ڈاکٹرز کے بارے میں مزید گزارشات

علی احمد ڈھلوں  منگل 4 اگست 2015

میرے گزشتہ کالم ’’ڈاکٹرز ہمارا اثاثہ ہیں‘‘ کے حوالے سے بہت سے دوستوں، محسنوں اور تنقید کاروں نے اپنے خدشات، جذبات، احساسات اور تعریفی کلمات کا اظہار کر کے جو پذیرائی بخشی میں ان کا شکر گزار ہوں، زمینی حقائق لکھنے پر ڈاکٹر حضرات نے حسبِ توقع شاباشی دی،،، لیکن چند ایک بیوروکریٹ دوستوں اور ریاستی مشیروں نے ہمیشہ کی طرح خاصی تنقید کرتے ہوئے اپنے عزیز حکمرانوں کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیے اور کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں جتنے ڈاکٹروں اور صحت سے متعلقہ ملازمین کے مسائل حل ہوئے ہیں، جتنی ترقیاں ہوئی ہیں، جتنے ملازمین کی ملازمت کو ریگولر کیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔۔۔ ایسے میں  میرے ذہن میں ایک ’شرارت‘ سوجھی کہ کیوں نہ دوبارہ اسی موضوع پر لکھوں تاکہ زمینی حقائق کو مزید کھل کر بیان کیا جا سکے اور تمام باتوں کا جواب اپنے کالم میں دے سکوں،،، تاکہ ’’سند‘‘ رہے۔۔۔

ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے ’’Keep Calm, Study Hard and Become A Doctor‘‘ یعنی پرسکون رہیں، سخت محنت کریں اور ڈاکٹر بن جائیں۔۔۔ ڈاکٹری جسے دنیا بھر میں مقدس ترین پیشہ سمجھا جاتا ہے کو پاکستان میں حکمرانوں کی بے حسی نے خاصا مشکوک بنا دیا ہے۔ انسانی خدمت اور جذبے سے لبریز یہ شعبہ پاکستان میں متنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔

ڈاکٹرز پر تنقید کرنا فیشن بن چکاہے۔۔۔ جسے دیکھو وہ ڈاکٹرز کی ’بے حسی‘ پر کالم، آرٹیکل اور فیچر لکھ رہا ہے جب کہ ٹی وی چینلز پر پیکیجز بن رہے ہیں جن میں کھلے عام ان مسیحاؤں پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، پیکیجز میں مریضوں کو ’لاوارث‘ قرار دیا جاتا ہے اور ہڑتالوں کے دوران اسپتالوں میں جتنی اموات ہوتی ہیں وہ بھی ان کے ذمے لکھ دی جاتی ہیں۔۔۔ میرے نزدیک یہ لوگ خصوصاََ ینگ ڈاکٹرز اپنے پروفیشن سے بددِل ہوچکے ہیں جب کہ اُنکے مقابلے میں نالائق اور آرٹس پڑھنے والے طالب علم بیوروکریٹس یا سیاستدان بن کر اُنکی سرعام توہین کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

اگر کم تعلیم یافتہ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات اور اُنکے کارندوں کو سرکاری اسپتالوں میں وی آئی پی پروٹوکول نہ دیا جائے تو وہ ڈاکٹرز کی پٹائی شروع کردیتے ہیں، مریض کی موت پر ڈاکٹرکیخلاف قتل کی ایف آئی آر درج کراکے گرفتار کرادیتے ہیں یا پھر وزراء کے حکم پر معطل کرادیتے ہیں۔

لیکن کوئی نہیں جانتا کہ روزانہ ہزاروں زندگیاں بچانے والے ڈاکٹرز کی ماؤں نے بھی انھیں اپنا زیور بیچ کر مہنگی تعلیم دی ہے ان کے مزدور باپ نے نہ جانے کتنی دیر تپتی دھوپ میں کام کیا ہوگا۔۔۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ قوم کا اثاثہ ہیں۔کسی بھی ڈاکٹر سے زبردستی انسانیت کی خدمت نہیں کروائی جاسکتی ۔ اگر حکومت صحت او ر تعلیم کا معیار بلند کرنا چاہتی ہے تو پھر ڈاکٹروں کی بیورو کریٹک انداز میں تذلیل مت کریں۔

حکمران مسائل حل کرنے کے بجائے مزید بگاڑتے ہیں، تنظیموں کے عہدیداروں کو خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے یا ایک دھڑے کو پروموشن کا لالچ دیا جاتا ہے۔ چند ماہ قبل نرسوں کے احتجاج میں بھی بیوروکریسی نے یہی کھیل کھیلا اور چند مستقل نرسوں کو پروموشن دے کر احتجاج کو بند کروانے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں نرسوں کے کیمپ میں بھی دو دھڑے بن گئے ہیں۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب آرمی، پولیس، جج صاحبان، پوسٹ مین حتیٰ کہ کلرکوں تک کا سروس اسٹرکچر موجود ہے تو حکومت ڈاکٹروں کو 20سال کے مستقل کنٹریکٹ کے بجائے تین سال کے عارضی کنٹریکٹ پر کیوں بھرتی کرتی ہے؟ اگر انھیں تین سال بعد سروس سے نکال دیا جائے تو یہ کہاں جائیں گے۔

یہاں ایم اے، ایم ایس سی یونیورسٹی لیکچرر کی تنخواہ 60ہزارروپے، بی اے، ایل ایل بی سول جج کی تنخواہ 80 ہزار، جب کہ سرکاری آفیسر کی تنخواہ 65 ہزار روپے مقرر کی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹرز کی بنیادی تنخواہ 45ہزار روپے دی جاتی ہے انھیں تمام آفیسرز سے زیادہ گھنٹے ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ہنگامی حالات اور قومی چھٹیوں میں بھی ذمے داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔

ایک پرانی کہاوت ہیے‘ اندھیر نگری چوپٹ راجہ، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھا جا‘‘ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ لاقانونیت کا بول بالا ہے۔ جب حکومتیں کسی کام کے نہ کرنے کے لیے کمیٹیاں بنا دے اور ان کمیٹیوں کی سفارشات کی منظوری کے لیے بھی ٹال مٹول سے کام لے تو حکومت سے بھیک مانگنے والے ڈاکٹرز اپنا حق چھیننے کی خاطر سڑکوں پر نہیں آئیں گے تو کیا کریں گے؟۔۔۔ ایسے میں اگر کہا جائے کہ مریض مر رہے ہیں اور ڈاکٹر سڑکوں پر ہیں۔۔۔ تو مریضوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر حضرات کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔۔۔ زیادہ دور نہیں جاتے7نومبر 2012ء کے ڈاکٹروں کا احتجاج سب کو یاد ہوگا۔۔۔ جس میں ڈاکٹرز اور حکومت پنجاب کے مابین سروس اسٹرکچر کے سلسلے میںایک معاہدہ طے پایاتھا۔ معاہدہ میں ڈاکٹرز کے تمام کیڈرز کو فوکس کیا گیا۔

اس میں ٹیچنگ کیڈر ، اسپیشلسٹ کیڈر کے ساتھ ساتھ پنجاب کا سب سے بڑا کیڈر جنرل کیڈر بھی شامل تھا۔ جنرل کیڈر میں ڈاکٹرزکی کل تعداد کم و بیش 16000 سے زائید ہے، جس میں جنرل ڈیوٹی اور ایڈمنسٹریٹیو ڈاکٹرز اور ڈینٹسٹ شامل ہیں۔

سروس اسٹرکچر معاہدہ کی 16 شق میں واضع طور پر لکھا تھا کہ جنرل کیڈر کا 4 درجاتی فارمولا تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ اس کیڈر میں بھرتی ہونے والے ڈاکٹروں کی ترقی کا عمل تیز ہو سکے، بعد میں ایک نیا فارمولا دے دیا گیا۔ اس معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے21 دسمبر2012کو ایک مراسلہ جاری کیا جس میں محکمہ صحت کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ جلد از جلد مختلف اداروں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی سیٹوں کا تعین کر کے اس کی کاپی فنانس ڈیپارٹمنٹ کو روانہ کرے، تاکہ آڈٹ کاپی جاری کی جاسکے۔ اس کے بعد کئی مرتبہ اس حوالے سے میٹنگس کا اہتمام کیا گیا، لیکن آج کم و بیش ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔

یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ پنجاب حکومت محکمہ صحت کی ری اسٹرکچرنگ کر کے اسے دو حصوں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر جو لوگ صحت کے معاملات کو چلا رہے ہیں یعنی مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور پارلیمانی سیکریٹری خواجہ عمران نذیر کو اس عمل میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اایسے میں ڈاکٹرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے بقول رافع ساحر

دیا جلائے رکھنا ہے

خواب مرتے نہیں

خدارا! حکومت ہوش کے ناخن لے کیوں کہ بادی النظر میں یہ طبقہ دوبارہ سڑکوں پر آنے کے لیے پر تول رہا ہے  اور تو اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا مافیا علیحدہ سے سر اُٹھا رہا ہے ۔

2007 سے قبل کے ساٹھ سالوں میں پاکستان بھر میں بیس میڈیکل کالجز کام کر رہے تھے جب کہ گزشتہ پانچ سالوں میں اس تعداد میں 5گنا ہو چکی ہے۔ ایک طالب علم کی سالانہ فیس تین لاکھ سے بڑھا کر 6سے 7لاکھ روپے سالانہ کردی گئی ہے۔ جس وجہ سے تمام کاروباری حضرات میڈیکل کالج قائم کرنے میں لگ گئے۔ ان میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم طلبہ کے مستقبل کی ذمے داری پھرحکومت پر ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹرز کے کام کرنے کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں، حالیہ برسوں کے دوران اپنی جان بچانے کی خاطر پاکستان کے تین ہزار سے زائد ڈاکٹروں نے دیگر ملکوں نقل مکانی کی ہے۔ بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور سندھ بالخصوص کراچی شہر میں ڈاکٹروں کو قتل کی دھمکیاں ملنا عام بات ہے بھتہ مافیہ ڈاکٹروں کو قتل کی دھمکیاں دے کر بھاری رقم وصول کر رہا ہے جو ڈاکٹر بھتہ مافیہ کو بھتہ دینے سے انکار کرتے ہیں ان کی ٹارگٹ کلنگ کردی جاتی ہے۔

٭… جونیئر ڈاکٹرز کم تنخواہ پر بار ہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی بغیر کسی وقفے، لنچ بریک ، مناسب واش روم ، ریسٹ ہاؤس اور سیکیورٹی کی سہولتوں کے بغیر انجام دے رہے ہیں۔ ایسے میں اُنکے مزاج میں فطری طور پر چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا اور اوپر سے قتل کے مقدمات اور احتجاج پر پولیس کی پٹائی کے عوض تنخواہ محض چند ہزار روپے ماہوار ملے تو پھربقول ذوق،’’ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے‘‘ ۔

میری حکمرانوں اور صحت سے جڑے مشیروں اور سیکریٹریوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ ان کی بات سنیں،،، وہ انھیں ترقی کرنے کے مواقعے فراہم کریں جو ان کا بنیادی حق ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اب وہ دور گیا جب عوام اپنے حکمرانوں کے کارنامے سن کر بھی لا علم رہتے تھے۔ عوام اب بیدار ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے میر ے ہم وطنوں کو اس حال تک پہنچایا ہے لیکن میرے ہم وطنوں سمیت ساری دنیا سن لے کہ ہم بہت جلد سارا منظر مکمل طور پر تبدیل کردینگے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی ڈاکٹر اپنا وطن چھوڑ کر نہیں جائیں گے، بلکہ دنیا کے ڈاکٹرز اپنا ملک چھوڑ کر رزق کی تلاش میں پاکستان کا رخ کریں گے۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔