افغانوں سے بچئے!

عبدالقادر حسن  ہفتہ 1 اگست 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہماری انتظامیہ نے اپنا معمول بنا لیا ہے کہ پہلے تو کسی بھی خلاف قانون حرکت پر توجہ نہ دو اور جب وہ حد سے گزر جائے تو پھر اس پر آہنی ہاتھ سے ٹوٹ پڑو اور اسے ایک انسانی مسئلہ بنا دو جس کی خبریں دور دور تک پہنچ جائیں اور پاکستان پر ایک اور الزام کا اضافہ ہو جائے۔

اسلام آباد یعنی ہمارے دارالحکومت میں یہی حادثہ ہوا ہے اور جب یہ حادثہ تیار ہو رہا تھا تو کسی نے اس کی پروا نہ کی اب جب افغان بستی کے مکانات گرائے جا رہے ہیں اور لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ سب کے سامنے یہ بستی تعمیر ہوتی رہی مگر کسی نے پروا نہ کی کہ وہ محکمہ اور اس کے افسر حضرات اگر اس وقت تک اپنے عہدہ پر ڈٹے ہوئے ہیں تو کسی ناجائز افغان بستی کو مسمار کرنے سے پہلے ان افسروں کو کیوں ’مسمار‘ نہیں کیا گیا۔ ان کی نوکریاں نہ صرف ختم ہوں بلکہ ان کو سزا بھی دی جائے اور اس ناجائز آبادی کی طرح ان افسروں کے مکان بھی مسمار ہوں۔ ہماری بدانتظامی کوتاہی اور قومی معاملات سے لاپروائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کے مرتکب سرکاری اہلکاروں کو وہی سزا دی جائے جو وہ اب دوسروں کو دے رہے ہیں۔

افغانستان میں حالات ایک مدت تک اور اب بھی بہت خراب ہیں۔ یہ ملک برباد ہوا ہے اور اس کے باشندے جنگ سے بھاگ کر پاکستان آئے ہیں۔ جب یہ پاکستان میں داخل ہو رہے تھے تو پوری حکومت کو علم تھا کہ یہ کون ہیں اور ان کی آمد قطعاً ناجائز ہے۔ یہ پاکستانی ہیں ہی نہیں تو پھر ملک کے دارالحکومت میں ان کو ٹھکانہ کیسے مل رہا ہے اور کیسے وہ یہاں اپنے مکان وغیرہ بنا رہے ہیں۔ یہ سارا کام چشم زدن میں نہیں ہوا ہمارے دارالحکومت کی انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے اور اب مدتوں بعد جب ان افغان بستیوں کی وجہ سے کچھ پریشانی پیدا ہوئی ہے تو سرکار یکایک بیدار اور ہوشیار ہو گئی ہے۔

جب یہ افغان پاکستان آ رہے تھے تو سب کو معلوم تھا کہ وہ یہاں چند سو روپے دے کر پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کر لیتے ہیں اور یوں تو وہ ایک پاکستانی بھی بن جاتے تھے مگر ان کو بھی اور سرکاری اہلکاروں کو بھی سب کو معلوم تھا کہ یہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ ان ھی دنوں میں گاؤں گیا تو معلوم ہوا کہ ان افغانوں کی ایک بڑی تعداد وادی سون کے جنگلوں میں رہنے لگی ہے اور خطرناک حد تک غیر مسلح مقامی آبادی کو ہراساں کر رہی ہے۔ میں نے ضلعی انتظامیہ کی توجہ دلائی لیکن جب مقامی لوگ تنگ آ کر ان مہمانوں کو بھگانے لگے تو صورت حال قدرے بہتر ہوئی مگر اب بھی پر امن نہیں ہے۔

پاکستان طویل افغان جنگوں کا محاذ تھا اور کئی بار تو وہ ان جنگوں میں شریک بھی رہا۔ افغانستان میں وقت کی تین سپر پاورز کو شکست ہوئی۔ پہلے برطانیہ ہندوستان میں اپنے اقتدار کے زمانے میں افغان جنگ میں شکست کھا گیا اور اس کا پورا لشکر ختم ہو گیا سوائے ایک ڈاکٹر کے جسے واپس دلی جا کر اطلاع دینے کے لیے زندہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد روس کا جو حشر ہوا وہ تو ہم نے خود دیکھا ہے اور روسی فوجی افسر توبہ تائب ہو کر افغانستان سے باہر نکلا اور یہ کہتے گئے کہ ہم اپنی نسلوں کو بھی بتا جائینگے کہ دریائے آمو سے ادھر کا رخ نہ کرنا پھر امریکا بھی تمام تر زعم کے باوجود رسوا ہوا۔

پاکستان یہ تماشے دیکھتا رہا اور جان بچانے کی فکر کرتا رہا لیکن دروازے کے باہر ایک بے ترتیب جنگ سے دامن بچانا آسان نہ تھا چنانچہ جنگ زدہ افغانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہونے لگی اور ہماری انتظامیہ نے ماشاء اللہ اسے بھی آمدنی کا ایک ذریعہ بنا لیا جس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ ہم اپنے دارالحکومت کو بھی ان غیر قانونی پاکستانیوں سے نہ بچا سکے اور افغان بھی پاکستانی بن گئے۔

کئی بڑے شہروں میں افغانوں کے بڑے بڑے اسٹور ہیں خصوصاً کپڑے کا کاروبار ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کی دکانوں پر خواتین کا ہجوم رہتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر عورتوں کے ملبوسات کی تجارت کرتے ہیں۔ تجارت کے دوسرے کئی شعبوں میں بھی یہ گھس چکے ہیں اور رفتہ رفتہ اپنے کاروباری اڈے بنا رہے ہیں جو کل کسی خرابی کے مرکز بن سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ سب کے سامنے ہو رہا ہے مثلاً کون نہیں جانتا کہ لاہور میں کہاں کہاں افغان موجود ہیں اور کس حال میں ہیں۔ جس انتظامیہ کے سامنے ملک کے دارالحکومت کا تقدس محفو ظ نہیں اسے کسی بازار کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔

آج اسلام آباد کے سیکٹر آئی 11 کا مسئلہ پوری قوم کے سامنے ہے کہ کس طرح اسے خالی کرایا گیا اور کتنے لوگوں کو گرفتار کرنا پڑا۔ ہم نے اپنی نالائقی اور لالچ میں افغانوں جیسی قوم کو اپنے ہاں بلا لیا ہے۔ وہ واپس جانے کے لیے نہیں آئے بلکہ وہ پاکستان میں اپنے ٹھکانہ بنائیں گے اور ہم ہر روز ان کے خلاف کارروائیاں کرینگے جن میں بدامنی کو ہوا ملے گی۔ ہم کسی بدامنی پر تیار نہیں ہیں اور خصوصاً افغان آبادی کی طرف سے بدامنی تو ہمیں کسی صورت برداشت نہیں ہے۔

ملک کی انتظامیہ اور حکومت وقت کی خدمت میں درخواست ہے کہ میرے جیسے بزدل پاکستانیوں کو ان غیر قانونی پاکستانی شہریوں سے بچائیں کیونکہ ان لوگوں سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور اب تو لگتا ہے کہ حکومت کے پاس بھی اپنے بچاؤ کے لیے جنگی ہتھیار ہی ہیں جو اس نے ایک افغان آبادی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ یہ غیر قانونی افغان جب ملک میں پھیل جائیں گے تو پھر ان کا مقابلہ کون کرے گا۔ کیا وہ لوگ کریں گے جو طے کر چکے ہیں کہ حالات دگرگوں ہو گئے تو وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے جہاں ان کے ٹھکانے پاکستان سے زیادہ آرام دہ ہیں اور محفوظ بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔