ظالمو بلڈوزر آ رہا ہے

وسعت اللہ خان  منگل 4 اگست 2015

یہ تو نہیں معلوم کہ شریف حکومت کی ترجیحاتی فہرست میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ، اقتصادی بحالی ، پاک چائنا اکنامک کاریڈور ، ٹیکس اصلاحات ، عدلیہ کی استرکاری اور سالانہ دریائی سیلابوں سے نجات کے منصوبوں کی ترتیب کیا ہے۔مگر خوش آیند بات یہ ہے کہ اب غیر قانونی بستیوں اور تعمیرات کی مسماری بھی ترجیحاتی فہرست میں شامل ہوچکی ہے۔اس کا آغاز گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے آئی الیون سیکٹر پر قائم غیر قانونی بستی ڈھانے سے ہو چکا۔امید ہے کہ یہ سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہو کے وہیں پے ختم تک نہیں ہوگا بلکہ اس شکنجے میں پورا ملک کسا جائے گا۔

اس تناظر میں یہ بات افسوسناک ہے کہ حزبِ اختلاف کی چند جماعتوں اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے غیر قانونی بستیوں اور تعمیرات کے خلاف حکومت کی مخلصانہ مہم کا ساتھ دینے کے بجائے قابض عناصر کے حق میں لیڈری لشکانے اور ذمے دار قومی اور غیر ذمے دار سوشل میڈیا میں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے تصویری و بیانیہ جنگ چھیڑ دی۔

بہانہ یہ تراشا گیا کہ ان بے چاروں میں اتنی مالی سکت نہیں کہ وہ کہیں بھی اپنا گھر بنا سکیں۔مگر اس بات سے ہم جیسوں کو کچھ حوصلہ ملا کہ حکومت اس سوچی سمجھی موقع پرست پیشہ ور مظلومیت کے جھانسے میں نہیں آئی اور اس نے بلا مصلحت قانون کی عمل داری کے قیام کی روشن مثال قائم کرتے ہوئے آئی الیون کی بستی کا مسماری منصوبہ کامیابی سے مکمل کر لیا۔

اب مجھ ایسے لوگوں کاقومی فرض بنتا ہے کہ ایسی غیر قانونی آبادیوں اور تعمیرات کی نشاندھی کریں تاکہ حکومت نے جو کام شروع کیا ہے وہ قومی سطح پر جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچے۔تاکہ اس سے فراغت پا کے حکومت اتنے ہی ضروری دیگر کاموں پر بھی توجہ دے سکے۔

مثلاً اسی اسلام آباد کے مکینوں کی  سبزیوں اور پھلوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت عرصے پہلے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے صاحبِ وسیلہ باثروت و بااثر رضاکاروں کو چک شہزاد میں فارمنگ کے لیے بڑے بڑے قطعاتِ اراضی الاٹ کیے۔مگر چک شہزاد کے کھیتوں میں گاجر ، مولی ، سلاد سے پہلے پہلے عالیشان محلات اگنے کا معجزہ ہو گیا۔کچھ عرصے قبل عدالت نے فارم ہاؤسز کی زمین  کے غلط اور ناجائز استعمال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سی ڈی اے سے کہا کہ وہ زراعت کے نام پر دیے گئے ان قطعات کی الاٹمنٹ منسوخ کردے مگر سی ڈی اے کی روایتی حیلہ سازی آڑے آگئی۔

اب کہیں جا کے امید بندھی ہے کہ جس حکومت نے آئی الیون کی کچی بستی میں بلڈوزر بھیجے ، انھی بلڈوزروں کا اگلا رخ چک شہزاد کے فارم ہاؤسز کی جانب کسی بھی وقت ہونے والا ہے تاکہ اس غیر قانونی آبادی کو ڈھا کے سرکاری انصاف کی دھاک ہر خاص و عام کے دل میں بیٹھ سکے۔آپ بچشمِ خود ملاحظہ کریں گے کہ جب ایاز کے ساتھ محمود بھی ایک ہی صف میں کھڑا کردیا جائے گا اور محمود کو لگ پتہ جائے گا۔۔۔۔

اسی پاکستان میں جن سرکاری اداروں کی زمین پر یار لوگوں نے سب سے زیادہ ہاتھ صاف کیا ان میں سرِ فہرست محکمہ ریلوے بتایا جاتا ہے۔ ریلوے کی اندازاً اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین پر گالف کورسز اور ہوٹلوں سے لے کر شادی ہالوں، اسکولوں ، تھانوں ، کثیر المنزلہ کمرشل اور رہائشی پلازوں اور غریب غربا کی جھونپڑیوں تک بھانت بھانت کی ناجائز آبادی پائی جاتی ہے۔مگر اب یہ دھندہ زیادہ دن نہیں چلنے کا۔کوئی دن جاتا ہے کہ حکومتی بلڈوزر ان سب تجاوزات کی بھٹہ سی گردن اڑا دیں گے۔ انشااللہ۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کے پیچھے پاکستان کرکٹ بورڈ کی بیسیوں ایکڑ زمین پر لگ بھگ پندرہ برس پہلے اچانک ایک شاندار بستی اس دور میں ابھرنی شروع ہوئی جب حسنِ اتفاق سے عزت مآب توقیر ضیا بورڈ کے سربراہ تھے۔ یہ زمین بورڈ کے ہاتھوں سے نکل کے بڑے بڑے پلاٹوں میں کیونکر بٹ گئی اور پھر ان پر بیسیوں محلات بنا چراغ رگڑے کیسے نمودار ہو گئے۔آج تک یہ کہانی ’’ نہ بتاؤ نہ پوچھو ‘‘ کی چادر تلے محوِ خراٹا ہے۔امید ہے کہ ناجائز و مشکوک تعمیرات اور بستیوں  کے پیچھے لٹھ لے کر گھومنے والی سرکار نہ صرف اس پراسرار کہانی کہ تہہ تک پہنچے گی بلکہ یہ ثابت ہوگیا کہ قانون کے پردے میں سوراخ کرکے دراصل یہ زمین غصب ہوئی ہے تو سمجھو کہ اگلا ہدف یہی بستی ہے۔بالکل آئی الیون مسماری ماڈل کی طرح…

اور اب وہ با اثر افراد اور ادارے بھی خیر منائیں کہ جنہوں نے بڑی بڑی سرکاری زمینیں اور پلاٹ لیز پر لیے اور لیز ختم ہونے کے باوجود اس پر قابض ہیں اور کسی متعلقہ افسر کی ہمت نہیں کہ ان قابضین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتا سکے کہ حضور اٹھئے کھیل ختم پیسہ ہضم زمانہ بدل چکا۔موجودہ حکومت اس بارے میں بالکل ضدی جٹ ہے۔اس نے آئی الیون والوں کو اتنے واویلے پے بھی نہ چھوڑا تو ملی بھگت کرنے والے افسروں اور لیز ایکسپائری کے باوجود بیٹھے رہنے والوں کو کیوں چھوڑے گی ؟

ساتھ ہی ساتھ ہم اس بااصول و قانون پسند حکومت کے نوٹس میں یہ بھی لانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی جگہ راتوں رات چار دیواری اٹھا کر وہاں چند بچوں کو بطور دینی طلبا بٹھا دیا جاتا ہے کہ آج سے یہ مدرسہ ہے۔یا پھر بانس پر لاؤڈ اسپیکر ٹانگ کے کہا جاتا ہے کہ اب یہ خالی پلاٹ نہیں مسجد ہے۔یا پھر اچانک ایک روز کسی بھی قیمتی کارنر پلاٹ پر ایک قبر نمودار ہوجاتی ہے اور پھر اس پر ایک مجاور بیٹھ جاتا ہے اور پھر مزار کمپلیکس کے نام پر اردگرد کی دیگر زمینوں پر بھی جھنڈے گڑ جاتے ہیں اور پھر بابا کھڑک شاہ کا عرس بھی شروع ہوجاتا ہے۔

اور پھر عرس و مزار کے اخراجات پورے کرنے اور لنگر جاری رکھنے کے لیے اسی زمین پر بادلِ نخواستہ دکانیں بھی بنانی پڑ جاتی ہیں اور جب اس دعویِٰ ملکیت کو چیلنج کیا جاتا ہے تو اسے دینی و روحانی مسئلہ بنا کر عام لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش  کی جاتی ہے۔ یوں حکومت ڈر کے مارے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔مگر موجودہ حکومت چونکہ قانون کی ہر قیمت پر بالا دستی چاہتی ہے لہذا اب یہ من مانی نہیں چلے گی اور حکومت غصب شدہ زمین پر قائم مساجد ، مدارس اور مزارات قائم کرنے والوں سے ویسے ہی نمٹے گی جیسے آئی الیون کی بستی کے ہٹ دھرم مکینوں سے نمٹا گیا۔

اسی طرح جو فراڈ سماجی و سیاسی تنظیمیں پارکوں ، فلاحی زمینوں اور گرین بیلٹس کو حلوائی کی دکان سمجھ کر دادا جی کی فاتحہ دلواتی آئی ہیں ان کے بھی دن گنے جا چکے۔اچھا ہوگا کہ وہ ازخود باعزت طریقے سے ان فلاحی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات گرا کر ان کی اصل حیثیت  بحال کردیں۔ورنہ جس حکومت نے آئی الیون کی بستی نہ بخشی وہ بھلا ان غاصبوں کو کیسے چھوڑ دے گی۔بس اب کسی بھی ساعت یہ غاصب بلڈوزروں کی گڑگڑاہٹ سننے والے ہیں۔

خدا خدا کرکے پاکستان کو ایک عرصے بعد ایسی حکومت نصیب ہوئی جو مصلحتوں سے پاک اور قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے والے کسی کمزور یا طاقتور کو خاطر میں نہ لانے کے عزم سے سرشار ہے۔ ثبوت کے لیے آئی الیون اسلام آباد میں ملبے کا ڈھیر حاضر ہے۔یہاں کے مکین صرف ایک ہفتے پہلے تک زمین پر اترا اترا کے چلتے تھے اور ریاست کے اندر ریاست بنے بیٹھے تھے۔لیکن

یہ وقت کس کی رعونت پے خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدتِ اقتدار پوری ہونے سے پہلے پہلے اس ارضِ خدا کے کعبے سے وہ سب بت اٹھوا دے گی جو اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم آئی الیون کی بستی نہیں کہ کوئی ہمیں ترنوالہ بنا لے۔ چٹان سے زیادہ مضبوط اس شاہین صفت سرکار کو یہ کارِ خیر پورے ملک میں پھیلانے سے پہلے پہلے میں پیشگی مبارکباد دینا چاہتا ہوں کیونکہ کل کس نے دیکھا ؟

اور کوئی اس زعم میں بھی نہ رہے کہ اس مدتِ اقتدار میں خدانخواستہ کسی سبب حکومت یہ کام مکمل نہ کرسکی تو جان چھوٹ جائے گی۔انشااللہ اگلی مدتِ اقتدار میں یہ ادھورا کام اولین ترجیح بنے گا۔اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو روزِ قیامت شریف حکومت ان تمام غاصبوں کا گریبان ضرور پکڑے گی۔جان کسی کی نہیں چھوٹنے والی۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔