مبارک بیگم ابھی ’’زندہ‘‘ ہیں

رئیس فاطمہ  پير 3 اگست 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’’ماضی کی نامور گلوکارہ مبارک بیگم آج کل انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں اور موسیقی کے شائقین سے مالی مدد کی طالب ہیں۔‘‘

اس خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور میرے ذہن میں ان کے ناقابل فراموش گیت اور غزلیں گونج اٹھیں۔ مخدوم محی الدین کی غزل آپ کی یاد آتی رہی رات بھر۔ جس نے بھی سنی ہوگی وہ اس کے سحر سے آج بھی نہ نکل سکا ہوگا۔ اسی طرح فلم ’’ہمراہی‘‘ کا ڈوئیٹ ’’مجھ کو اپنے گلے لگا لو اے میرے ہمراہی‘‘ اپنے وقت کا مقبول ترین اور مشہور گیت تھا۔ ایک عرصے تک میں اس مغالطے میں رہی کہ یہ آواز گیتا دت کی ہے۔ صرف اسی گیت پہ کیا منحصر ہے۔ مبارک بیگم کے کریڈٹ پہ بے شمارگیت ہیں۔جن میں سے بعض نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن آج جب کہ وہ تقریباً پچھتر سال کی ہوچکی ہیں اپنے شاندار ماضی کے ساتھ ممبئی کے ایک پسماندہ علاقے جوگیشوری میں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جو انھیں مشہور فلمی شاعر، جاوید اختر اور سنیل دت کی کوششوں سے مل سکا۔ یہاں وہ اپنی چالیس سالہ بیٹی شفق بانو اور ایک بیٹے کے ساتھ مقیم ہیں۔ بیٹی کو رعشہ کی بیماری ہے۔ بیٹا ایک جگہ ڈرائیور ہے۔ حکومت کی طرف سے صرف 700 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے۔انھوں نے اس قدر کربناک حالات میں جسم و جاں کا رشتہ کیسے برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ہر صاحب دل اور صاحب احساس فردکرسکتا ہے۔

فلمی دنیا بھارت کی ہو یا پاکستان کی بڑی سنگدل ہے۔ یہاں چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔ گویا شوبزکی دنیا میں بھی سیاست در آئی ہے۔ جہاں قابل اور باصلاحیت لوگوں کو قصیدہ گو کوّوں کا غول انھیں ان کے گھروں تک محدود کرتا ہے۔ کم ظرف اور کم حیثیت لوگوں کو سفارش اور تعلقات کی بنا پر اونچے سنگھاسنوں پر بٹھا دیتا ہے۔ فلمی دنیا کی بے حسی کا نظارہ ہمیں اپنے وطن میں زیادہ نظر آتا ہے۔ بھارت میں ہونے والے ایوارڈ شوز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ لوگ اپنے سینئرز کو نہیں بھولتے۔ اسی لیے ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ کا اجرا ہوا۔ ہر ایوارڈ شو میں کسی نہ کسی سینئر اداکار، اداکارہ، پروڈیوسر یا ڈائریکٹرز کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہوتا ہے اور ایک طرح کی مالی مدد بھی۔ لیکن ان ایوارڈز کے کرتا دھرتا مال دار منتظمین کو کبھی مبارک بیگم کا خیال کیوں نہیں آیا؟

یہ بے رحمی اور سفاکی بھارتی فلم انڈسٹری کے چمکتے چہرے پہ ایک سیاہ دھبہ ہے۔ آخر کیوں ’’لائف ٹائم اچیومنٹ‘‘ ایوارڈ کے حقدار، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن ، ریکھا، دلیپ کمار، ہیما مالنی، شتروگن سنہا، سبھاش گھئی، جاوید اختر، شمی کپور، ششی کپور اور دھرمیندر ہی ٹھہرے؟ بے شک ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ سب تو کروڑ پتی لوگ ہیں۔ فلمی دنیا کے کسی شخص کو اس مبارک بیگم کا خیال تک نہ آیا جو اپنی منفرد گائیکی، نام اورکسمپرسی کی بدولت اس ایوارڈ کی سب سے زیادہ مستحق تھیں۔ حیرت ہے جاوید اختر جوکہ ممبئی کی فلم نگری میں خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بھی کسی کی توجہ اس جانب مبذول نہیں کروائی! سچ ہے ’’جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں۔ اور جب یہ ہنستا گاتا بہاروں کا موسم بیت جاتا ہے تو وقت پڑنے پر کوئی مدد کو نہیں آتا۔‘‘

مبارک بیگم راجستھان میں پیدا ہوئی اور صرف دس برس کی عمر میں ممبئی آگئیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے مقبول گلوکاروں اور میوزک ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا اور بڑے مقبول نغمے فلمی دنیا کو دیے۔ انھوں نے بطور گلوکارہ، لتا، سمن کلیان پور، سدھا ملہوترا، بندے حسن، کشور کمار اور محمد رفیع کے ساتھ بہت سے گیت اور قوالیاں ریکارڈ کروائیں۔ ان کی آواز منفرد یکتا اور روح پرور تھی۔ ان کے گانے کا انداز بھی جداگانہ تھا۔ ایک خاص بات یہ کہ وہ اشعار کو محسوس کرکے گاتی تھیں یہی وجہ تھی کہ ان کے گائے ہوئے گیت دل پہ اثر کرتے تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ خود اس کیفیت اور احساس سے گزر رہی ہوں، جس سے فلم کی ہیروئن گزر رہی تھی۔ شاعر نے اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ موسیقار نے اسے سُروں میں ڈھالا اور مبارک بیگم نے ان جذبات کو اپنی آواز دی۔ یوں تو ایک طویل فہرست ہے ان کے گانوں کی وہ 1950 سے 1980 تک گاتی رہیں۔ لیکن ان کی زبردست مقبولیت کا زمانہ 1960سے 1972 تک کا ہے، جب انھوں نے بے شمار لازوال گیت گائے۔ مبارک بیگم کی آواز کا سحر ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہے۔ جو سُروں سے پیار کرتا ہو اور موسیقی کا شیدائی ہو۔ یہاں میں ان کے دو گیتوں کا ذکر ضرور کروں گی جو سننے والے کو زماں و مکاں کی قید سے آزاد کر دیتے ہیں۔ انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ پہلے گیت کے بول ہیں:

کبھی تنہائیوں میں یوں ہماری یاد آئے گی
اندھیرے چھا رہے ہوں گے کہ بجلی کوند جائے گی

دوسرا گیت:

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر

ان دونوں گیتوں کو سکون سے آنکھیں بند کر کے سنیے اور محسوس کیجیے تو یوں لگتا ہے جیسے دشت تنہائی سے ایک مظلوم اور دکھ بھری آواز آرہی ہے۔ غیر محسوس طریقے سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ہر بار یہ گیت ایسا ہی تاثر چھوڑتے ہیں۔ جہاں تک پہلے گیت کی بات ہے تو بقول کیدارناتھ ’’یہ گیت وقت سے آگے کی چیز ہے‘‘ اس فلم کا نام تھا ’’ہماری یاد آئے گی‘‘ کیدارناتھ اس فلم کے ڈائریکٹر تھے، جوکہ گیت نگار اور پروڈیوسر بھی تھے۔ اسٹوڈیو میں اس گیت کی ریکارڈنگ کر رہے تھے، انھوں نے پورا گانا سنا، وہ خاموش تھے۔ کبھی آنکھیں بند کرلیتے تھے اور کبھی کھول دیتے تھے۔ ریکارڈنگ ختم ہوئی تو انھوں نے کہا ’’اس گانے نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ یہ گیت وقت سے آگے کی چیز ہے۔‘‘ آج بھی موسیقی کے شائقین یہی محسوس کرتے ہیں۔ مبارک بیگم نے بڑے بڑے موسیقاروں کی دھنوں کو اپنی آواز دی۔ خیام، نوشاد علی، ایس ڈی برمن، شنکر جے کشن، سلیل چوہدری، مدن موہن اور کلیان جی آنند جی جیسے نامور سنگیت کار ان کی آواز کی گہرائی، سُر تال کی پہچان اور الفاظ کو الگ الگ محسوس کرکے ادا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔

آج کہنے کو مبارک بیگم زندہ ہیں۔ لیکن لاچار اور بے سہارا۔ اس حد تک کہ انھوں نے لوگوں سے خود مدد کی درخواست کی ہے۔ وہ اب بھی گانے کے لیے بلائی جاتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ انھیں کام ملے۔ وہ گاسکیں اور کچھ کما سکیں۔ انھوں نے غرورو تکبر اور جھوٹی انا کو ایک طرف رکھ کر لوگوں سے مدد کی اپیل کی ہے اور اپنے بینک اکاؤنٹ نمبرکی تفصیلات جاری کردی ہیں۔ پتہ نہیں ممبئی کی فلم نگری جہاں بڑے بڑے ارب پتی ڈائریکٹر، موسیقار اور اداکار رہتے ہیں۔ ان تک مبارک بیگم کی آواز اور اپیل پہنچے گی یا نہیں؟

دراصل مبارک بیگم کو بھارتی فلمی دنیا کی اندرونی گندی سیاست مار گئی۔ جب انھوں نے گانا شروع کیا تو لتا منگیشکر اپنی جگہ بنا چکی تھیں۔ فلم انڈسٹری کی ظالمانہ اور منافقانہ اندرونی سیاست اور بارسوخ خواتین گلوکاراؤں کے آنچل میں لپٹی سنگدلی اور رقابت نے بہت سی گلوکاراؤں کے چراغ گل کردیے۔ جن میں زہرہ بائی انبالہ والی، شمشاد بیگم، سدھا ملہوترہ، سمن کلیان پور اور ہیم لتا سر فہرست ہیں۔ بنگلہ دیشی گلوکارہ رونا لیلیٰ پہ بھی زد پڑی اور ان کا چراغ بھی بھارت میں جلد ہی گل ہوگیا۔

بمل رائے کی مشہور فلم ’’مدھومتی‘‘ 1958 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، لیکن آج بھی اس فلم میں مبارک بیگم کا گایا ہوا یہ گیت موسیقی کے شائقین کو یاد ہے ’’ہم حال دل سنائیں گے، سنیے کہ نہ سنیے‘‘ کلاسیکل بندش میں یہ پراثر گیت مبارک بیگم کا سرمایہ ہے۔ اسی طرح فلم ’’دیوداس‘‘ میں ایس۔ڈی برمن کی موسیقی میں یہ گیت بھی کوئی نہیں بھلا سکا۔

وہ نہ آئیں گے پلٹ کر انھیں لاکھ ہم بلائیں
میری حسرتوں سے کہہ دو کہ وہ یہ خواب بھول جائیں

ان کے علاوہ مبارک بیگم نے محمد رفیع اور بندے حسن کے ساتھ مل کر یہ زبردست قوالی بھی گائی جسے شائقین میں خوب پذیرائی ملی۔ ’’محلوں میں رہنے والے ہمیں تیرے در سے کیا‘‘ اور آشا بھونسلے کے ساتھ گایا ہوا یہ دوگانہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے ’’ہمیں دل دے کے سوتن گھر جانا‘‘ مبارک بیگم نے غزل، گیت، قوالی، نعت ہر جگہ اپنا لوہا منوایا۔ لیکن بہت سے لوگوں کو پتہ بھی نہیں کہ وہ ابھی زندہ ہیں یا زندہ درگور ہیں۔ جو کچھ مبارک بیگم کے ساتھ بھارت میں ہو رہا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں جینوین ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ قبضہ گروپ کا استحصالی رویہ۔ تمام ادبی اداروں بشمول آرٹس کونسلوں اور سرکاری اداروں میں سفارش، قصیدہ اور ’’جو حکم سائیں‘‘ کہنے والے۔ زہر کو امرت ثابت کرنے والے، نااہلی کے باوجود ادبی اداروں کے سربراہوں کی کرسی پہ براجمان ہونے والے۔

اماوس کو چاندنی ثابت کرنے والے اور سائیں کے پیر پکڑنے والے۔ تھری پیس سوٹ اور کلف لگی شلوار قمیض پہننے والے۔ سر پہ سائیں کی عطا کردہ طرۂ امتیاز سجانے والے۔ ان سب کا ٹارگٹ ایک ہے کہ کسی طرح جوہر قابل کو نیست و نابود کردو، تاکہ نااہلوں کی نااہلی سے کوئی واقف نہ ہو۔ ہر جگہ قبضہ گروپ موجود۔ خواہ ممبئی کی فلم انڈسٹری ہو یا پاکستان میں ادبی اداروں کی زبوں حالی۔ ہم مبارک بیگم کی حالت پہ آنسو بہا رہے ہیں لیکن ہمارے وطن میں فنکاروں کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے۔ اس پہ کوئی قلم نہیں اٹھاتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔