- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم شہباز شریف کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- شیخ رشید کے بلو رانی والے الفاظ ایف آئی آر میں کہاں ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
- بورڈ کا قابلِ ستائش اقدام؛ بےسہارا و یتیم بچوں کو میچ دیکھانے کی دعوت
- امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرمناک قرار دیدیا
- پاکستان کی مکئی کی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ
- ایلیٹ فورس کا ہیڈ کانسٹیبل گرفتار، پونے دو کلو چرس برآمد
- لیجنڈز کرکٹ لیگ فکسنگ اسکینڈل کی زد میں آگئی
- انجرڈ رضوان قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہوسکے
- آئی پی ایل، چھوٹی باؤنڈریز نے ریکارڈز کا انبار لگا دیئے
- اسٹاک ایکسچینج؛ ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور
- شاداب کو ٹیم کے اسٹرائیک ریٹ کی فکر ستانے لگی
- لکی مروت؛ شادی کی تقریب میں فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق
- اٹلی: آدھی رات کو آئسکریم کھانے پر پابندی کا بِل پیش
- ملک بھر میں مکمل پنک مون کا نظارہ
- چیمپئیز ٹرافی 2025؛ بھارتی میڈیا پاکستان مخالف مخالف مہم چلانے میں سرگرم
معافی
بارش کے قطرے بڑی تیزی کے ساتھ جیل کے احاطے میں لگے شہتوت کے گھنے درخت کے پتوں سے پھسل رہے تھے اور چہار سو مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ گرمیوں کی بارش بھری ایک اور رات اپنے جوبن پر تھی۔ ساون کی بارش ہمیشہ ان سنگ میلوں پر سے وقت کی گرد اتار دیتی ہے، جنہیں ہم عبور کر آئے ہوں۔ مگر دوبارہ نظر ڈالنے کی ہمت نہ ہو۔
بارش پورے زور و شور سے برس رہی تھی اور ہر طرف ایک جلترنگ کا عالم تھا۔ محبت کی پھوار میں بھیگنے والے بھی شاید کسی ایسی ہی کیفیت سے آشنا ہوتے ہوںگے۔ انھیں بھی ہر طرف سے ایک مدھر موسیقی کی آواز سنائی دیتی ہوگی۔ جو روح کی سرشاری کا سبب ہے۔ مگر کبھی اچانک محبت کی یہ برسات رک جائے تو احساس محرومی کی گھٹن اور حبس انسان کو زندہ درگور کردیتی ہے۔ تم بھی تو میرا سب کچھ ہو رستہ، منزل سب کچھ ہو، پھر تم نے میرا سب کچھ چھین کر مجھے وقت کے صحرا میں تنہا کیوں چھوڑ دیا؟
میں نے تمہارا ساتھ کب مانگا تھا؟؟ میں تو تمہیں جانتا بھی نہیں تھا۔ تب بھی نہیں جب پہلی بار میں نے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک طباق کی دکان میں چوری کی تھی۔ کیا میرا قصور محض اتنا تھا کہ میں نے کھانے سے پہلے بسم ﷲ پڑھ لی تھی اور جب چوری میرا پیشہ بن گئی تو راتوں کو جاگنا میرا مقدر بنا۔ مگر کیا تہجد کی نماز محض اس لئے پڑھ لینا کہ مجھے جاگنا جو ہوتا تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ تم ایک ریا کار کی عبادت کو دیکھو؟ جب کہ تمہیں پتہ تھا کہ یہ سجدے نہ تمہارے لئے نہ اس دنیا کہ لئے نہ میری اپنی ذات کے لئے تھے، یہ تو فقط سجدے تھے اپنے اندر کے بت پرست کو تسکین دینے کے لئے۔ جب کبھی شہر میں سختی زیادہ ہوتی تو نوبت فاقوں تک آجاتی۔ میں تو محض اپنے دل کی تسلی کے لئے روزہ کا ڈھونگ رچاتا۔ مگر تم کو تو میرے خشک ہونٹ بن کہے سب کچھ بتا دیتے تھے۔
جب کبھی میرے پاس چوری کا بہت سا مال اکھٹا ہوتا تو میں محض اپنا رعب رکھنے کی خاطر اپنے پڑوسی کی مدد کردیا کرتا تھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میرا پڑوسی ہر بار مجھ سے امداد لے کر تمہیں آکر بتا دیتا تھا۔ یہ زکوٰۃ تو ہر گز نہیں تھی اور میں نے تمہیں دکھانے کے لئے تو یہ کام نہیں کیا تھا تم جانتے ہو۔ مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ کیسے حج کے سفر سے بہت سا پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔ مگر مجھے کیا خبر تھی کہ تم مجھے وہاں بھی دیکھ رہے ہو۔ کچھ لوگ حرم میں خدا سے زیادہ اپنے پیسوں اور پاسپورٹوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور میں ان کو لوٹنے کی فکر میں، اسے میرا حج تو قرار نہیں دیا جاسکتا نا؟
مگر مجھے اب عجب سی گھٹن کا احساس ہونے لگا تھا۔ میری ذات میں کچھ ادھورا پن تھا، اس دنیا میں میری جذباتی وابستگی شاید تم سے اس لئے تھی کہ تم ہر وقت میرے ساتھ تھے مگر تمہارے سوا تو دنیا میں کسی کو میری پروا نہیں تھی۔ محبت سے محرومی کا یہ احساس اس قدر قوی تھا کہ میری لئے اپنے نئے گھر میں بیٹھنا محال ہوگیا اور پھر وہ رات کتنی عجیب تھی جب میں اپنے نام نہاد حج کے بعد پہلی بار آدھی رات کو بغیر چوری کے ارادے سے نکلا۔ عرب کا سونا میرے لئے کافی منافع بخش ثابت ہوا تھا۔ ایک تاریک سڑک پر مجھے کچھ سائے اور چیخوں کی آواز سنائی دی اور جب میں نے اس لڑکی کو غنڈوں سے بچانے کے لئے اپنا ہتھیار استعمال کیا تو مجھے اپنے سامنے ایک غنڈے کی لاش دکھائی دی۔ پہلی بار میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ تم وہاں موجود ہو تاکہ میرا نیکی کا یہ کام دیکھ سکو۔ مگر لگتا ہے تم مجھ سے ناراض ہوگئے شاید، فائرنگ کی آواز سن کر ایک پولیس موبائل پہنچ گئی اور میں قتل کے مقدمے میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ میں تمام مقدمے میں تمہیں ڈھونڈتا رہا مگر ناکام رہا۔ شاید تم نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ مجھے موت کی سزا ہوئی اور اب میں پھانسی کے پھندے کے سامنے کھڑا ہوں اور میرے دل میں ایک یہی آخری خواہش ہے کہ تم مجھے معافی دیدو، ایک آخری بار مجھے معاف کردو، بس ایک بار۔۔۔۔
چلو کلمہ پڑھو۔ جلاد کی کرخت آواز نے اسے چونکا دیا اور وہ سوچ کی وادی سے نکل آیا۔ اوہ ہاں کلمہ ۔۔۔ اس نے جلدی سے کلمہ پڑھا اور پھر جوں ہی پھندے کہ نزدیک آیا یکایک تیورا کر نیچے گر پڑا۔ جلاد بھاگ کر اس کی طرف بڑھا۔ عین اسی وقت مقتول کے ورثاء پھانسی گھاٹ میں داخل ہوئے اور ڈاکٹر جو پھانسی کے بعد اس کی موت کی تصدیق کے لئے مقتول کے ورثاء کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا تھا۔ اونچی آواز میں کہنے لگا۔ مقتول کے ورثاء نے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔ پھر اسے نیچے گرے دیکھ کر تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور اس کے دل کی خاموش دھڑکن سننے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر ڈاکٹر غمزدہ لہجے میں کہنے لگا۔
’’ شاید ﷲ نے بھی اسے معاف کر دیا ہے‘‘۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔