کام نہیں تو دام نہیں

کلدیپ نئیر  جمعـء 7 اگست 2015

تقریباً بارہ سال پہلے میں راجیہ سبھا (بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا) کا رکن تھا لیکن ایوان کے کام میں کسی نہ کسی وجہ سے رخنہ ڈال دیا جاتا تھا۔ میں نے چھ سال کی اپنی مدت کے دوران کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دونوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہی دیکھا ان کی منصوبہ بندی اور جذباتیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا اور مختلف مواقع پر دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتیں۔

مجھے اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہوا کہ ہم ممبر حضرات عوام کے فنڈز ضایع کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے جو بیچارے پہلے ہی فریب خوردہ ہیں لہذا سوال یہ تھا کہ کیا ہمیں ’’ڈیلی الاؤنس‘‘ یا روزینہ وصول کرنا چاہیے یا نہیں بالخصوص اس صورت میں جب کہ ہم ایوان میں کوئی کام نہیں کر رہے۔ میں نے چیئرمین کو لکھا کہ میں کوئی الاؤنس لینا نہیں چاہتا کیونکہ ایوان کا اجلاس  کوئی کام کیے بغیر ملتوی کر دیا جاتا ہے۔

جب کہ بعض اراکین کا موقف تھا کہ وہ تو بدستور کام کر رہے ہیں کیونکہ دن کے خاتمے پر سیکریٹریٹ کی طرف سے ایک بلیٹن جاری کیا جاتا ہے جس میں سارے دن کی کارکردگی کا خلاصہ شامل ہوتا ہے۔ جب کوئی کام نہ بھی ہوا ہو‘ تب بھی بلیٹن کا اجرا حسب معمول ہوتا ہے۔ چیئرمین نے میری درخواست وزارت قانون کو بھجوا دی کیونکہ اس معاملے میں چیئرمین کی رہنمائی کے لیے پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ وزارت نے میری استدعا قبول کر لی لہذا جب ایوان میں کوئی کارروائی نہ ہوتی تو اس دن میرا الاؤنس کاٹ لیا جاتا۔ چیئرمین نے ایوان کی بزنس کمیٹی کو میرے الاؤنس کے کاٹے جانے سے آگاہ کر دیا۔

بائیں بازو کی جماعتوں سمیت کسی بھی پارٹی نے میرے موقف کی حمایت نہیں کی لہذا اس معاملے کو اراکین کی انفرادی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ میں نے الاؤنس کاٹے جانے کے بارے میں وزارت قانون کی رائے اس وقت کے لوک سبھا کے اسپیکر سومناتھ چیٹرجی کو بھجوا دی جن کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ وہ میرے معاملے کو ایوان کی بزنس کمیٹی کے روبرو پیش کریں گے لیکن انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔

میری خواہش ہے کہ اب لوک سبھا کی موجودہ اسپیکر سمترا مہاجن نے جن 25 ارکان کو معطل کیا ہے وہ اراکین خود اسپیکر کو لکھیں کہ اب وہ ڈیلی الاؤنس کے حقدار نہیں کیونکہ وہ ایوان میں حاضر نہیں ہیں۔ اگر یہ معمول بن جائے تو مجھے یقین ہے کہ اراکین ایوان میں خواہ مخواہ کا شور شرابا کرنے سے گریز  کریں گے اور نظم و ضبط کی زیادہ پابندی کریں گے کیونکہ  جب سے پارلیمنٹ کی کارروائی ٹیلی ویژن پر براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے لگی ہے اس کے بعد سے اراکین اسمبلی کے لباس میں خاصی بہتری نظر آنے لگی ہے حالانکہ اس سے پہلے تو بعض اراکین   شب خوابی کے پاجامے میں ہی آ جاتے تھے!

میں نے اس وجہ سے اپنی مثال پیش کی ہے کیونکہ عوام جو دیکھتے ہیں اسی کو مانتے ہیں۔ اراکین اسمبلی کو انفرادی طور پر اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا انھیں ایسی صورت میں ڈیلی الاؤنس وصول کرنے کا حق ہے جب کہ وہ کوئی کام نہ کریں۔ البتہ اس سے اس سے بھی بڑے ایک سوال کا جواب نہیں ملتا: وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی حقیقی کارکردگی آخر کیا ہے۔

کانگریس اس بات پر مُصر ہے کہ وہ اس وقت تک پارلیمنٹ کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دے گی جب تک کہ سشما سوراج اور راجھستان اور مدھیہ پردیش کے کرپٹ وزرائے اعلیٰ کو ہٹایا نہیں جاتا۔ کانگریس کے لیے یہ مطالبہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو مگر سونیا گاندھی، جو بصورت دیگر بہت متحمل مزاج ہیں، وہ بذات خود ہنگامہ آرائی کرنے والوں اور نعرے لگانے والوں کی قیادت کر رہی تھیں۔ مجھے تو یہ ساری کارروائی بچگانہ سی محسوس ہوتی ہے۔

اسی طرح مسلمان برادری کے ایک بڑے طبقے کی طرف سے یعقوب میمن کی پھانسی پر ردعمل کا اظہار بھی درست نہیں تھا۔ اس کا مقدمہ سپریم کورٹ آف انڈیا سمیت مختلف بھارتی عدالتوں میں چلا ‘سب نے اس کی سزا برقرار رکھی ۔ اس کے باوجود میری رائے یہ ہے کہ اس کو دی جانے والی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دینا چاہیے تھا، کیونکہ اول تو اس نے حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا اور دوسرے یہ کہ وہ مقدمے کے لیے از خود نیپال سے بھارت آنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ بعض خبروں کے مطابق اس نے بعض ایسے انکشافات کیے ہیں جن کے بارے میں بھارتی حکومت اپنے طور پر کوئی پتہ نہیں لگا سکتی تھی۔

یہ مقدمہ گزشتہ 22 سال سے چلتا رہا ہے۔ یعقوب میمن کے حامیوں نے اسے رہا کرانے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کی۔ سپریم کورٹ گزشتہ آدھی رات سے زیادہ وقت تک اس کی سالگرہ پر اس کی رحم کی اپیل سنتی رہی لیکن بالآخر اسے مسترد کر دیا گیا۔ لگتا ہے کہ عدالت عظمی بھی اسے ہر ممکن رعایت دینے پر آمادہ تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ لیکن اس معاملے پر شدید ردعمل نہیں دیا جانا چاہیے۔

جن مسلمانوں نے یہ کام کروایا انھوں نے ہندوتوا کی حامی قوتوں کو تقویت فراہم کی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری سیکولر ازم کی دعویدار سیاست کس کمزور اور نازک ہے جو ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ کر بکھر جائے۔ بھارت میں ہندووں اور مسلمانوں میں عدم اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بھی آپس میں برسرپیکار ہو جاتے ہیں۔ البتہ مجھے ممبئی پولیس پر فخر ہے کہ اس نے اس معاملے کو دانشمندانہ مہارت سے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہونے سے روکا ہے۔ اگرچہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پولیس ماحول سے متاثر ہو جاتی ہے اور بھارت میں وہ بھی فرقہ واریت کا رخ اختیار کر رہی ہے۔

ملک کے عوام فرقہ ورانہ بنیادوں پر بٹ چکے تھے لیکن پولیس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورت حال پر قابو پا لیا۔ جو واقعات حالات کو فرقہ واریت کا رنگ دے سکتے ہیں ان کے بارے میں ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور اس سوچ کو پختہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ہماری قومی تحریک میں اجتماعیت کا معاشرہ قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور جو لوگ اس مقصد کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یہ وہ ہیں جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ لیکن انھیں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہماری جدوجہد آزادی کو دھبہ لگائیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔