پاکستانی سیاست کی ایک عجب کہانی

زاہدہ حنا  ہفتہ 1 اگست 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

2013ء کے انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے تھے ان کی روشنی میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہونے والا ہے۔ مسلم لیگ نواز ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ اس کی کامیابی غیر متوقع نہیں تھی۔ عوامی مقبولیت کے تمام قومی اور بین الاقوامی جائزوں میں یہی کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف مقبولیت کی دوڑ میں اپنے حریفوں سے کہیں آگے ہیں۔

اسی طرح تمام اندازوں کے مطابق پی ٹی آئی کے عمران خان دوسرے نمبر پر تھے۔ وہ بڑے بڑے انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے اور جوشیلے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی انتخابی مہم چلانے میں پیش پیش تھی۔ ان کے بارے میں ماہرین اور اداروں نے جو اندازے لگائے تھے وہ بھی درست نکلے۔ ان کی جماعت کو اسی لاکھ ووٹ ملے۔ ووٹوں کے حساب سے پی ٹی آئی دوسری جب کہ  پارلیمنٹ میں نشستوں کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ وہ پنجاب میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی، تاہم سندھ میں اس کی حیثیت مستحکم تھی۔ پی پی پی کو ان انتخابات میں جس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ لوگوں کے لیے حیران کن ضرور تھا۔ کسی کو یہ گمان نہیں تھا کہ پاکستان کی اتنی بڑی قومی پارٹی کا سندھ کے علاوہ دیگر تین صوبوں سے تقریباً صفایا ہوجائے گا۔ ان نتائج نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان میں سیاست کے زمینی حقائق بدل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت اور پی پی پی کو عوام کی جانب سے پذیرائی کا نہ ملنا ایک نیا سیاسی مظہر تھا۔

گذشتہ انتخابات کے بعد جو منظرنامہ سامنے آیا اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں تھا کہ پی ٹی آئی، عمران خان کی قیادت میں اپنے اندر زبردست سیاسی کامیابیوں کے بے شمار امکانات رکھتی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پی ٹی آئی پہلے مرحلے میں پی پی پی کی جگہ لے گی اور اس کے بعد وہ مسلم لیگ سے آگے نکل جائے گی۔ انتخابی نتائج سے کم از کم کچھ اسی طرح کی تصویر سامنے آئی۔ بلاشبہ یہ پی ٹی آئی کے لیے یہ ایک شاندار موقع تھا۔ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ 2013ء کے عام انتخابات سے اگر کسی جماعت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا تو وہ پی ٹی آئی تھی۔

2002ء کے عام انتخابات میں اس کے پاس غالباً دو نشستیں تھیں، 2008ء کے انتخابات میں اس نے حصہ نہیں لیا تھا، جب کہ  2013ء کے انتخابات میں اس کے ووٹر دو ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر 80 لاکھ ہوگئے اور نشستوں کی تعداد 33 ہوگئی۔ ماضی میں اس کی سینیٹ میں کوئی نشست نہیں تھی، آج وہ وہاں بھی اپنی نمائندگی رکھتی ہے۔ کے پی کے میں اس نے اے این پی اور جے یو آئی جیسی جماعتوں کو ہرا کر صوبائی حکومت تشکیل دی۔ کراچی جہاں چند سال پہلے تک اس کی کامیابی تقریباً ناممکن دکھائی دیتی تھی وہاں سے اس نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سیاسی پنڈتوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

غور کیا جائے تو اس قدر قلیل مدت میں پاکستان کی کسی دوسری سیاسی جماعت کو اتنی غیر معمولی انتخابی کامیابی ماضی میں کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان کی تمام بڑی پرانی سیاسی جماعتوں کو مقبولیت اور انتخابات میں اوسط درجے کی کامیابی کے حصول کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ مسلم لیگ، پی پی پی، اے این پی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں نے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد کامیابی کا ذائقہ چکھا ہے۔

ایک طویل جمہوری جدوجہد کے دوران ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پھانسیاں دی گئیں، ہزاروں نے جیل کے اندر اور برسر عام بھی کوڑے کھائے، قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان تمام جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد اور قربانیاں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن اس کے باوجود عوام نے اسے مقبولیت عطا کی اور 2013ء میں ووٹوں کے اعتبار سے وہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔

اتنی شاندار اور غیر معمولی کامیابی کے بعد لوگ اگر یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان کی سیاست ایک شاندار جست لگانے والی ہے اور پی ٹی آئی اپنی اس کامیابی کو سمیٹ کر آگے بڑھے گی تو وہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھے۔ لیکن شاندار کامیابی کے بعد جو کچھ ہوا، اس کی توقع بڑے سے بڑے سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی نہیں تھی۔

یہ ایک امتحان تھا، عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے۔ بڑی کامیابیاں دراصل آپ کو بڑے مواقع اور امکانات فراہم کرتی ہیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غیر معمولی کامیابی آپ میں ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور غرور پیدا کردیتی ہے۔ سب حقیر نظر آنے لگتے ہیں، کامیابیوں کو سمیٹنے اور انھیں محفوظ کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کی دیوانہ وار خواہش غلبہ حاصل کرلیتی ہے اور اس میں ہاتھ آئی شاندار کامیابی بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ جب کسی کو غیر متوقع کامیابی حاصل ہو تو وہ عجزوانکسار کا پیکر بن جائے، اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کرے اور مزید کامیابیوں کے لیے نئی راہیں دریافت کرنے کے لیے ریاضت اور مشاورت کرے۔ اس صورتحال کے برعکس آج ایک دردناک صورتحال ہمارے سامنے ہے، پی ٹی آئی کو سیاسی ہزیمتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں اور ان سیاسی حریفوں کے کڑوے کسیلے جملے بھی سننے پڑ رہے ہیں، جن کو وہ ابھی چند مہینوں پہلے برسرعام تضحیک کا بڑی بے دردی سے نشانہ بنایا کرتی تھی۔

غلطی کہاں ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جس پر نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جو اسے تباہ کن مشورے دیا کرتے تھے۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ کامیابی کا جوش، ہوش پر غالب آگیا۔ انتخابی کامیابی کو مستحکم کیے بغیر ایک نئے سیاسی حملے کا آغاز کردیا گیا اور حملہ بھی ایسا کہ جس سے پورے جمہوری نظام کی بساط الٹ سکتی تھی۔ عوام اور خواص دونوں یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ اقتدار میں آنے کی بھلا اتنی عجلت کیوں ہے؟ بڑی اور مستحکم سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے 30 اور 40 سال تک انتظار کرتی ہیں تب ان میں سے کسی کو کہیں جاکر اقتدار کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ آپ کو تو سیاست میں آئے ابھی چار دن بھی نہیں ہوئے تھے۔

دوسری غلطی یہ ہوئی کہ یہ سیاسی حملہ اگر صرف نواز شریف اور مسلم لیگ نواز تک محدود رہتا تب بھی اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ اس کا دائرہ بہت پھیلا دیا گیا۔ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، نگراں حکومتیں، الیکشن کمیشن، نادرا، سیکیورٹی پرنٹنگ پریس، بیورو کریسی، ریٹرننگ افسروں اور بعض دیگر اداروں سمیت سب پر ہلّا بول دیا گیا۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ ریاست اداروں پر قائم ہوتی ہے، سیاسی لڑائیاں سیاست کے میدان میں لڑی جاتی ہیں، ان میں ریاستی اور جمہوری اداروں کو ملوث نہیں کیا جاتا۔

اس غلط حکمت عملی سے لڑائی کا دائرہ پھیل جاتا ہے اور وہ ادارے اور افراد بھی آپ کے مدمقابل آجاتے ہیں جو آپ کا اصل ہدف نہیں ہوتے۔ ایک اور غلط حکمت عملی یہ تھی کہ دھرنوں کے دوران لوگوں کی حاضری کو برقرار اور میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھنے کے لیے ایسے اعلانات کیے گئے جن سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوگیا۔ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے نقصان دہ تھا۔ لوگ ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو معاشی بحران شدید تر ہوگا اور لوگوں کے مسائل اور عذابوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔

اس نوعیت کا ایک اور غلط اعلان بیرون ملک پاکستانیوں سے یہ کہنا تھا کہ وہ بینکوں سے نہیں بلکہ ہنڈی کے ذریعے ملک میں زرمبادلہ روانہ کریں۔ لوگوں نے سمجھایا کہ ہنڈی اور حوالہ، منی لانڈرنگ کے دائرے میں آتا ہے، آپ کیا پاکستانیوں کو گرفتار کرائیں گے؟ یہ ایک نہایت خطرناک اپیل تھی اسی لیے چند دنوں بعد یہ واپس لے لی گئی۔ اس نوعیت کے اعلانات اور متعدد افراد کے بارے میں نازیبا انداز گفتگو نے عوام اور بااثر طبقات کو بے مزہ کردیا اور تقابلی موازنے میں ’’سیاسی حریف‘‘ آپ کے مقابلے میں زیادہ ذمے دار نظر آنے لگا۔

حملہ ابتدا میں سیاسی تھا، بعدازاں نئے محاذ کھول لیے گئے اور پی ٹی آئی کو کئی محاذوں پر بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی جس کی اس میں نہ استعداد تھی نہ تیاری۔ صورتحال کی سنگینی کو سمجھ کر پارلیمنٹ متحد ہوگئی، سول سوسائٹی اور کاروباری طبقات نے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میڈیا تقسیم ہوگیا اور فیصلہ کن وقت آیا تو وہ بھی ایک طرف ہوگئے جن سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔

2013ء کے انتخابات کے بعد اس سیاسی حملے کا انجام یہ ہوا کہ ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ سب سے بڑا فائدہ اس سیاسی رہنما کو ہوا جسے آپ سب سے زیادہ نقصان پہنچانا بلکہ تباہ کردینا چاہتے تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی غلط نہیں کہتے کہ نواز شریف کے لیے اگلی باری لینے کی راہ آپ نے خود ہموار کردی ہے۔ سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ کیا خوب سیاست کی ہے کہ نواز شریف کو اعلیٰ ترین ادارے سے درست مینڈیٹ کی سند بن مانگے عطا ہوگئی ہے۔ دیکھا جائے تو آخری نتیجے میں عمران خان نے اپنی سیاست سے نواز شریف کو مزید مستحکم اور مقبول بنا دیا ہے۔

کیا یہ پاکستانی سیاست کی ایک عجب کہانی نہیں…؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔