سیاست دانوں کی تشویش

ظہیر اختر بیدری  پير 3 اگست 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پچھلے کچھ دنوں سے حکمران طبقات اور اہل سیاست کی طرف سے ایک جیسے بیانات تسلسل سے آ رہے ہیں، جن میں اس بات کو دہرایا جا رہا ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ ہی سب سے بالادست ادارہ ہے، جس کی بالادستی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، نہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی اسی قسم کا بیان دیا ہے، وزیر اعظم نے پچھلے دنوں پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کا جو اجلاس بلایا تھا اس اجلاس میں بھی پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار کیا گیا، اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد لانے کی بات بھی کی گئی۔ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ ہی سب سے بالادست ادارہ ہوتا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس حقیقت کے باوجود پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کر رہا ہے کہ اچانک پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار کی وجہ کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کئی بار پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کیا گیا، یعنی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر فوجی حکومتیں قائم کی گئیں اور ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت ان قومی حکومتوں کی حمایت کی، اس طرح ہماری پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کی جاتی رہی۔

دنیا میں جہاں بھی جمہوری حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ عوام کی حمایت سے قائم ہوتی ہیں اور انھیں عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے، ماضی قریب میں وینزویلا میں جمہوری حکومت کو چیلنج کیا گیا تو لاکھوں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور جمہوری حکومت کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہونے کی وجہ غیر جمہوری طاقتوں کو ناکام ہونا پڑا۔ حکومت کے اعلیٰ حلقوں وغیرہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار بلاشبہ جمہوری روایت بھی ہے اور جمہوری اداروں کا فرض بھی ہے لیکن اس حوالے سے جو سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے جمہوری اور پارلیمنٹ کو چیلنج کیا گیا۔ کیا عوام نے اس کے خلاف سڑکوں پر آ کر غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی؟ اگر عوام نے ایسا نہیں کیا اس کے برخلاف غیر جمہوری قوتوں کی حمایت کی تو اس کی وجہ کیا تھی؟ پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار کرنے والے عوام کے اس رویے کے پس منظر کو سمجھتے ہیں؟ کیا عوام کی حمایت کے بغیر محض چند وزرا اور سیاستدانوں کے پارلیمنٹ کی بالادستی پر اصرار سے پارلیمنٹ واقعی بالادست ہو سکتی ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں جن پر ہمارے سیاستدانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہمارے صف اول کے سیاستدانوں نے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف اسٹینڈ لینے کے بجائے غیر جمہوری حکمرانوں کا خیر مقدم کیا اور مٹھائیاں بانٹیں۔ اگر صف اول کے سیاستدانوں میں اس قدر شدید تضادات ہوں اور عوام کی حمایت بھی حکومتوں کو حاصل نہ ہو تو پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رہ سکتی ہے۔دنیا کے مشہور انقلاب فرانس سے پہلے فرانس میں بادشاہی نظام قائم تھا لیکن بادشاہ لوئی نے اپنی بادشاہت کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھانے کے لیے ایک پارلیمنٹ قائم کی تھی۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں تحریک اصلاح مذہب اور تحریک احیا علوم کی بدولت یورپ کو پاپائے روم کے ذہنی استبداد سے نجات ملی تو زندگی کے ہر شعبے میں بیداری پیدا ہونے لگی۔ پاپائیت یعنی ریاست پر مذہبی بالادستی کو ختم کرنے میں بادشاہ اور اس کے رفقا نے عوام کا ساتھ دیا لیکن فرانس میں مذہبی اور شخصی حکمرانیوں کے خلاف جو تحریک اٹھی تھی اس کا رخ اب بادشاہت کے خلاف بھی ہو گیا تھا، اس صورتحال نے بھی مطلق العنان حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ نام نہاد ہی سہی جمہوریت کا سہارا لیں۔

جمعیت طبقات کے نام سے 1302ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا گیا تھا اس پارلیمنٹ کا حال یہ تھا کہ اس کی ساری طاقت رؤسا، امرا اور پادریوں کے ہاتھوں میں تھی۔ جب کبھی بادشاہ کو روپے اور رعایا کی ضرورت پیش آتی وہ اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیتا۔ 1614ء کے بعد 175 سال تک پارلیمنٹ کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔ 175سال بعد 1789ء میں ورسائی کے مقام پر پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیا۔ اس پارلیمنٹ میں امرا اور رؤسا کے 285 نمایندے شامل تھے، پادریوں کے 308 اور عوام کے 621 نمایندے شریک ہوئے، لیکن اس پارلیمنٹ میں فیصلے اکثریت کے حوالے سے نہیں کیے جاتے تھے بلکہ طبقات کی بنیاد پر کیے جاتے تھے۔ اس لیے پارلیمنٹ ایک ڈمی کے علاوہ کچھ نہ تھی۔امرا، رؤسا اور پادریوں کی بالادستی پر مشتمل اس پارلیمنٹ کو عوام نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی ایک علیحدہ پارلیمنٹ تشکیل دی، چونکہ بادشاہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اس عوامی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی لہٰذا عوامی نمایندوں نے 20 جون کو ایک محصور سیشن کورٹ میں اپنی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کیا، یہیں سے انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔

انقلاب فرانس اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود انقلابوں کی تاریخ میں منفرد اس لیے ہے کہ عوام نے اس انقلاب کے ذریعے صدیوں پر پھیلے ہوئے ظالمانہ جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا، جو عوام کو اپنے آہنی ہاتھوں میں جکڑا ہوا تھا۔ جاگیرداروں کے سر فرانس کی سڑکوں پر نشان عبرت بنے پڑے تھے۔ہم نے اپنے کالم کا آغاز پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے حکمرانوں کے بیانات سے کیا تھا۔ اس صورتحال میں اہل سیاست کی تشویش غیر منطقی نظر آتی ہے۔پاکستان میں منتخب حکومتوں خواہ فوج نے ہٹایا ہو یا سویلین صدور نے، ہمیشہ حکومتوں کو ہٹانے کا سبب حکمرانوں کی بدعنوانیاں ہی بتایا گیا۔ جن حکومتوں کا دامن بدعنوانیوں کے الزامات سے پاک ہوتا ہے وہ نہ کسی غیر سیاسی طاقت سے خوفزدہ ہوتی ہیں نہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے مستقبل سے انھیں تشویش رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے حکمرانوں کے دامن کرپشن سے پاک ہوں لیکن میڈیا میں اربوں روپوں کی کرپشن کی جو خبریں آ رہی ہیں ان افراد اور اداروں کا تعلق یا تو مرکزی حکومت سے ہے یا صوبائی سے۔ ابھی اس حوالے سے نیب نے ایک رپورٹ میں جو سپریم کورٹ میں پیش کی ہے، 150 افراد پر 230 ارب کی کرپشن کا الزام لگایا ہے، دوسری رپورٹ میں 480 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام لگایا گیا ہے۔ کیا یہ ہماری حکومتوں کی کمزوری نہیں کہ وہ اپنے اداروں کو اس کھلی لوٹ مار سے نہ روک سکے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔