نیناں بڑے دھوکے باز

سید بابر علی  اتوار 2 اگست 2015
دل کی بات آنکھوں کے ذریعے کیسے عیاں ہوجاتی ہے؟ دل چسپ سائنسی حقائق ۔  فوٹو : فائل

دل کی بات آنکھوں کے ذریعے کیسے عیاں ہوجاتی ہے؟ دل چسپ سائنسی حقائق ۔ فوٹو : فائل

آنکھیں محبت کا استعارہ بھی ہیں تو یہی آنکھیں بے وفائی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ آنکھوں کے راستے دل میں اُترنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ایک طرف یہ حسن کو جلا بخشتی ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خوب صورتی آنکھ کے مرہونِ منت ہی ہے۔ یہ ہمیں خوب صوت رنگوں سے بھرپور دنیا دکھاتی ہے۔

نیلے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتا چاند ، قوس قزح کے رنگوں میں نہاتا سورج یہ سب آنکھ کے ہی مرہون منت ہیں۔ آنکھیں انسانی جسم کا ایک ایسا حصہ ہیںجن کا ذکر طب سے زیادہ شعر و ادب کی کتابوںمیں ملتا ہے۔ یہی آنکھیں بن کہے بہت کچھ کہہ جاتی ہیں، یہی آنکھیں ہمیں سب سے زیادہ دھوکا دیتی ہیں۔ ایک طرف صحرا میں چمکتے پانی کی جھلک دکھاتی ہیں، تو دوسری جانب نخلستان کو صحرا کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔

یہی آنکھیں ہمیں کسی انسان کو ہوا میں معلق دیکھ حیرت و استعجاب سے دانتوں تلے انگلیاں چبانے پر مجبور کردیتی ہیں تو دوسری طرف یہی آنکھیں وہ سب دیکھنے پر مجبور کرتی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یہی آنکھیں ہمارے دماغ کو دھوکا دے کر فریب نظر پر یقین کرنے تُلی رہتی ہیں۔ آنکھوں کی فریب نظری اور راز افشاء کرنے کی بابت سائنس کیا کہتی ہے؟ زیر مضمون میں اس حوالے سے سائنسی حقائق کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اگر ہم کسی سے سچ سننا چاہتے ہیں تو عموماً ہمارا سوال یہی ہوتا ہے کہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دو، یہی طریقہ ایک محبوب اقرار محبت سننے کے لیے اختیار کرتا ہے اور یہی طریقہ ایک پولیس اہل کار اقرار جُرم سننے کے لیے، اگر آپ کسی کے سچ اور جھوٹ کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو مخاطب کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا حقیقت جاننے کا سب سے بہتر طریقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آنکھوں کو روح کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ جدید تحقیق نے بھی اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ آنکھیں نہ صرف حقیقت کو آشکار کرتی ہیں، بل کہ چیزوں کو یاد رکھنے اور فیصلہ کرنے کی قوت پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔

ہماری آنکھیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ حرکات شعوری ہوتی ہیں۔ کچھ لاشعوری ۔ مثال کے طور پر پڑھتے وقت ہماری آنکھوں کی حرکت زیادہ تیز ہوجاتی ہے، اس کا سبب ایک لفظ سے دوسرے لفظ کی طرف آنکھ کے ڈھیلے کی حرکت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ہم کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ چلتے وقت ہماری انکھیں غیرشعوری طور پر حرکت کرتی ہیں۔ آنکھوں کی ان تمام حرکات کا تعلق دماغ کے سوچنے سے ہوتا ہے۔

حال ہی میں ایک سائنسی جریدے’پی ایل او ایس کمپیوٹیشنل‘ میں شایع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا آنکھوں کی حرکات سے گہرا تعلق ہے۔ کسی فیصلے میں تذبذب کے شکار فرد میں ہیجان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اُس کی آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ آنکھ میں ہونے والی اس تبدیلی سے یہ راز بھی منکشف ہو سکتا ہے کہ فیصلہ ساز کیا کہنے والا ہے۔

اس مطالعے کے سربراہ اور یونیورسٹی آف زیوریخ کے پروفیسر ٹوبیاز لوئٹشر کا کہنا ہے کہ آنکھوں میں دیکھ کر اس بات کی پیش گوئی کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اُس فرد (جس کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں) کے دماغ میں کون سا عدد موجود ہے۔ اس با ت کی جانچ کے لیے پروفیسر ٹوبیاز اور اُن کے ساتھیوں نے 12رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی۔ ٹیم میں شامل افراد کو ایک سے چالیس نمبر پر مشتمل فہرست دکھا کر اُن کی آنکھوں کی حرکات کی جانچ کی گئی۔

ان تمام افراد کی آنکھوں کی سمت اور پتلیوں کا پھیلاؤ اس بات کی بالکل درست پیش گوئی کر رہا تھا کہ وہ کون سا عدد کہنے والے ہیں۔ ہر رضاکار نے بڑا عدد بتانے سے پہلے اوپر اور سیدھی طرف دیکھا، جب کہ چھوٹے عدد بتانے والوں نے نظریں نیچی کرکے الٹی طرف دیکھا۔

محققین کے مطابق کسی مخصوص عدد کے بارے میں سوچنا آنکھوں کی سمت میں تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ اسی نوعیت کے ایک اور مطالعے میں محققین نے24 طالب علموں کو ایک کمرے میں بٹھا کر انہیں کمپیوٹر اسکرین کے ایک کونے پر ظاہر ہونے والی مختلف اشیاء کا احتیاط سے تجزیہ کرنے کا کہا۔ اس کے بعد انہیں دکھائی گئی اشیاء کے متعلق ایک بیان سنایا گیا، مثال کے طور پر ’کار کا رخ الٹی طرف تھا‘ اور اس جملے کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں فوراً جواب مانگا گیا۔

تحقیق میں شامل کچھ طلبا کو اپنی آنکھوں کو آزادانہ حرکت دینے کی اجازت دی گئی، جب کہ کچھ کو کہا گیا کہ وہ کمپیوٹر اسکرین کے وسط یا کونے پر جہاں سے اشیا ظاہر ہورہی تھی، ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہیں۔ محققین نے دیکھا کہ وہ طلبا جنہیں آنکھوں کو آزادانہ حرکت دینے کی اجازت دی گئی تھی ان کا رد عمل اُن طلبا کی نسبت زیادہ اچھا تھا جنہیں ایک ہی سمت دیکھنے کا کہا گیا تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ آنکھوں کی حرکات چیزوں کو یاد رکھنے اور اُن سے متعلق معلومات یاد دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، کیوں کہ آنکھوں کی حرکات سے ہمیں اُس ماحول میں موجود چیزوں اور معلومات کی اِن کوڈنگ (معلومات کو خفیہ کوڈنگ، الفاظ، علامات وغیرہ میں منتقل کرنا)کے درمیان تعلق کی بدولت متعلقہ اشیاء کو یاد رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔

اس مطالعے کے سربراہ اور لُونڈ یونیورسٹی کے ماہرنفسیات راجر جانسن کا اس بابت کہنا ہے کہ آنکھوں کی یہ حرکات لاشعوری بھی ہوسکتی ہیں،’’جب لوگ ایسے ماحول کو دیکھتے ہیں جہاں وہ پہلے جا چکے ہوں تو اُن کی آنکھیں اکثر اُن تمام معلومات کا نقشہ کھینچ دیتی ہیں جنہیں وہ پہلے دیکھ چکے ہوں‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ آنکھوں کی حرکات کو آپ متعلقہ فرد کے فیصلے کی جانچ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں یا اُن کے اخلاقی فیصلوں پر اثر انداز ہوکر اُن کا استحصال کر سکتے ہیں۔

اس بات کی جانچ کے لیے محققین کی جانب سے مطالعے میں شریک افراد سے کچھ غیراخلاقی سوالات پوچھے گئے۔ مثال کے طور پر؛’کیا قتل جیسے اقدام کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟‘ اور پھر کمپیوٹر اسکرین پر اُس کے متبادل جوابات ظاہر کیے گئے، جیسے کہ ’ بعض اوقات درست، نہیں کبھی نہیں‘۔ کچھ دیر کے لیے ان جوابات کو شُرکا کے سامنے ظاہر کرنے کے بعد فوراً ہٹا دیا گیا۔ شُرکا کی آنکھوں کی حرکات کو مانیٹر کرتے ہوئے ریسرچر نے دیکھا کہ تمام افراد کے جوابات ان آپشنز پر ہی مشتمل تھے۔

اس مطالعے میں شامل محقق اور یونیورسٹی کالج لندن کے نیورو سائنٹسٹ ڈینیئل رچرڈ سن کا کہنا ہے،’ہم نے انہیں کوئی اضافی معلومات نہیں دیں اور انہیں لاشعوری طور پر ان دو آپشن تک  محدود کردیا۔ ہم نے اُن کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسکرین پر دو جوابات دِکھا کر اُن کے دماغ پر قابو پایا اور اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ رچرڈ کا کہنا ہے کہ بہت سے کام یاب سیلز مین اپنی اس بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے گاہک کو زیادہ اچھے طریقے سے قائل کرتے ہیں۔

’ہمارے خیال میں اس طرح کے لوگ اچھی گفت گو کا فن جانتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ فیصلہ سازی کے عمل کا مشاہدہ بھی ہم سے اچھا کر سکتے ہوں۔ ایک اچھا سیلزمین اُس خاص لمحے کا پتا چلا سکتا ہے جب آپ کسی چیز کو منتخب کرنے جا رہے ہوں اور اُسی لمحے وہ آپ کو قیمت میں رعایت کی پیش کش یا اپنا لہجہ تبدیل کرلیتا ہے۔‘ دوسری طرف اسمارٹ موبائل فونز اور دیگر دستی آلات میں آئی ٹریکنگ ایپلی کیشن کی موجودگی نے بھی لوگوں کے فیصلہ کرنے کے طریقۂ کار میں بدلاؤ کے امکانات میں اضافہ کردیا ہے۔

اگر آپ آئن لائن شاپنگ کر تے ہوئے کسی پروڈکٹ کو دیکھ رہے ہوں تو فوراً ہی اس ویب سائٹ کی جانب سے آپ کو فری شپنگ (مفت میں گھر پہنچانے) کی پیش کش کردی جائے تو صحیح وقت پر اچھی پیش کش آپ کو اُس پروڈکٹ کی خریداری پر مجبور کردیتی ہے۔ آنکھوں کی حرکات دماغ کے افعال پر اثرانداز ہوکر نہ صرف آپ کی یادداشت اور فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے، بل کہ یہ آپ کے عقائد، خواہشات اور خیالات کو بھی دوسروں پر افشاء کر سکتی ہے۔ یہ معلومات ہمیں اپنے دماغی افعال کو بہتر بنانے کا راستہ مہیا کرتی ہیں، لیکن دوسری طرف یہ ہمیں غیرمحفوظ بھی کردیتی ہیں کیوں کہ لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے فیصلوں میں ردوبدل کر سکتے ہیں۔

رچرڈ سن کے مطابق ’آنکھیں ہمارے خیالات تک پہنچنے کا راستہ ہیں، اور ہم میں سے کوئی بھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ ہمارے خیالات کسی اور پر ظاہر ہوں۔‘ اسمارٹ فونز میں استعمال ہونے والی آئی ٹریکنگ ایپلی کیشنز خود کو مددگار ٹیکنالوجی کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ ان ایپلی کیشن کی مدد سے آپ کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ فون کے کن فنکشنز (افعال) کی آپ کو ضرورت ہے اور کن کی نہیں، لیکن اگر انہیں پورا دن استعمال کیا جائے تو پھر یہ آپ کی دیگر چیزوں کو بھی ٹریک کرنے میں استعمال ہوسکتی ہیں۔ یہ آپ کی زیادہ سے زیادہ معلومات اور خیالات کو دوسروں تک منتقل کرسکتی ہیں۔

٭ہماری آنکھیں کس طرح ہمیںدھوکا دیتی ہیں؟
فریب نظر کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاریخ میں ہر ذہین دماغ میں یہ سوال کُلبلاتا رہا ہے کہ آخر کیوں ہماری آنکھیں سادہ سی ڈرائنگ، الوژن کے ہاتھوں آسانی سے بے وقوف بن جاتی ہیں۔

اس کا ذکر یونان کی قدیم تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ 350 قبل مسیح کے مشہوریونانی فلسفی ارسطو کا اس بارے میں کہنا ہے ’ ہم اپنے فہم (سینس) پر بھروسا کرسکتے ہیں، لیکن اسے بہ آسانی بے وقوف بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘ اگر ہم ایک آبشار کو دیکھتے ہوئے اپنی نظروں کا رخ چٹانوں کی طرف کرلیں تو ہمیں ایسا لگے گا کہ پہاڑ اور چٹانیں آبشار کی مخالف سمت میں حرکت کررہی ہیں۔ آنکھوں کا دماغ کو دھوکا دینے والے اس تاثر کو اب ہم ’آبشار کے فریب نظر‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

اس کی سائنسی توجیح اس طرح پیش کی جاسکتی ہے کہ جب ہم پانی کے بہاؤ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ میں موجود نیورونز (عصبی خلیے) اس حرکت سے موافقت پیدا کر لیتے ہیں اور جب اپنی نظر کو چٹانوں کی طرف کرتے ہیں تو آنکھ سے ملنے والے پیغامات دوسرے نیورونز کو اُس حرکت کے برعکس کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ فریب نظر پیدا ہوتا ہے۔

ذہن سازی اور آنکھوں کے مابین تعلق جاننے پر انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے دیگر بہت سی چیزوں کے ساتھ تصورات کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے کچھ سادہ نمونوں اور اشکال کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیسے ہماری آنکھیں ان سادہ الوژن سے دماغ کو دھوکا دے سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر Ebbinghaus الوژن سے یہ انکشاف ہوا کہ ہمارا دماغ دوسری اشیاء سے متصل چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جسامت کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں ردوبدل کی جاسکتی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے سائنس دانوں نے ایک ہی جسامت کے دو زرد رنگ کے دائرے بنائے، ایک دائرے کے گرد سیاہ رنگ کے 8 چھوٹے دائرے بنائے۔ دوسرے زرد دائرے کے گرد سیاہ رنگ کے 6بڑے دائرے بنائے۔ انہیں دیکھنے والوں نے دونوں زرد دائروں کی جسامت کو مختلف بتایا، جب کہ در حقیقت وہ ایک ہی جسامت کے تھے، لیکن آنکھوں نے دماغ کو دھوکا دیتے ہوئے سیاہ دائروں پر زیادہ توجہ مرکوز کروائی جن کی جسامت میں فرق تھا۔

اسی طرح ’پونزو الوژن‘ ترتیب دیا گیا، جس میں گہرائی کے تصور کو بنیاد بنایا گیا۔ دو متوازی جھکی ہوئے لائنوں کے درمیان یکساں لمبائی کی دو افقی لکیریں اوپر اور نیچے کھینچی گئیں۔ آنکھوں سے ملنے والے سگنلز نے دماغ کو پریشان کردیا، کیوں کہ آنکھ جو دیکھ رہی تھی اس کے لحاظ سے اوپری لکیر نچلی لکیر سے بڑی دکھائی دے رہی تھی، لیکن حقیقت میں دونوں لکیروں کی جسامت ایک ہی تھی۔ اٹھارھویں صدی میں جرمنی کے ممتاز ماہر طبیعات Hermann von Helmholtz نے آنکھوں کی دھوکا دہی کو بے نقاب کرتی ’ٹال اسٹوری ‘ تھیوری پیش کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ لکیروں کو استعمال کرنے کا طریقہ دماغ کے طریقۂ کار کو تبدیل کردیتا ہے۔ اپنی اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے عمودی لکیروں سے کچھ چوکور خانے بنائے اور کچھ خانے افقی لکیروں سے بنائے، یکساں جسامت ہونے کے باوجود عمودی لکیر والے خانے افقی لکیر والے خانوں کی بہ نسبت چھوٹے اور چوڑے نظر آرہے تھے۔ اب کپڑوں کی صنعت میں Hermann  کی اس تھیوری کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اور فیشن ڈیزائنر لمبا اور دبلا دکھائی دینے کے لیے افقی لکیروں والے کپڑے پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ہرمین نے برین اسکیننگ ریسرچ کی بنیاد پر ’ہرمین گِرڈ ‘ کے نام سے ایک الوژن بنایا۔ اُس نے ایک جیسے سائز کے 15چوکور خانے بنائے جن کا درمیانی فاصلہ یکساں تھا۔ جب اس نے ان خانوں کے درمیان خالی جگہ کو دیکھا تو وہاں سرمئی رنگ کے نقطے نظر آئے، جن کا درحقیقت کوئی وجود نہیں تھا۔ اس حوالے سے ہرمین کا کہنا تھا کہ ان سرمئی رنگ کے نقطوں کا نظر آنا بھی درحقیقت آنکھ کی چلی گئی ایک چال تھی، جس کی وجہ سے نیورونزکے درمیان اس تصویر میں موجود روشن اور سیاہ حصوں کو دیکھنے کے لیے مسابقت پیدا ہوئی۔ تاہم دور جدید میں ہرمین کا ایک صدی سے زاید عرصے پرانا یہ الوژن ماڈل متنازعہ ہے۔

1981میں مشترکہ طور پر نوبیل انعام حاصل کرنے والے سوئزرلینڈ اور کینیڈا کے نیوروفزیولوجسٹ ڈیوڈ ہبل اور ٹورسٹن ویسل نے جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آنکھوں کی چال بازی جاننے کی کوشش کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ دماغ کے بصری حصے (کارٹیکس) کے کچھ نیورونز صرف اُسی وقت فعال ہوتے ہیں جب کسی چیز کو مخصوص زاویے پر رکھا جائے۔ مثال کے طور پر مخصوص نیورون اُس وقت فائر ہوتے ہیں جب آنکھ چوکور یا سہ رُخی (مثلث) شے کو دیکھے۔ اسی دریافت پر ان دونوں سائنس دانوں کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اکیسویں صدی میں فریب نظر پر تحقیق میں تیزی آگئی ہے۔

ایک مکتبۂ فکر کے مطابق کچھ فریب نظر ایسے ہوتے ہیں جو دماغ کو مستقل اس بات کی پیش گوئی کی کوشش میں مصروف رکھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ تھیوری کسی واقعے کے رونما ہونے میں معمولی تاخیر اور ہمارے شعور میں موجود اس شے کے تصور کو اجاگر کرتی ہے۔

اس حوالے سے امریکی نیورو بائیو لوجسٹ مارک چانگ زی (Mark Changizi)کا کہنا ہے جو الفاظ ابھی آپ پڑھ رہے ہیں ان کی روشنی آپ کی آنکھوں تک پہنچ چکی ہے، لیکن ان سگنلز کو دماغ تک پہنچنے اور پروسیس ہونے میں وقت لگے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس دنیا کا ادراک کرتے ہیں وہ قدرے پیچھے ہے۔ بسا اوقات جب بہت زیادہ معلومات ہمارے ریٹینا (آنکھ کا پردہ) سے ایک وقت میں ٹکراتی ہیں تو اسنیک الوژن پیدا ہوتا ہے۔ یہ تمام تفصیلات بیک وقت ہمارے دماغ کے بصری حصے میں داخل ہوجاتی ہیں، جس کے نتیجے میں دماغ تذبذب کا شکار ہوکر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

جس میں اہم کردار ہماری آنکھوں کا بھی ہے، کیوں کہ ہمارا دماغ کسی چیز کو دیکھ کر ہی اُس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے سائنس دانوں کو ہمارے دماغ میں جھانکنے اور اس میکانزم کو سمجھنے کے قابل بنادیا ہے۔ فنکشنل میگنیٹک ریسونینس امیجنگ (fMRI)کی بدولت اب ریسرچر اس بات کا تجزیہ کرنے کے اہل ہوچکے ہیں کہ آنکھ کے دھوکے کے نتیجے میں ہمارے دماغ میں موجود نیورونز انفرادی طور پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔

آنکھوں کی چال بازیوں پر ہونے والی اب تک کی تمام تحقیقی کاوشیں ایک نکتے پر مرکوز ہوجاتی ہیں ’ہمارے دماغ کا بصری نظام آنکھوں سے موصول ہونے والی تمام تر معلومات کو ایک ساتھ نہیں برت سکتا، اس کام کے لیے اگر ہمارا دماغ ایک عمارت سے بھی بڑا ہوجائے تب بھی ان معلومات کو سنبھالنے میں ناکافی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دماغ شارٹ کٹ کا عادی ہوچکا ہے، وہ ہمیں ریس میں بہترین گھوڑے پر شرط لگانے کے بجائے اُس گھوڑے کو منتخب کرنے پر زور دیتا ہے جسے ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔