اقبال اور ڈھیٹ مٹی

حمید احمد سیٹھی  ہفتہ 1 اگست 2015
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

مجھ پر اس کالم کا موضوع نازل ہوا ہے محترم یاسر پیرزادہ کا کالم پڑھ کر جس میں انھوں نے ناروے میں قیام کے چھٹے دن اپنی پریشانی کا اظہار یوں کیا ہے کہ ’’میں نارویجن لوگوں کی برائیاں ڈھونڈنا چاہتا ہوں، مجھے پکا یقین ہے کہ یہ ’’کافر‘‘ گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں لہٰذا میرا ایمان ہے کہ یہ لوگ جہنمی ہیں اور دوزخ کی آگ ان کا ٹھکانہ ہے۔

لیکن جس دن سے میں نے اوسلو میں لینڈ کیا ہے میری پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب لوگوں کو صاف نظر آتا ہے کہ ایک دکان میں صرف ایک شخص کیش کاؤنٹر پر کام کر رہا ہے تو وہ دکان کے باہر رکھی چیزیں اٹھا کر بھاگ کیوں نہیں جاتے، اپنے یہاں تو کسی ویگن میں کدّو بھی لے جا رہے ہوں تو ایک بندہ ان کی حفاظت کے لیے ان کے اوپر لیٹا ہوتا ہے۔‘‘

مجھے یہ پڑھ کر پہلے ہنسی اور پھر رونا ساتھ ہی دو دن پہلے دیکھا منظر یاد آ گیا ہے کہ ایک خوش پوش پینتیس چالیس سال عمر کا شخص پتلی سی سڑک بلاک کیے اپنی کار کے پاس فون پر کسی سے گپ بازی کر رہا تھا جب کہ  اس کے پیچھے رکی کھڑی کاروں والے ہارن پر ہارن دیے جا رہے تھے لیکن اس شخص پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا۔

اس کی کار کے پیچھے والی کار کے ڈرائیور نے دروازے میں سے سر نکال کر زور سے کہا ’’بیہودہ آدمی گاڑی آگے سے ہٹاؤ ٹریفک رک گئی ہے‘‘ یہ سنتے ہی موصوف کار میں سے باہر نکل آئے اور چیخ کر اپنی انگریزی دانی میں بولے ”what are you, who are you” دوسرے کئی لوگ بھی گاڑیوں میں سے نکل آئے تو وہ انگریز کا بچہ فوراً رفوچکر ہو گیا اور ٹریفک بحال ہو گئی۔

اپنی موٹر کار سے سڑک بلاک کرنے والے بدتہذیب شخص کا ذکر تو برسبیل تذکرہ آ گیا مجھے دراصل یاد آ رہا تھا اوسلو جہاں محترم قمر اقبال کی پاکستانیوں کی تنظیم Pakistan Union Norway نے ہر سال ماہ اگست کی روایت قائم رکھتے ہوئے فنکشن کا اہتمام کیا تھا اور سن 2001ء میں پاکستان سے جسٹس پاشا، پنجاب کے ہوم سیکریٹری بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور مجھے مدعو کیا تھا۔ اوسلو کے ایک بڑے ہال میں قریباً پانچ ہزار پاکستانی تھے یہ سالانہ تقریب ہر سال منعقد ہوتی ہے۔

اسٹیج پر ناروے کے سابق وزیراعظم، فارن منسٹر، میئر آف اوسلو، جسٹس پاشا، بریگیڈیئر اعجاز شاہ، قمر اقبال اور خاکسار بیٹھے تھے۔ میئر صاحب، سابق پی ایم، وزراء، قمر اقبال اور ہم تینوں مہمانوں نے تقاریر کیں۔ پاکستان میں جنرل مشرف نے فوجی حکومت قائم کر لی ہوئی تھی۔ اعجاز شاہ نے فوجی حکومت کے حق میں اور میں نے مخالفت میں تقریر کی۔ ہم دونوں حاضر سروس تھے۔ میرا خیال تھا اعجاز شاہ واپسی پر میرے خلاف حکومت کو لکھیں گے لیکن انھوں نے فراخ دلی کا ثبوت دیا۔

تقاریر کے بعد ’’پاکستان یونین ناروے‘‘ کی طرف سے پرتکلف ضیافت کا اہتمام تھا۔ دوسرے دونوں مہمان ہوٹل میں ٹھہرائے گئے تھے لیکن میں نے محترم چوہدری افتخار آف کھاریاں کے انکل کے مکان پر قیام کیا۔ افتخار (مرحوم) جو برٹش سٹیزن تھے میری بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر کھاریاں تعیناتی کے دنوں ہی سے میرے ساتھ خلوص و محبت کا رشتہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اوسلو ایئرپورٹ ہی سے مجھے قابو کر لیا تھا اور میری دس روزہ رخصت ختم ہونے کو آئی تو انھوں نے جرمنی کی سیر کا لالچ دے کر مجھے رخصت EXTEND کروانے کے لیے تیار کر لیا اور میں ان کے ہمراہ آٹھ گھنٹے کا کروز لے کر ہیمبرگ جا پہنچا۔ افتخار چوہدری کی بے لوث دوستی اور مہمان نوازی مجھے آخری سانس لینے تک یاد رہے گی۔

ہم ہیمبرگ پہنچے افتخار کے کزن بشارت صاحب ہمارے میزبان تھے۔ انھوں نے ہمیں سیر بھی کرائی اور اپنی جیب سے شاپنگ بھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ میرا اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ کا ایک دوست شیخ منیر جو اسکول کے دنوں ہی میں چند ساتھیوں کے ہمراہ گھومتا گھومتا ڈنمارک جا پہنچا تھا اور میری اس کے ساتھ ٹیلیفون پر بات بھی ہوئی ہے تو وہ ٹرین کا ریٹرن ٹکٹ لے آئے دوسرے دن میں اس ٹرین میں سوار تھا جو پون گھنٹہ سمندری سفر بھی کرتی ہے اور یوں میں دو دن منیر شیخ کے گھر ڈنمارک سے بھی گھوم آیا۔ اب میں گزشتہ کئی ماہ سے بشارت کو ٹیلی فون کر رہا ہوں، رابطہ نہیں ہو رہا خدا خیر کرے۔

ہم واپس اوسلو پہنچے تو ملک پرویز اور افتخار چوہدری میرے اصرار پر مجھے پاکستان کے سفارت خانے لے گئے۔ سفیر صاحب نے ملاقات کے بعد کھانے کی دعوت دی۔ اسی سفارت خانے میں ہمارے عطاالحق قاسمی بحیثیت سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پرویز مشرف نے حکومت پر قبضۂ غاصبانہ کیا تو قاسمی صاحب کو فوراً واپس بلا لیا۔ ان کی مصروفیات اب آرٹس کونسل میں اتنی گوں نا گوں ہیں کہ وہ صحت اور آرام کی بھی پروا نہیں کرتے۔ خدا انھیں نظر بد سے بچائے رکھے۔ سفارت خانے میں سابق سفیروں کے ناموں میں قاسمی صاحب کا نام پڑھ کر خوشی ہوئی۔

اوسلو واپسی کے دوسرے دن ملک پرویز نے کہا کہ وہ مجھے اوسلو سے ڈیڑھ سو کلو میٹر جانب جنوب ایک صنعتی شہر RJUKAN کی سیر کرانے لے جائے گا۔ سفر میں سڑک کے بائیں طرف ہریالی اور اس کے پیچھے سمندر تھا۔ دائیں جانب درخت، پھولوں سے لدی جھاڑیاں اور ان کے پیچھے پہاڑ جن پر رہائشی مکان بھی تھے۔

سڑک پر بہت سے سائیکل سوار آتے جاتے دیکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں تو سڑکوں سے بائیسکل غائب ہو رہے اور بے ہنگم دوڑتی موٹر بائیکس نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ ہم کار سے RJUKAN کے پیالہ نما شہر میں داخل ہوئے جہاں سورج کی کرنیں بھی بلندی پر لگے Reflectors کے ذریعے داخل ہوتی ہیں۔

اس شہر میں بھاری پانی کی دریافت کے بعد دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے چھاتہ بردار اتار کر قبضے اور ایٹمی اسلحہ کی تیاری کی دوڑ میں شرکت کی کوشش کی تھی لیکن امریکی دخل نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس وقت کا مقبوضہ اسلحہ، وردیاں اور دیگر سامان اب اس شہر کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا ہے۔ میں نے بھی وہاں سے بھاری پانی کی ایک ٹیوب اور چینی دان یادگاری چمچ کے ڈسپلے سے خریداری کی۔

اوسلو اور ہیمبرگ میں قیام اور گھومنے پھرنے کے دوران کسی بھی جگہ کوڑے اور گندگی کے ڈھیر یا آتے جاتے لوگوں کے تھوکتے اور ناک سڑکتے نہ دیکھ کر اچھا لگا۔ سڑکوں پر ٹریفک قطعی بے ہنگم نہ پا کر اپنے یہاں کی ٹریفک یاد آئی، فٹ پاتھوں پر چلتے لوگ بغیر ایک دوسرے کو گھورنے اور ٹکرانے کے فاصلہ رکھ کر چل رہے تھے۔ کھانے پینے کی دکانوں پر تلاش کرنے پر بھی مکھی نہ ملی، کسی عبادت گاہ سے لاؤڈ اسپیکر کا شور اٹھتا نہ پایا، بہت سے لوگ بے خطر اپنے ٹریک پر سائیکلوں پر سوار گزرتے دیکھے، ہر مکان کی بالکونی میں پھولوں کی بہار نظروں کو ٹھنڈک پہنچاتی دکھائی دی۔ کسی موڑ پر لوگوں کو دست و گریبان ہوتے اور گالم گلوچ نہ ہوتے دیکھ کر حیرت ہوئی۔

لیکن جب سے وطن واپسی ہوئی ہے ناروے کی ہر اچھی چیز اور عادت یہاں دیکھنے کی آرزو ہر صبح جاگتی اور شام کو دم توڑ دیتی ہے۔ البتہ یہ جان کر جان میں جان آ جاتی ہے کہ پاکستانی نارویجنز کی اکثریت نے ان کی اچھی عادات اپنا لی ہیں لیکن پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اقبال نے تو کہا تھا کہ؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
لیکن بڑی ڈھیٹ ہے یہ مٹی نم ہونیکا نام ہی نہیں لیتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔