ضلع کا سرکاری چیف انہیں فون کررہا ہے۔ انہیں بات سمجھانے میں کچھ وقت لگ جاتا۔‘‘

اسی دوران نبیل اعوان ضلع گوجرانوالہ کے ڈی سی او لگ گئے۔ وہ پہلے سرکاری افسر ہیں جنہوں نے منصوبے کے تحت عملی قدم اٹھایا۔ انہیں کئی شہریوں نے بتایا کہ پٹوار خانے میں فلاں فلاں ملازم کرپٹ ہیں۔ چناں چہ نبیل اعوان نے نہ صرف ان کے خلاف انکوائری شروع کرائی بلکہ وہ مجرم ثابت ہوئے تو انہیں گرفتار کرا کر جیل بھی بھجوا دیا۔

کرپٹ سرکاری ملازمین کی گرفتاری کے واقعے کو میڈیا نے نمایاں کوریج دی۔ یوں شہریوں کو مانیٹرنگ پروگرام کے متعلق آگاہی ملی اور انہیں معلوم ہوا کہ یہ کیونکر کام کرتا ہے۔مگر رفتہ رفتہ یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ شہریوں سے ازخود ٹیلی فونک رابطہ کرنا خاصا وقت طلب کام ہے اور اسے انجام دینے کے لیے افرادی قوت بھی درکار ہے۔اس مسئلے سے نجات پانے کی خاطر وزیراعلیٰ پنجاب نے جون 2010ء میں منصوبہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سپرد کر دیا۔مدعا یہ تھا کہ بورڈ ایسا کمپیوٹر ماڈل ایجاد کرے جو کمپیوٹروں میں نہ صرف شہریوں کے موبائل نمبر بھر سکے بلکہ ڈی سی او آن لائن فارم پر ان کا فیڈ بیک بھی پُر کر لیں۔

کامیابی کی سمت سفر
یہ ایک پیچیدہ کمپیوٹر ماڈل تھا جسے ایجاد کرنے کے لیے خاصی رقم درکار تھی۔اس موقع پر زبیر بھٹی دوبارہ پنجاب حکومت کی مدد کرنے کو آ پہنچے ۔عالمی بینک نے ایک خصوصی فنڈ ( innovation fund)قائم کر رکھا ہے۔یہ دنیا بھر میں ایسے تجرباتی سرکاری منصوبوںکو امدادی رقوم دیتا ہے جن کی مدد سے حکومت کا انتظام بہتر ہو سکے۔زبیر بھٹی نے ساتھیوں کے تعاون سے سیٹزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام کا پورا منصوبہ دستاویزی روپ میں عالمی بینک کو بھجوا دیا۔وہاں ماہرین کو منصوبہ پسند آیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی خاطر ایک لاکھ ڈالر (ایک کروڑ روپے)کی امداد دی گئی۔

یہ معقول رقم پا کر حکومت پنجاب نے ایک کمپیوٹر سائنس گریجویٹ،عاصم فیاض کی خدمات حاصل کر لیں۔عاصم نے ٹیکنالوجی بورڈ کے ماہر،فصیح مہتہ کے تعاون سے ایسا سافٹ وئیر تخلیق کیاجو شہریوں کے موبائلوں میں میسج بھجوا کر ان سے فیڈ بیک طلب کرتا۔جوابات محفوظ کرنے کے لیے ایک خصوصی ڈیش بورڈ بنایا گیا۔کال کے مقابلے میں یہ تکنیکی نظام سستا اور موثر تھا، چناں چہ اسے اپنا لیا گیا۔

جولائی2011ء تک صوبے کے مذید پندرہ اضلاع منصوبے میں شامل ہو گئے۔روزانہ ہزارہا پیغامات شہریوں کو بھیجے جاتے۔وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے فیصلے کرنے میں شہریوں کے جوابات سے بھی مدد لینے لگے۔یوں سرکاری محکموں میں بدعنوانی پہ قابو پانا اور اچھا انتظام کرنا ممکن ہو گیا۔اور گڈ گورننس دکھانے پر قدرتاً میاں شہباز شریف کی شہرت و عزت میں اضافہ ہوا۔

اپریل 2014ء میں عالمی بینک نے سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام کی افادیت و جامعیت دیکھنے کے لیے صوبہ پنجاب میں ایک سروے کرایا۔اس میں بیس ہزار شہریوں نے اظہار خیال کیا۔بیشتر عوام نے بتایا:’’اس منصوبے کے ذریعے سرکاری ملازمین کے رویّے میں مثبت تبدیلی آئی،کرپشن کم ہو گئی اور سرکاری اداروں میں خدمات جلد میسّر آنے لگیں۔‘‘اب پنجاب حکومت اس پروگرام کو مزید بہتر بنا رہی ہے۔

یہ منصوبہ پنجاب میں کامیابی سے جاری ہے۔یہ عیاں کرتا ہے کہ خصوصاً موبائل کی جدید ایجاد سے مدد لے کر ایک نوجوان سرکاری افسر نے ایسا پروگرام تیار کیا جس کے ذریعے اب حکمران اور عوام مل کر حکومت کا انتظام و انصرام عمدہ بنا رہے ہیں۔یہ منصوبہ سندھ ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی آب وتاب سے شروع ہونا چاہیے تاکہ وہاں مقیم ہم وطن بھی گڈ گورننس کے قیام میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔حکومت کا عمدہ انتظام وجود میں آنے سے ملکی ترقی و خوشحالی پانے میں زبردست مدد ملے گی۔

پٹواری کا ماضی و حال
شیرشاہ سوری پہلے ہندوستانی بادشاہ ہیں جنھوں نے زرعی ٹیکسوں کا باقاعدہ نظام بنایا۔ اس نظام میں پٹواری اہم ترین فرد تھا۔پٹواری پانچ چھ دیہات میں شاہی دربار کا نمائندہ ہوتا۔ وہ یہ حساب رکھتا کہ کس زمین دار کے پاس کتنی زمین ہے اور وہاں کون کون سی فصلیں اگتی ہیں۔ ہر فصل کی کٹائی پر مخصوص لگان (ٹیکس) وصول کیا جاتا۔ شیرشاہ سوری عادل بادشاہ تھے، انہوں نے پٹواریوں کو حکم دیا تھا کہ ٹیکس لگاتے ہوئے انصاف سے کام لیا جائے۔

پٹواری نظام اتنا موثر ثابت ہوا کہ ہندوستان کے نئے حکمران، اکبراعظم نے بھی اسے برقرار رکھا۔ راجا ٹوڈرمل اکبر کا وزیر خزانہ تھا۔ اس نے پٹواری نظام کو مزید بہتر بنایا اور دائرہ کار بھی وسیع کردیا۔جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہوں نے بھی یہ نظام نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مذید پھیلا دیا۔ انگریزوں نے ملک کو اضلاع اور تحصیلوں میں تقسیم کردیا۔ ہر ضلع میں کسانوں سے ٹیکس وصول کرنے والے نظام کا سربراہ ’’ڈپٹی کلکٹر‘‘ کو مقرر کیا۔ جبکہ انسپکٹر    یہ ٹیکس وصول کرتے۔

کچھ عرصے بعد ہر ضلع میں امن و امان بحال رکھنے کی ذمے داری بھی ڈپٹی کلکٹر کو سونپ دی گئی۔ اس حیثیت سے کام کرتے ہوئے وہ ’’ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ‘‘ کہلاتا۔ مختلف علاقوں میں تعینات مجسٹریٹ اس کے ماتحت ہوتے۔ یہی عہدہ بعد میں ’’ڈپٹی کمشنر‘‘ کہلانے لگا جو ایک ضلع کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔

انگریز حکومت نے زرعی ٹیکسوں کا نظام بہتر بنانے کی خاطر ہر تحصیل میں اس کے ناظم مقرر کیے جو ’’تحصیل دار‘‘ کہلائے۔ تحصیل میں موجود ہر پٹواری اس کا ماتحت بنا دیا گیا۔حکومت موثر انداز میں کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر ضلع اور تحصیل میں بڑے زمینداروں کو بھی ساتھ ملالیا۔ ان زمین داروں کو انگریز مراعات اور انعامات دیتے تاکہ وہ ان کے وفادار رہیں۔ ہر ضلع میں بڑے زمین داروں کے مابین ’’ذیلدار‘‘ اور ’’نمبردار‘‘ مقرر کیے گئے۔ یہی انگریز حکومت کی طرف سے مختلف انتظامی و عوامی امور انجام دیتے۔ یہ انگریزوں اور عوام کے درمیان پل کا کام بھی دیتے تھے۔

لیکن ان تمام سرکاری و غیر سرکاری عہدے داروں میں پٹواری سب سے متحرک اور بااثر ثابت ہوا۔ وجہ یہ کہ وہ خصوصاً دیہات اور قصبات میں انگریز بیورو کریسی کا جاسوس بن گیا۔ پٹواری ہی انہیں بتاتا کہ فلاں زمین دار کتنا وفادار، دولت مند یا انگریز مخالف ہے۔ مزید براں وہ دیہاتیوں کی ضرورتیں، مانگیں اور شکایات بھی انگریز انتظامیہ تک پہنچانے لگا۔ ان تمام ذمے داریوں نے پٹواری کو دیہات و قصبات میں اہم شخصیت بنا دیا۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں، پچاس ساٹھ سال قبل دیہات اور قصبوں میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوتے تھے۔ پٹواریوں نے اس عام پھیلی جہالت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ وہ بااثر زمین داروں کی شراکت سے زمینوں کے ریکارڈ میں گھپلے کرنے لگے۔ غریب و مسکین کسانوں کی زمین انجانے میں ان سے ہتھیا کر زمین داروں کے نام کردی جاتیں۔ جلد ہی انتقال اراضی یا فرد (زمین کی ملکیت کا ثبوت) جاری کرنے کے لیے پٹواری رشوت طلب کرنے لگا۔

قیام پاکستان کے بعد خصوصاً دیہات اور قصبات میں حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے اللّے تللوں نے بھی پٹواری کی اہمیت بڑھادی۔ ہوا یہ کہ جب بھی حکمران یا سرکاری افسر سیروتفریح کرنے یا شکار کھیلنے کسی جگہ جاتے، تو وہاں کا پٹواری ہی ان کے قیام و طعام کا بندوبست کرتا۔ اخراجات کی رقم پوری کرنے کی خاطر وہ ناجائز ذرائع بھی اختیار کرلیتا۔ تاہم اس چلن نے پٹواری کی اہمیت مزید بڑھادی۔

مثال کے طور پر نواب آف کالا باغ پنجاب کے دبنگ گورنر گزرے ہیں۔ موصوف کی اجازت کے بغیر ان کے بیٹے گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن نواب آف کالا باغ کے علاقے کا پٹواری جب چاہے گورنر ہاؤس جاسکتا تھا۔ اسی طرح وزیراعظم محمد خان جونیجو کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ انہیں بھی اپنے گاؤں کے پٹواری کو رشوت دینا پڑی۔

حالیہ بیس تیس سال کے دوران ہر جگہ زمینوں کی قیمتیں بڑھیں، تو اس منافع بخش کاروبار میں ’’قبضہ مافیا‘‘ نے جنم لیا۔ ان قبضہ گیروں نے پٹواریوں اور تحصیل داروں کی مدد سے ہزارہا ایکڑ پر پھیلی سرکاری زمینوں …مثلاً سکولوں، پارکوں، کالجوں کے لیے مختص زمین کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر اسے چھوٹے ٹکروں کی صورت بیچ کر خوب منافع کمایا۔ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں ٹکروں کی شکل میں بیچنے کا مکروہ دھندا ’’چائنا کٹنگ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ دھندا پٹے دار (پٹواری) اور مختیار کار (تحصیل دار) کی مدد ہی سے پھلا پھولا۔

2012ء وہ تاریخی سال ہے جب پٹواری نظام پر پہلی کاری ضرب لگی۔ تب سپریم کورٹ پاکستان نے تمام صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ زمینوں کا سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ اس کام کی تکمیل کے بعد پٹواری نظام ختم ہوجائے گا۔زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے میں حکومت پنجاب بازی لے گئی۔ صوبے میں تقریباً سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوچکا۔ لہٰذا اب فرد صرف آدھ ایک گھنٹے میں مقررہ فیس دے کر بن جاتی ہے۔ پہلے پٹواری اسے ہفتوں لٹکائے رکھتا تھا۔پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا اور سندھ میں بھی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام شروع ہوچکا۔ بلوچستان میں ابھی اس کا آغاز نہیں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔