نامعلوم افراد

اویس حفیظ  منگل 4 اگست 2015
ہمارے ملک میں کم و بیش 9 کروڑ کے قریب ایسے افراد بستے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں اور یہ ’’نا معلوم‘‘ افراد ہمارے معاشرے، ریاست اور اداروں کیلئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ فوٹو: فائل

ہمارے ملک میں کم و بیش 9 کروڑ کے قریب ایسے افراد بستے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں اور یہ ’’نا معلوم‘‘ افراد ہمارے معاشرے، ریاست اور اداروں کیلئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ فوٹو: فائل

اگرچہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ریلیز ہونے سے نامعلوم افراد کا تصور تبدیل ہوگیا ہے اور اب لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ نامعلوم افراد فلم کا ذکر ہو رہا ہے یا ’’منی پاکستان‘‘ یعنی کراچی والے نامعلوم افراد کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں پر میں اپنے کراچی کے احباب سے معذرت خواہ بھی ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ نامعلوم افراد سے ذہن میں سب سے پہلے کراچی ہی کا خیال آتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کا جنم وہیں پر ہوا۔

کراچی سے آنے والی تقریباً ہر خبر میں نامعلوم افراد کا لفظ ضرور استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً کاروباری حضرات کو نامعلوم افراد کی جانب سے بھتے کی پرچی موصول، سیاسی جماعت کا کارکن نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل، نامعلوم افراد نے شہر بھر میں مارکیٹیں بند کروادیں، ہڑتال کے باعث درجنوں گاڑیاں نذر آتش، نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ درج، نامعلوم افراد نے یہ کر دیا، نامعلوم افراد نے وہ کر دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں ہر جرم ہی نامعلوم افراد کرتے ہیں یا پھر یہ پولیس کا ایجاد کردہ ایک آسان حربہ ہے کہ ہر جرم ’’نامعلوم افراد‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا جائے اور پھر سکون کیا جائے۔

اگرچہ یہ اصطلاح اپنے اندر منفی معنی سموئے ہوئے ہے مگر حقیقت تو یہ ہے یہ ایک فکر انگیز و تلخ سچ کا نام ہے۔ عمومی طور پر نامعلوم افراد سے مراد وہ اشخاص لیے جاتے ہیں جن کی شناخت نہ ہوسکے لیکن اس کیلئے کچھ عرصہ قبل پیش کی جانے والی نادرا کی یہ رپورٹ دیکھنا لازم ہے جس کے مطابق 31 دسمبر 2014ء تک بشمول گلگت، بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر پورے ملک میں محض 9 کروڑ 95 لاکھ 20 ہزار 559  قومی شناختی کارڈ جاری کئے جبکہ ایک کروڑ 91  ہزار بچوں کی پیدائش کا اندراج ہوا۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو نادرا یعنی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی جیسے حساس ملکی ادارے کے پاس بھی پورے ملک کے صرف 11 کروڑ 86 لاکھ افراد کا ریکارڈ موجود ہے۔ حالانکہ اس وقت ملک کی آبادی تقریباً 20 کروڑ کو چھو رہی ہے اور اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں کم و بیش 9 کروڑ کے قریب ایسے افراد بستے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں اور یہ ’’نا معلوم‘‘ افراد ہمارے معاشرے، ریاست اور اداروں کیلئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ جس ملک میں تقریباً نصف آبادی بغیر کسی دستاویزی شناخت کے گھومتی ہو، وہاں پر جرائم کی روک تھام کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟

یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن 11 کروڑ افراد کا ریکارڈ موجود ہے اس میں سے بھی بہت سے افراد کی شناخت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہے کیونکہ نادرا کے کئی افسران جعل سازی کے ذریعے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے جرم میں پکڑے جاچکے ہیں۔ رواں سال جنوری میں کوئٹہ کی احتساب عدالت نے نادرا کے دو سینیئر افسران کو جعلی شناختی کارڈ جاری کرنے کے جرم میں 7 سال قید بہ مشقت اور 80 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی تھی۔ دوسری طرف نادرا کی طرف سے بھی شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے اور کچھ کارڈز بلاک بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن اس سے حقیقت اور بھی گھمبیر ہوجاتی ہے کہ ملک میں موجود کسی محکمے کسی ادارے کے پاس 9 کروڑ سے زائد افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، کسی کے انگوٹھوں کے نشان نہیں ہیں، ان کی تصاویر نہیں ہیں اور سب سے بڑھ کر حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ’’بے شناخت و نامعلوم افراد‘‘ اِسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں چھوٹے سے بچے کو نرسری کلاس میں داخلہ لینے کیلئے بھی والد یا سرپرست کا شناختی کارڈ جمع کروانا ہوتا ہے اور کسی بھی شہری کو بینک میں اکائونٹ کھلوانے کیلئے یا بسا اوقات کوئی چیک کیش کروانے کیلئے بھی اپنا شناختی کارڈ نمبر دینا پڑتا ہے اور تو اور اب تو کرائے پر مکان کے حصول کیلئے بھی شناختی کارڈ ایک لازم و ملزوم چیز بن چکا ہے۔ ایسے میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حوالے سے آنے والی خبروں میں بہت حد تک صداقت معلوم ہوتی ہے مگر یہاں پر یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ یہ نامعلوم افراد اس ملک میں اپنا گذارہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیسے یہ یہاں پر پیسوں کا لین دین کر رہے ہیں؟ یہ کن مقامات پر یہ اپنا بسیرا کیے ہوئے ہیں؟ ذہنوں میں اٹھنے والے یہ تمام سوال اگرچہ حکومت سے جواب کے متمنی ہیں مگر ہمیں خود بھی اپنے اردگرد ایسے نامعلوم افراد پر نظر رکھنی چاہئے اور بقول وزیر داخلہ

’’اگر کوئی پچاس روٹیاں بھی تندور سے لیتا ہے تو اس کی اطلاع انسداد دہشت گردی فورس کو دینی چاہئے‘‘۔

اب ذرا ایک نظر پاکستان سے ڈیڑھ گنا زیادہ آبادی والے ملک امریکا پر ڈالیں جس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت 31 کروڑ سے زائد ہوچکی ہے۔ وہاں پر نہ صرف تمام شہریوں کا بنیادی ریکارڈ بلکہ ان کی بلڈ ہسٹری اور ڈی این اے وغیرہ بھی قومی ریکارڈ کا حصہ ہے اور یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ جرائم پر قابو پانے اور دہشت گردی جیسے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے اگر کوئی چیز سب سے زیادہ کارآمد ہے تو وہ یہی بنیادی معلومات ہے۔ اگر ہمارے یہاں پر بھی حکومت جرائم و دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو اسے فی الفور نادرا جیسے قومی ادارے کے ریکارڈ کو فوری طور پر اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔

اس مقصد کیلئے نئی مردم شماری کروانا ہوگی تاکہ ایک طرف درست آبادی کا بھی علم ہوسکے اور شناختی کارڈ میں بھی جدت لانا ہوگی اور میڈیکل آئی ڈی کارڈ کی طرز پر کسی آئی ڈی کارڈز کا اجراء کرنا ہوگا تاکہ ریاست کے ہر فرد کی بلڈ ہسٹری و ڈی این اے  قومی ریکارڈ کا حصہ بن سکے اور ضرورت پڑنے پر محض چند لمحوں میں دستیاب ہو سکے۔

کیا آپ بھی ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مردم شماری کو ضروری سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔