مظلوم ملازمین کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا احتساب کون کریگا؟

رحمت علی رازی  ہفتہ 1 اگست 2015

حکومت نے فیڈرل ایمپلائز بینوولینٹ اینڈ گروپ انشورنس فنڈز کے نام سے 4 اپریل 1969ء کو حاضر سروس سرکاری ملازمین کی بہبود کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جسے بینوولینٹ یا بہبود فنڈ کا نام دیا گیا۔

اس فنڈ کو وجود میں لانے کا بنیادی مقصد سرکاری ملازمین اور حکومت کے منظور شدہ خود مختار اداروں کے ملازمین کو بینوولینٹ گرانٹ، گروپ بیمہ اور دوسرے مالی فوائد فراہم کرنا تھا۔ اس فنڈ کے ذریعے ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے 8 سے11 فیصد رقم ہر ماہ منہا کر لی جاتی ہے جس میں گورنمنٹ سرونٹس کی سروس کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

دورانِ سروس یا ریٹائرمنٹ کے 70 سال کے اندر اگر کوئی ملازم وفات پا جاتا ہے تو اس کے کنبے کو اس فنڈ میں سے حسب تناسب ادائیگی ہوتی ہے اور یہ طے شدہ رقم پنشن کی طرح ہر ماہ متوفی کے لواحقین یا پسماندگان کو بلاتعطل فراہم کی جاتی ہے۔ بینوولینٹ فنڈ کا واحد نصب العین مشکل کی گھڑی میں ملازمین اور ان کے  خاندان کے ساتھ تعاون کرنا اور ان کے لیے قانون کے تحت گارنٹی شدہ اور محفوظ فوائد یقینی بنانا ہے، ملازمین کے اہل خانہ کے لیے جو مراعات اس کے منشور میں درج ہیں۔

ان میں ایک تو یہ ہے کہ70 سال کی عمر تک دورانِ ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد وفات پا جانے والے ملازم کی بیوہ کو ایک ہزار 280 روپے سے لے کر 4 ہزار روپے تک کی ماہانہ بینوولینٹ گرانٹ تا حیات فراہم کی جائے گی  تاہم یہ سہولت خاندان کے دیگر افراد کو زیادہ سے زیادہ 15 سال تک دی جاتی ہے یا ملازم کی عمر 70 سال ہونے تک جو بھی عزیز زیادہ قریب ہو۔

دوسرے یہ کہ گروپ انشورنس کی شکل میں دورانِ ملازمت وفات پا جانے والے ہر ملازم کے خاندان کو بیمہ شدہ رقم ادا کی جائے گی  جس کی مالیت 1 لاکھ 31 ہزار روپے سے لے کر 7 لاکھ روپے تک ہو گی، اس کے علاوہ تدفین کے اخراجات کی مد میں 70 سال کی عمر تک وفات پا جانے والے ہر ملازم کے خاندان کو 10 ہزار روپے کی گرانٹ دی جائے گی جو 21 اپریل 2011ء سے لاگو ہے۔ زیرملازمت اور ریٹائرڈ مرحوم ملازم کے صرف ایک بچے کی شادی کے لیے 50 ہزار روپے کی گرانٹ بھی دی جاتی ہے اور یہ سہولت بھی 21 اپریل 2011ء سے لاگو ہے۔

یکم جنوری 2006ء سے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے بھی طے شدہ مراعات ہیں جن میں ایک تو فیئرویل گرانٹ ہے جو 25 سال کی مسلسل ملازمت کی تکمیل پر ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر دی جاتی ہے، بہ ایں ہمہ گروپ انشورنس کی بیمہ شدہ رقم طبی وجوہات کی بنیاد پر ریٹائر ہونیوالے ملازم ’ہمراہ معذوری‘ کی کلاس ’’اے‘‘ (80 فیصد) کے حامل کو 57 ہزار 5 سو روپے سے لے کر 2 لاکھ 60 ہزار روپے کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔

بینوولینٹ گرانٹ اس کے علاوہ ہے جو طبی وجوہات کی بنیاد پر ریٹائر ہونیوالے ملازم ’ ہمراہ 80 فیصد معذوری‘ کو تاحیات ماہانہ فراہم کی جاتی ہے جس کی مالیت 1 ہزار 280 روپے سے لے کر 4 ہزار روپے تک ہے۔ حاضر سروس ملازمین کے لیے میرج گرانٹ کے علاوہ تعلیمی وظائف کی مراعات بھی موجود ہیں۔

جیسا کہ قائد اعظم یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایئر یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، بحریہ یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اداروں میں میرٹ پر داخلہ حاصل کرنے کے علاوہ طلبہ کے لیے میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی اور بزنس اسٹڈیز میں پیشہ ورانہ تعلیم کی مفت فراہمی ہے اور یہ سہولت پوری تعلیمی مدت‘ پروگرام کے دوران فراہم کی جاتی ہے اور طالبعلموں کے اگلے سمسٹر، کلاس یا پیشہ ورانہ سال میں جانے کے لیے یونیورسٹی، کالج اور ادارے کی طرف سے تجویز کردہ کم از کم نمبر حاصل کرنا ہوتے ہیں۔

نجی و سرکاری یونیورسٹیوں‘ اداروں کے ذریعے کم از کم 70 فیصد نمبر حاصل کرنیوالے پروفیشنلز کے لیے 20 ہزار روپے کے وظائف، ماسٹرز کے لیے کم از کم 80 فیصد حاصل کردہ نمبروں پر 15 ہزار روپے، گریجویشن کے لیے کم از کم80 فیصد نمبروں پر 12 ہزار روپے اور انٹر میڈیٹ کے لیے80 فیصد نمبروں پر 10 ہزار روپے مختص ہیں۔ جتنی مراعات و سہولیات حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازمین یا ان کے  اہل خانہ کو فراہم کی جاتی ہیں نہ تو وہ سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہیں، نہ ہی کسی خیراتی ادارے یا غیرسرکاری تنظیم کے فنڈ سے، بلکہ یہ تمام رقم ان ھی ملازمین کے خون پسینے کی کمائی میں سے پس انداز کی جاتی ہے۔

ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹی میں کٹوتی کی رقم اس وقت اربوں روپے میں ہے اور ہر سال اس بہبود فنڈ کے پیسے کو مختلف ذرائع میں انویسٹ کر کے مزید اربو ں روپے کمائے جاتے ہیں۔ ایف ای بی اینڈ جی آئی ایف اس وقت 64 لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی بہبود کے لیے کام کر رہا ہے، ادارے کا سال 2014-15 کے لیے سالانہ بجٹ 7,276.55 ملین روپے ہے اور اس نے اپنے بورڈ کی منظوری سے 30 جون 2014ء تک 23,394 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی اور گزشتہ سال 35 فیصد سے زائد آمدنی سرمایہ کے منافع کی مد میں وصول کی۔

ایف ای بی اینڈ جی آئی ایف نے قومی بچت کی اسکیموں میں 18,143.41 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی اور 77.55 ملین روپے کا منافع کمایا، رئیل اسٹیٹ میں 2033.57 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی اور 8.69 ملین روپے کمائے، ٹرم ڈیپازٹ بینک کے ساتھ 577.00 ملین روپے کی سرمایہ کاری کی اور 2.47 ملین روپے کمائے، شراکتی فنڈ کے حصص میں 455.58 ملین کی سرمایہ کاری کی اور5 1.9 ملین روپے کمائے، ٹرم فنانس سرٹیفکیٹ میں 2185.39 ملین روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے میں 9.34 ملین روپے منافع کمایا، ادارے نے 2009ء میں بلیو ایریا اسلام آباد میں 4608 مربع گز کے ایک قطع اراضی کی نیلامی سے967.680 ملین روپے کا ایک پلاٹ خریدا جس پر بی ایف ٹاور کے نام سے ایک کمپلیکس زیرتعمیر ہے جو 5.604 ارب روپے کی لاگت سے تین سال میں مکمل کیا جانا ہے۔

جس میں شاپنگ مال، مِنی سینما، فوڈ کورٹ و ریسٹورنٹ، جِم اور سوئمنگ پول شامل ہونگے، اس منصوبے سے اربوں روپے کی آمدن متوقع ہے۔ جس طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے فرداً فرداً 33.75 فیصد ماہانہ کے حساب سے پنشن کنٹری بیوشن کے طور پر حکومت کے پنشنز ڈیپارٹمنٹ کے پنشنرز فنڈ میں جمع ہوتا رہتا ہے اور ریٹائرمنٹ پر ان ھی کی جمع شدہ رقم انہیں ہر ماہ پنشن کی شکل میں ادا ہوتی ہے، بعینہٖ بہبود و بیمہ فنڈ بھی ملازمین کی گروپ انشورنس کی شکل میں، جس کا پریمیئم وہ دورانِ ملازمت اپنی تنخواہوں سے ادا کرتے ہیں، ریٹائرمنٹ پر انہیں ادا کر دیا جانا چاہیے مگر افسوس کہ اس کی ادائیگی ڈیفنس ملازمین کے علاوہ کسی کو نہیں کی جاتی۔

بلوچستان حکومت بھی اپنے ریٹائرڈ افسروں کو بینوولینٹ فنڈ سے انہیں اور ان کے خاندان کو باقاعدگی سے ادائیگی کرتی ہے جب کہ  وفاقی حکومت اور دیگر صوبے اس فنڈ کی بابت کبھی بھی انصاف سے کام نہیں لیتے اور سفارشی و معدودے چند خوش نصیب ہی اس بہبود فنڈ یا بیمہ کی رقم سے مستفید ہو پاتے ہیں۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ اینڈ گروپ انشورنس ایکٹ 1969ء میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم ہوتی رہی ہیں تا کہ افسران کو اس فنڈ کا بھرپور فیض پہنچایا جا سکے مگر وقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں قوانین میں ترامیم عوامی فلاح کے برعکس ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی کی جاتی ہیں۔

اسی طرح کی ایک ترمیم وفاقی کابینہ نے ایف ای بی اینڈ جی آئی ایکٹ 1969ء (ایکٹ II) میں 2013ء میں بھی کی جسکے ذریعے ایسے ملازمین کے اہل خانہ کو بینوولینٹ گرانٹ کی فراہمی کے لیے 70 سال کی حدعمر کو ختم کرنا تھا جو 70 سال کی عمر تک انتقال کر جاتے ہیں جب کہ  شادی گرانٹ، تدفین کے اخراجات اور تعلیمی وظائف کے حوالے سے دیگر اسکیموں کے تحت گرانٹس کی عمر کی کسی بھی حد کے بغیر اجازت ہے۔ یہ ترمیم بھی عام ملازمین کو کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ پہنچا سکی بلکہ اس سے کرپشن کا ایک اور نام نہاد راستہ واء ہو گیا۔جیسا کہ 2010ء میں حکومتِ سندھ نے اپنے چہیتے افسران کو نوازنے کے لیے ایک اکثریتی بل کے ذریعے بینوولینٹ فنڈ میں ترمیم کر کے ملازمین کے سوتیلے اور لے پالک بچوں، والدین، چھوٹے بھائی، غیر شادی شدہ، مطلقہ، بیوہ، سوتیلی اور لے پالک بیٹی و بہن کو بھی مالی اعانت فراہم کی۔

اس ترمیم کے سرٹیفکیٹ پر ہزاروں سوتیلے اور لے پالک بچے، بیٹیاں اور بہنیں وغیرہ ظاہر کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹنے والے کروڑوں، اربوں روپے بے دردی سے لوٹے گئے اور تاحال لوٹے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت کی قصاب گردی کا اگر یہ عالم ہے تو پنجاب حکومت اس سے بھی دس قدم آگے ہے، اس کا  اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 2009ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گریڈ ایک سے 15 تک کے ڈیڑھ لاکھ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔

یہ سارے غیرمستقل ملازمین حکومتی افسروں کے قریبی عزیز، گھریلو نوکر اور سیاسی سفارشی تھے جنہیں بیوروکریسی کے دباؤ پر مستقل کیا گیا اور جو سب سے بڑی خوشخبری انہیں سنائی گئی، وہ یہ تھی کہ ریگولر ہونے والے ملازمین کو وہی مراعات حاصل ہونگی جو حکومت پنجاب کے باقاعدہ ملازمین کو حاصل ہیں، انہیں پنشن اور گروپ انشورنس بھی ملے گی، وہ بینوولینٹ فنڈ بھی لے سکیں گے اور سب سے بڑھ کر انہیں دورانِ ملازمت قرضے کی سہولت بھی حاصل ہو گی۔ وزیر اعلیٰ کے اس مستحسن اقدام سے ان سرکاری مگرمچھوں کے اگلے ہی روز وارے نیارے ہو گئے جنکے مفادات اس عمل میں کارفرما تھے۔

مستقل ہونے والے ڈیڑھ لاکھ ملازمین میں نصف سے زائد وہ گھوسٹ ملازمین تھے جو صرف فرضی طور پر فائلوں میں موجود تھے جب کہ  جسمانی طور پر ان کا  کہیں بھی وجود نہیں تھا۔ ان ملازمین میں کنٹریکٹ ایگریمنٹ پر وہ لوگ بھی شامل تھے جو اعلیٰ سرکاری افسران کے گھریلو نوکر تھے اور وہ کبھی زندگی میں صاحب جی کے دفتر آئے ہی نہ تھے، بس ان کی  تنخواہ صاحب کے دفتر سے جاتی تھی اور کام وہ صاحب یا ان کی بیٹی یا بیٹے کے گھر پر کرتے تھے۔ مستقل ملازمت کے لیٹرز ملنے پر ان گھوسٹ ملازمین کے نام سے اربوں روپے کے قرضے لیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈیتھ سرٹیفکیٹس جمع کروا کر ان ملازمین کے نام نہاد اہالیانِ خانہ کے لیے بینوولینٹ فنڈ اور گروپ انشورنس کی رقم سے مختلف ہتھکنڈوں سے لمبے چوڑے فنڈز ہتھیائے گئے حالانکہ وہ نو مستقل شدگان قانونی تقاضوں پر کسی بھی لحاظ سے پورے نہیں اترتے تھے۔

یہ بات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے علم میں بھی تھی مگر انھوں نے اس بارے میں کبھی توجہ ہی نہیںدی۔ ایف ای بی اینڈ جی آئی ایف میں بھی آئے روز نت نئی بے ضابطگیوں کے انکشافات منظرعام پر آتے رہتے ہیں مگر نہ تو اس کا  شفاف آڈٹ ہوتا ہے، نہ ہی کبھی اسے احتساب کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک متاثرہ ریٹائرڈ ملازم کی شکایت پر قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ نے ایف ای بی/ جی آئی ایف کے ایم ڈی صادق علی خان سمیت دیگر ذمے دار افسران کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی منظوری تو دی تھی مگر اس میں کچھ با اثر شخصیات کے دباؤ کی وجہ سے تیزی نہیں آ سکی۔ جون 2015ء ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے بھی ایف ای بی کے بل 2015ء کی پہلی اور دوسری ترمیم کی منظوری کے موقع پر اس انکشاف پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے بہبود فنڈ سے ایک فرٹیلائیزر کمپنی میں 4 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جس میں بڑ ے پیمانے پر کک بیکس کی شکایات ہیں۔

بظاہر تو بینوولینٹ فنڈ سرکاری ملازمین اور ان کے پسماندگان کو فوائد بہم پہنچانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ تھے کہ جو لوگ ساری زندگی نوکری کرتے ہیں، وہ دورانِ ملازمت تو کوئی پونجی جمع نہیں کر پاتے اور بمشکل ہی وہ اپنی تنخواہ سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پال سکتے ہیں تو گویا جب وہ ریٹائرمنٹ کو پہنچتے ہیں تب تک وہ عمر کے آخری حصہ میں ہوتے ہیں اور جسمانی طور پر اس قابل نہیںہوتے کہ کوئی نوکری یا کاروبار کر سکیں چنانچہ ریٹائر ہونے پر ان کے پاس اتنی رقم ضرور ہونی چاہیے جسکے سہارے ان کا بڑھاپا بآسانی کٹ جائے اور وہ اولاد کی محتاجی سے بچ جائیں، اسی غرض سے ایف ای بی اینڈ جی آئی ایف جیسا ادارہ قائم کیا گیا اور اس کے لیے باقاعدہ ایک ایکٹ بھی بنایا گیا۔

جب اس فنڈ کی رقم اربوں میں جمع ہونے لگی تو اس پیسے کو مزید دگنا، چوگنا کرنے کے لیے اس کے تحت ایک بورڈ آف ٹرسٹی وجود میں لایا گیا تا کہ قانونی طور پر وہ بینوولینٹ فنڈ سے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کر کے اس کے ذریعے حاصل ہونے والے منافع کو بھی متعلقہ ملازمین اور ان کے خاندان کی بہبود پر خرچ کر سکے، مگر چوپٹ راج کی انتہا دیکھئے کہ سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع تو دور کی بات، سرکاری ملازمین کو ان کی  اصل کٹوتی شدہ رقم سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور ملازمین کے احتجاج کے باوجود انہیں ان کی جائز رقم ریٹائرمنٹ اور مرنے پر بھی ادا نہیں کی جا رہی۔

ایف ای بی ایف/ جی آئی کا فنانشل ریلیف ایسے ملازمین جو دورانِ ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد 70 سال کی عمر کے اندر وفات پا جاتے ہیں، کے پسماندگان کو دیا جاتا ہے اور یہ فیملی کے لیے فکس کی ہوئی رقم ہر ماہ ادا کی جاتی ہے جب کہ  آرمی میں ریٹائرمنٹ پر پوری بینوولینٹ رقم معہ منافع کے ایک بار ہی مل جاتی ہے۔ ایف ای بی ایف/ جی آئی کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ یہ فنانشل ریلیف تمام ریٹائرڈ ملازمین کو نہیں دیا جا رہا بلکہ صرف انہیں ملتا ہے جن کی سروس مہاکلاکاری پر مبنی رہی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن ملازمین کا طاقتور سروس ریکارڈ نہیں ہوتا ان لاوارثوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے جب کہ  حقیقت تویہ ہے کہ جو فنڈ انہیں دیا جائے گا وہ تو ان ھی کا پیسہ ہے جو ان کی تنخواہ سے کاٹا گیا تھا نہ کہ یہ پیسہ انہیں سرکاری خزانے یا آئی ایم ایف کے قرضے کی رقم سے ادا کیا جانا ہے۔

اس طرح کا امتیازی سلوک نہ تو ہمارے مذہب میں ہے، نہ ہی ہمارے آئین میں، کہ ایک شہری کو تو اے کلاس کی سہولیات و مراعات سے نوازا جائے جب کہ  دوسرے شہری کو اس سے یکسر محروم رکھا جائے۔ 1973ء کے آئین کا آرٹیکل 25(1) پاکستان کے شہریوں کو مساوی حقوق دیے جانے کی وکالت کرتا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے کیس نمبر 1185 ایس سی ایم آر،1996ء کے فیصلے کا حوالہ تمام سرکاری ملازمین پر صادق آتا ہے کہ ’’یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جو انصاف اور احسن حکمرانی کا تقاضا کرتا ہے اور یہ کہ اس فیصلے کا فائدہ ان سول سرونٹس کو بھی پہنچنا چاہیے جو اس میں فریق نہیں ہیں۔

بجائے اس کے کہ وہ ٹربیونل اور دیگر قانونی اداروں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوں، اور جیسا کہ آئین میں درج ہے کہ ’’قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور مساوی قانونی تحفظ کے مستحق ہیں‘‘، تو پھر کیوں ایف ای بی / جی آئی ملازمین کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، یہ مطلقاً توہین عدالت و توہین آئین کے ساتھ ساتھ توہین ملازمین بھی ہے۔ بینوولینٹ فنڈ اور فنانشل ریلیف کے کرتا دھرتا صرف یہ بتا دیں کہ اگر 70 سال کی عمر کے بعد کوئی ملازم بقیدحیات رہے اور اس کی ملازمت یا دیگر ذرائع بھی نہ ہوں تو وہ کیسے زندہ رہیگا جب اسے اس کے حقوق سے محروم اور ضروری مراعات سے بھی عاری کر دیا جائے؟

سنا ہے کہ فیڈرل ایمپلائز فنڈ اینڈ گروپ انشورنس آفس سے ایک پروانہ (نمبری211 / ایف ٹی او/ ایڈمن/ 2006 / بی ٹی) جاری ہوا ہے جسکے مطابق ایسے ملازمین کو جو 25 سال کی سروس کے بعد ریٹائرمنٹ پر چلے گئے تھے اور جو آئندہ جائینگے‘ انہیں بینوولینٹ فند سے ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر فیئرویل گرانٹ دی جائے گی اور ایف ای بی ایف / جی آئی رولز 1972ء کے ضابطہ24- کے تحت یہ گرانٹ ان کے لیے ہو گی جو یکم جنوری 2006ء کو یا اس کے بعد ریٹائر ہونگے۔ بینوولینٹ فنڈ کے منیجر صاحبان ذرا یہ بھی وضاحت کر دیں کہ ’’رولز 1972ء‘‘ میںایسا کہاں درج ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر34 سال بعد یہ مہربانی کس لیے؟ یعنی 1972ء کے بجائے 2006ء کو؟ رولز 1972ء میں واضح لکھا ہے کہ یہ ضوابط (تمام رولز) بیک وقت لاگو ہونگے، یعنی ادارہ کا کوئی بھی قانون یا گرانٹ وغیرہ 1972ء سے قابلِ شمار ہو گا۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 2006ء سے قبل ریٹائر ہونیوالوں کی تنخواہ اس کے بعد ریٹائر ہونیوالوں سے کافی زیادہ کم ہے اور یہ اولڈ ایج گورنمنٹ ایمپلائز کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے جو 2006ء کو یا اس کے بعد ریٹائر ہوئے اور اس میں ان ملازمین کا کیا قصور ہے جو 2006ء سے پہلے ریٹائر ہو گئے اور انہیں تمام متذکرہ مراعات سے محروم کر دیا گیا۔ بینوولینٹ فنڈ میں ملازمین کے اربوں ڈالر پڑے ہیں اور اسی پیسہ سے بورڈ آف ٹرسٹی مزید اربوں روپے منافع کما رہا ہے مگر اس فنڈ کے اصل مالکان کو اس سے محروم کیونکر رکھا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک کئی مستحق ملازمین کو بہبود فنڈ سے فریضہ حج ادا کرنے کا موقع بھی مل جاتا تھا مگر 2011ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے خلاف بھی فتویٰ صادر کر دیا کہ بینوولینٹ فنڈ سے ملازمین کی حج ادائیگی شرعی طور پر درست نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ فیڈرل ایمپلائز فنڈ والے کسی بھی ملازم یا اس کے اقارب کو کوئی دھیلہ دینا ہی نہیں چاہتے۔ یہی شکایت دریا خان سے ہمارے ایک دوست نے بھی کی ہے کہ محکمہ تعلیم و پولیس کے حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین کے زیرِ تعلیم بچوں کے لیے بینوولینٹ فنڈ کے تمام مراحل کئی سالوں سے مکمل ہو چکے ہیں مگر فنڈز کا اجرا مسلسل التواء کا شکار ہے اور حکام بھی اس بات کا کوئی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ حکام صرف بڑے بڑے اعلانات کرتے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں ہوتا، اس کی واضح مثال وزیر اعظم کا وہ اعلان ہے۔

جس میں انھوں نے دورانِ ملازمت وفات پانے والے سرکاری ملازم کے پسماندگان کے لیے امدادی پیکیج کی منظوری دی تھی اور گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازم کی وفات کی صورت میں امدادی رقم 25 لاکھ روپے کر دی گئی جب کہ  گریڈ 17 کے متوفی ملازم کے پسماندگان کو 40 لاکھ، گریڈ 18 سے 19 کے لیے 80 لاکھ اور گریڈ 20 اور بالائی گریڈز کے متوفی ملازم کے پسماندگان کو 90 لاکھ روپے ملنے تھے۔ سکیورٹی امور کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہونے والے گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازم کے پسماندگان کو 30 لاکھ، گریڈ 17 کے لیے 50 لاکھ، گریڈ 18 اور 19 کے لیے 90 لاکھ اور گریڈ 20 اور باقی بالائی گریڈز کے متوفی ملازم کے پسماندگان کو ایک کروڑ روپے مدد دی جانی تھی۔

سروس کے دوران وفات پانے والے سرکاری ملازم یا سکیورٹی امور میں جاں بحق ہونے والے ملازم کے پسماندگان کو متوفی ملازم کی 60 سال کی عمر تک مکمل تنخواہ اور الاؤنس ملنا تھے، سالانہ ترقی اور تنخواہوں پر نظر ثانی کا فائدہ بھی دیا جانا تھا جب کہ  وفات کے 5 سال تک سرکاری گھر اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہونا تھی یا ریٹائرمنٹ کی عمر تک گھر رکھاجا سکنا تھا۔ متوفی کے بچوں کے لیے تعلیم مفت ہونا تھی، گریڈ 1 سے 15 تک کی ملازمت متوفی کی بیوہ یا رنڈوے، بیٹی یا بیٹے کو ملنا تھی اور سکیورٹی معاملات میں جاں بحق ہونے والے ملازم کے پسماندگان کو بینوولینٹ فنڈ سے 2 لاکھ سے 5 لاکھ امداد الگ سے ملنا تھی جو تا حال صرف اعلان کی حد تک محدود ہے۔

بیشمار ریٹائرڈ ملازمین ایسے ہیں جو آج بینوولینٹ فنڈ اور مطلوبہ مراعات کے لیے دربدر ہیں مگر ایف ای بی ایف ان کی فریاد سننے کو تیار ہی نہیں۔ اور تو اور خود پرائم منسٹر آفس کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ اسلم بھٹی نے بھی ہمیں خط لکھ کر یہی گلہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم، سیکرٹری پارلیمنٹ، گورنمنٹ ریٹائرڈ پرسنز ایسوسی ایشن اور بینوولینٹ/ انشورنس فنڈ آفس کو لاتعداد درخواستیں ارسال کر چکے ہیں مگر کسی نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اس صورتِ حال میں ہم ایف ای بی والوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں سے بینوولینٹ فنڈ کی ماہانہ کٹوتی گورنمنٹ کی طے شدہ پالیسی کے مطابق ہو رہی ہے یا نہیں؟ کیا گورنمنٹ ملازمین کی گروپ انشورنس کی کٹوتی ان کی تنخواہوں سے گورنمنٹ کی طے شدہ پالیسی کے مطابق ہو رہی ہے یا نہیں؟ کیا دورانِ ملازمت یا ریٹائر ہونے کی 70 سال کی عمر میں فوت ہونے والے کے خاندان کو گروپ انشورنس فنڈ کی رقم 40 فیصد کے حساب سے ادا کی جا رہی ہے یا نہیں اور اس کے خاندان کو 21 اپریل 2011ء سے کفن دفن کے لیے دس ہزار روپے بھی دیے جا رہے ہیں یا نہیں؟ کیا 70 سال کے بعد ریٹائرڈ گورنمنٹ ملازمین کو موت نہیں آتی یا آ جائے تو ان کو کفن دفن کی ضرورت نہیں رہتی؟ کیا 70 سال کی عمر کے بعد ریٹائرڈ ملازمین کی ضروریاتِ زندگی ختم ہو جاتی ہیں؟

کیا طبی وجوہات پر معذور ہونے والے ملازمین (دورانِ سروس) کی ریٹائرمنٹ پر (کلاس اے) کو فنڈ کی 80 فیصد رقم ادا کی جا رہی ہے یا نہیں؟ کیا معذور ریٹائرڈ ملازمین کو تا حیات 80 فیصد ماہانہ بینوولینٹ گرانٹ دی جا رہی ہے یا نہیں؟ کیا دورانِ ملازمت وفات پانیوالے ہر ملازم کے خاندان کو انشورنس گرانٹ دی جاتی ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد کیوں نہیں؟ جو ریٹائرڈ گورنمنٹ ملازم 70 سال کی عمر کے بعد بیماری یا ایکسیڈنٹ کی صورت میں معذور ہو جاتا ہے۔

اس کے لیے بینوولنٹ/ انشورنس فنڈ کے دفتر سے کیوں مراعات نہیں؟ کیا بینوولینٹ فنڈ دفتر نے اپریل 2011ء سے حاضر سروس/ ریٹائرڈ ملازمین کے ایک بچہ یا بچی کے لیے شادی گرانٹ 50 ہزار روپے دینا شروع کیے ہیں؟ گورنمنٹ ملازمین (ریٹائرڈ) جوکہ 11 اپریل2011ء سے پہلے اپنے بچہ/ بچی کی شادی کر چکے ہیں ان کے بارے بینوولینٹ فنڈ دفتر والوں نے کیا سوچا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ یکم جنوری 2006ء سے گورنمنٹ سروس سے ریٹائرڈ ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور الوداعی گرانٹ دی جا رہی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس سے پہلے انہیں کس بنا پر نظر انداز کیاگیا اور کیوں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بے مقصدکاموں میں اُلجھے حکمرانوں کو اس گھمبیر مسئلے کی جانب بھی فوری توجہ دینی چاہیے اور اس اہم ترین ادارے میں لاوارث ملازمین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے پکڑ کر عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔

اس ادارے کا عالمی شہرت کے حامل آڈٹ کرنیوالے ادارے سے آڈٹ کرایا جائے اور جو بھی گھپلے ہوئے ہیں، وہ ان ڈاکہ مارنے والوں سے واپس لیے جائیں اور اس کی منصفانہ تقسیم کے لیے کوئی ایسا ٹھوس اور قابل عمل نظام وضع کیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی شخص ایک پائی بھی ناجائز وصول نہ کر سکے اور ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے لواحقین اپنے جائز حقوق سے قانونی طور پر مستفید ہو سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔