ایک تاریخ ساز مصافحہ

زاہدہ حنا  منگل 4 اگست 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سوگ کی کسی محفل میں اچانک کسی بہت پرانے قضیے کے دفن ہونے کی شروعات ہوجاتی ہے۔ یہ دسمبر 2013 کا ایک سوگوار دن تھا جب دنیا اور جنوبی افریقا کے عظیم اور جلیل القدر مدبر اور رہنما نیلسن منڈیلا کو آخری تعظیم پیش کرنے کے لیے دنیا کے بہت سے ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم، سیاستدان، ادیب اور دانشور اکٹھے تھے۔ امریکی صدر بارک اوباما اور کیوبا کے صدر راؤل کاسترو بھی وہاں موجود تھے۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، دونوں ملک جو 1962 سے ایک دوسرے کے بدترین مخالف تھے۔ بحراوقیانوس اور کیریبین سی میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ’کیوبا‘ جسے گھٹنوں کے بل لانے کے لیے امریکی حکومتوں نے ہر نوع کی پابندیاں عائد کی تھیں اور کیوبا کے عام شہری روزمرہ کی ضرورتوں کے لیے بھی بلیک مارکیٹ کرنے والے مگرمچھوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور تھے۔ ان کا معیار زندگی مسلسل گررہا تھا اور امریکی حکومت انھیں ’کمیونسٹ‘ ہونے کی سزا دے رہی تھی۔

ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود امریکی صدر نے کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ دونوں نے مصافحہ کیا۔ یہ مصافحہ اس شخص کے جسدِ خاکی کے سامنے کیا گیا جو دنیا میں مفاہمت اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے مشہور تھا۔ 50 برس پرانے دشمنوں کے بیچ اس سے زیادہ مناسب موقع نہیں آسکتا تھا کہ وہ ایک ایک قدم کرکے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔

یہی وہ لمحہ تھا جب دشمنی سے دوستی کی طرف ایک صبر آزما سفر شروع ہوا۔ پس پردہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ نفرتوں کے گلیشیر پگھلنے لگے، یہاں تک کہ 17 دسمبر 2014کا وہ تاریخی لمحہ آیا جب امریکی صدر نے ایک ٹیلی وژن تقریر میں اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ کیوبا سے تعلقات کی بحالی اور اس پرعائد کردہ ان اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جن کا سلسلہ 1962 سے شروع ہوا تھا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ کیوبا کے حوالے سے امریکی پالیسی ناکام ہوگئی ہے۔ ان کا یہ اعلان ناقابل یقین تھا لیکن اس نے سب پر یہ بات واضح کردی کہ ایک طاقتور قوم کے صدر نے ایک چھوٹے دشمن کی استقامت کا اعتراف کرلیا ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی میں اسے پیراڈائم شفٹ سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ موجودہ امریکی صدر کے تدبر اور دانش مندی کی جیت ہے۔ دونوں ملکوں میں نصف صدی بعد ایک دوسرے کے سفارت خانوں پر امریکا اور کیوبا کی پرچم کشائی کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ صدر امریکا امریکی کانگریس کو کس طرح یہ کڑوی گولی نگلنے پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ کیوبا پر تجارتی پابندیوں کو اٹھانے کا اعلان کردے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے نظریاتی اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔ کیوبا ہنوز اشتراکی سیاست پر ایمان رکھتا ہے اور اسی طرح امریکا سرمایہ داری پر، لیکن دونوں کے مدبرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نظریات کے اختلاف کے باوجود دنیا میں سلیقے سے زندگی کی جاسکتی ہے اور لازم نہیں کہ دشمنی کی خندق کھود کر دونوں ایک دوسرے کی آیندہ نسلوں کو برباد کرنے کی افسوس ناک کوششوں میں مصروف رہیں۔

آج شاید نئی نسل کے بہت سے لوگوں کو اس کا علم نہ ہو کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان معاملات اتنے خراب کیسے ہوئے کہ بات سفارتی تعلقات کے خاتمے اور ایک چھوٹے سے جزیرے پر کڑی تجارتی پابندیوں اور اس کے مقاطعے تک پہنچی۔ اس بارے میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم پانچ سو برس کی تاریخ کے ورق پلٹ کر دیکھیں جب کیوبا ایک غیر اہم اور گمنام جزیرہ تھا، اس پر مقامی قبائل کی آبادی تھی اور باہر کی دنیا کے لوگ اس سے واقف ہی نہ تھے۔

اب سے 523 برس پہلے 3 اگست 1492 کی تاریخ تھی جب ہسپانوی بندرگاہ پالوس سے ایک مہم جو ملاح کرسٹوفر کولمبس اپنے تین بحری جہازوں کے ساتھ چین اور ہندوستان کے ایک نئے راستے کی تلاش میں روانہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان اور چین مسالہ جات اور سونے کے ذخائر کے لیے مشہور تھے۔

لیکن کبھی کبھی تقدیر عجب کھیل کھیلتی ہے۔ کرسٹوفر کے جہاز راستے سے بھٹکے اور وہ بھی اس طرح کہ تینوں جو دی سانتا ماریا، دی پنٹا اور دی نینا کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور جن پر ہسپانوی سلطنت کا جھنڈا لہراتا تھا، وہ کیوبا جا پہنچے۔ کرسٹوفر کولمبس کا خیال تھا کہ اس نے ہندوستان کا نیا راستہ دریافت کرلیا ہے۔ یہاں سے وہ واپس ہوا تو اس کے جہاز مسالہ جات، سونے، جواہر اور مقامی غلاموں سے بھرے ہوئے تھے۔

یہ تو بہت بعد میں کھلا کہ اس نے دراصل امریکا دریافت کیا تھا جو نئی دنیا کہلایا۔ کریبین سی، بحر اوقیانوس اور خلیج میکسیکو کے پانیوں کے درمیان سانس لیتا ہوا یہ جزیرہ جو کیوبا کے نام سے پہچانا جاتا ہے ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف میں کیوبا بین الاقوامی سیاست میں نہایت اہمیت اختیار کرگیا اور ساری دنیا میں اس کا نام گونجنے لگا۔

کیوبا پر قبضے کے بعد اس سے جو تجارت کی گئی، اس میں دیگر اشیاء کے ساتھ ہی انسانوں کی تجارت بھی شامل تھی۔ یہاں کے غریب لوگوں نے غلامی کی ذلتیں برداشت کیں اور وہ امریکا کے علاوہ دوسرے لاطینی امریکی ملکوں میں بھی بیچے گئے۔ ان پر ہسپانیہ کا قبضہ رہا۔ 1898 میں جب امریکا اور ہسپانیہ کے درمیان جنگ لڑی گئی تو اس میں ہسپانیہ کو شکست ہوئی اور کیوبا کچھ دنوں کے لیے امریکا کے زیر نگیں آگیا۔ 1902 میں اس کے نوجوانوں اور دانشوروں کی دلچسپی اشتراکی خیالات سے بڑھنے لگی۔

1952 میں ایک ڈکٹیٹر تبستا نے اقتدار پر قبضہ کرلیا جو کیوبا والوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ نوجوانوں کے جتھے جنگلوں اور پہاڑوں میں یکجا ہونے لگے۔ آزادی محکوم اور مجبور انسانوں کا خواب تھی۔ اس خواب کو فیڈل کاسترو نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دیکھا اور یہ لوگ اپنے ڈکٹیٹر سے لڑتے ہوئے جنوری 1959 میں ملک کے دارالحکومت ہوانا میں داخل ہوگئے۔ فیڈل کاسترو نے وہاں اپنی حکومت بنائی اور سوویت یونین کے ساتھ گہرے روابط قائم کیے۔

یہ سردجنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اور دنیا کے بیشتر ملک سوشلزم یا سرمایہ داری بلاک میں بٹے ہوئے تھے۔ امریکا کے خیال میں یہ اس کی توہین تھی کہ اس کی سرحدوں سے چند میل کی سمندری پٹی کے دوسری طرف ایک چھوٹا سا جزیرہ اس کے دائرہ اثر کے بجائے سوویت یونین کا سنگی ساتھی ہو۔

یہی وجہ تھی کہ 1960 میں اس وقت کے امریکی صدر جنرل آئزن ہاور نے سی آئی اے کو اجازت دی کہ وہ کاسترو کے مخالفین کو مسلح کرے اور انھیں بغاوت پر اکسائے۔ ان باغیوں کو اپنی کوششوں میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1962میں 14 اکتوبر سے 28 اکتوبر کے دوران دنیا نے کیوبا کے میزائل بحران کا ذائقہ چکھا۔ امریکا اور کیوبا، ہم سے ہزاروں میل دور تھے اس کے باوجود ساری دنیا سہمی ہوئی تھی۔

یہ بحران دراصل سوویت یونین اور امریکا کی انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ سوویت یونین نے ساری دنیا میں ان ایٹمی میزائلوں کی نمائش کی جو اس نے ’ بے آف پگز‘ میں نصب کردیے تھے اوراس کا اعلان کیا کہ اگر امریکا نے پسپائی اختیار نہیں کی تو ایک ایسی ایٹمی جنگ کسی بھی وقت آغاز ہوسکتی ہے جو ساری دنیا میں پھیل جائے گی۔

اس وقت دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملکوں کے مقامی اخبارات بھی ایٹمی جنگ کی سرخیوں سے بھرے ہوئے تھے اور تندور والے اور پان بیڑی بیچنے والے سے ہم لوگوں تک جو اس وقت اسکولوں میں پڑھتے تھے، ایک سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ بحران کس طرح اپنے اختتام کو پہنچا اور اس میں پس پردہ دنیا کے اہم سیاستدانوں، دانشوروں اور ادیبوں نے کیا کردار ادا کیا، اس کی ایک جھلک ہمیں اس وقت کے مشہور فلسفی برٹرینڈرسل کی کتاب میں نظر آتی ہے۔

آج کی دنیا مختلف ہے۔ ان دنوں امریکا اور کیوبا کے درمیان گفت و شنید چل رہی ہے جس کا نتیجہ آخرکار کیوبا کے تجارتی اور اقتصادی مقاطعے کے خاتمے پر نکلے گا اور کیوبا کے لاکھوں شہری سکھ کا سانس لیں گے۔ اس صورت حال میں ہمارے لیے بھی بہت سے اشارے ہیں اور یہ وہی ہیں کہ آپ کی اپنے پڑوسیوں سے خواہ کتنی ہی تلخ دشمنی ہو لیکن آخرکار وہ دشمنی، صلح کی میز پر ہی ختم ہوتی ہے۔

کوئی ملک زیادہ اور کوئی کم طاقت ور ہو تب بھی آپس کی دشمنی کے سبب نقصان میں دونوں رہتے ہیں اور اس دشمنی کی قیمت دونوں طرف کے عام شہری ادا کرتے ہیں۔ کیوبا اور امریکا اس وقت جس طرح قدم بہ قدم ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس سے شاید برصغیر کے ملکوں کو بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔