ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی واپسی

وسعت اللہ خان  ہفتہ 8 اگست 2015

اردو میں اب تک آٹھ بڑے ناول لکھے گئے۔ آگ کا دریا، چاندنی بیگم، گردشِ رنگِ چمن، آخرِ شب کے ہمسفر، اداس نسلیں، خدا کی بستی، چاکیواڑہ میں وصال اور غلام باغ۔ پہلے چار قرۃ العین حیدر کے ہیں اور باقی ایک ایک علی الترتیب عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، محمد خالد اختر اور مرزا اطہر بیگ کا ہے۔ اور بھی سیکڑوں ناول ہیں مگر اکثر کی ورق گردانی کرتے بار بار جون ایلیا کی بات یاد آ جاتی ہے ’’جنھیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں‘‘۔

(  بطور قاری یہ میری رائے ہے۔ آپ کا متفق ہونا ہر گز ہر گز ضروری نہیں)۔

جس طرح پہلی پاکستان دشمن تقریر گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو ہوئی تھی (تب ہی تو یہ تقریر قائدِ اعظم جناح  سے بھی زیادہ ایک محبِ وطن نوکر شاہ نے سنسر کرنے کی کوشش کی تھی)۔ جس طرح پہلا پاکستان دشمن شاعر فیض احمد فیضؔ تھا اسی طرح پہلی پاکستان دشمن ادیبہ قرۃالعین حیدر تھیں۔ انھیں پاکستان دشمنی کا اس قدر جنون تھا کہ تقسیم ہوتے ہی اپنا بڑا سا گھر اور اشرافی حلقہِ احباب ترک کر کے دلی سے کراچی یہ جا وہ جا۔ نئی حکومت نے کمالِ مہربانی سے کام لیتے ہوئے ان کے شجرے کا لحاظ کیا اور محکمہِ اطلاعاتِ کے شعبہِ مطبوعات میں ایک میز کرسی اور چھوٹی موٹی افسری عنائت کر دی۔

مگر عینی آپا نے سرکاری فرائض میں کل وقتی جی جان لگانے کے بجائے اپنی ہی کوئی کتھا شروع کر دی۔ حالانکہ واضح سرکاری ہدایات تھیں کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار اپنے غیر تخلیقی معمولات سے ہٹ کر کوئی تخلیقی کام کرنا چاہے تو اس کے لیے افسرانِ بالا کی پیشگی اجازت ضروری ہے تا کہ ملکی مفاد میں انفرادی بنیاد پر اذن دینے نہ دینے کا فیصلہ ہو سکے۔ مگر عینی آپا اس کھکیڑ میں نہیں پڑیں اور جب پلندہ مکمل ہو گیا تو افسرِ بالا کے آگے دھر دیا۔

افسرِ بالا کا دھیان فوری طور پر بلحاظ ِعقل و منصب چار باتوں کی جانب گیا۔ آیا یہ سرکاری اسٹیشنری ہے کہ نجی؟ کیا یہ واردات دفتری اوقات میں ہوئی یا ان سے باہر؟ یہ محکمہ اطلاعات کی کیسی افسر ہے جسے یہ اطلاع تک نہیں کہ ضابطے کے مطابق تخلیق کاری کی پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے کام مکمل ہونے کے بعد نہیں۔ اگر یہ کوئی سیدھی سیدھی کتھا ہے تو اتنی ضخیم کیوں ہے؟ یقیناً ضخامت کی دال میں کچھ کالا ہے۔

ان خدشات و تشویشات کے ساتھ افسرِ بالا نے اس پلندے کو پہلے کے بجائے آخری صفحے سے پڑھنا شروع کیا اور پھر لبوں پر وہ مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی جو عموماً جرم کی تہہ تک پہنچنے والے انسپکٹر کے لیے مختص ہوتی ہے۔

افسرِ بالا نے نہایت اعتماد کے ساتھ مسودہ واپس کرتے ہوئے عینی آپا سے کہا ویسے تو سب ٹھیک ہے لیکن اس دو ہزار سالہ داستان میں سے صرف آخری دس برس نکال دیں کہ جن کا تعلق چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد سے ہے۔ کیونکہ ان میں سے کارِ سرکار میں مداخلت اور سرکار دشمنی کی بو آتی ہے۔ میرا تو کچھ نہیں لیکن کسی اور نے پڑھ لیا تو نہ صرف میری بازپرس ہو گی بلکہ آپ کی اے سی آر بھی خراب ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے انکوائری بھی بیٹھ جائے۔

عینی آپا نے مسودہ واپس لیتے ہوئے فیصلہ کر لیا کہ جہاں بہرے سُر کی داد دینے کی کوشش کریں، ہکلے الاپ سکھائیں اور نابینا راستہ دکھائیں وہاں اب نہیں رہنا۔ اور یہ معاملہ یہیں پر نہیں رکے گا بڑھتا ہی چلا جائے گا اور سماج جس فضا میں سانس لے رہا ہے اس فضا سے آکسیجن کھنچتی ہی چلی جائے گی۔

اگرچہ صدر ایوب کی ناک کے بال قدرت اللہ شہاب نے غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور مسودے پر اعتراضات واپس بھی ہو گئے اور انیس سو انسٹھ میں آگ کا دریا چھپ بھی گیا اور دنیائے ادب میں سنسنی بھی پھیل گئی مگر عینی آپا کی اشرافی انا کسی ٹکے ٹوکری افسر کی افلاطونی نہ بھلا پائیں اور پہلے لندن اور پھر دلی تشریف لے گئیں۔ ایک تقریب میں پنڈت نہرو سے سامنا ہو گیا۔ پنڈت جی نے گلے لگاتے ہوئے کہا ’’تو ہماری بیٹی گھر لوٹ ہی آئی‘‘۔۔۔۔۔۔

لال چند امر ڈینومل جگتیانی۔

بیسویں صدی کے سندھی ادب کا یہ بنیادی نام آج کا پاکستان چھوڑ سندھ میں کتنے لوگوں نے سنا ہے؟ لال چند اول تا آخر ایک ایجوکیشنسٹ اور ادیب تھے۔ جب وہ کراچی کے سندھ مدرسے میں پڑھاتے تھے تو انھوں نے سندھی زبان میں رسولِ اکرم کی پہلی سیرتِ مبارکہ لکھی جو انیس سو گیارہ میں شایع ہوئی۔ تب سے ان کا نام ہندو دوستوں کے حلقوں میں لال محمد پڑ گیا۔ صرف اسلام ہی نہیں پوری صوفی روائیت، چاروں وید، مارکسزم اور جدید یورپی و ہندوستانی ادب لال چند نے گھول کے پی رکھا تھا۔ وہ حضرت سچل سرمست کے عاشق اور گاندھی کے پرستار تھے، تحریکِ خلافت میں بھی سال بھر کی جیل کاٹی اور سودیشی تحریک میں بھی آگے آگے رہے۔ کراچی ڈسٹرکٹ کانگریس کے سیکریٹری بھی رہے۔ پھر بھی اتنا وقت نکال لیا کہ ساٹھ سے زائد ناول، مضامین، ڈرامے اور کہانیاں شایع ہوئیں۔ کئی اخبارات و ادبی پرچوں کی ادارت بھی کی۔ واحد سندھی ہندو سرکردہ شخصیت تھے جو سندھ کی بمبئی ریذیڈنسی سے علیحدگی کے حق میں تھے۔

بیوی اور چار بچے پہلے ہی مر چکے تھے۔ سینتالیس کے ہنگامے میں واحد بیٹی دیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ بھارت چلی گئی۔ لال چند دیوی سے بے انتہا محبت کرتے تھے لیکن بے حد اصرار کے باوجود بھارت منتقل نہیں ہوئے۔ مگر جب زمین و فضا میں اجنبیت بڑھتی چلی گئی تو لال چند خود کو دھکیل کر انیس سو اڑتالیس کے وسط میں بمبئی پہنچ گئے۔ کراچی سے وہ چند بوریوں میں کتابیں اور مسودات بھر کے لے گئے۔ مگر ان میں سے بھی دو بوریاں بحری جہاز پر چوری ہو گئیں۔

بمبئی میں لال چند نے سندھیوں کے لیے نئی تعلیمی اداروں کی تشکیل اور نصابی کتابوں کی تیاری میں دل لگایا مگر جی لگا نئیں۔ سندھ سے نکلنے کے بعد ان کی صحت جواب دیتی چلی گئی۔ وصیت کی کہ کچھ بھی ہو جائے میری راکھ دریائے سندھ میں بہائی جائے۔ اپریل انیس سو چون میں لال چند کا انتقال ہو گیا۔ اکیس ماہ بعد ان کی استھیاں کراچی لائی گئیں۔ فیصلہ ہوا کہ دوسری برسی کے موقع پر یہ کام انجام دیا جائے گا۔

چنانچہ اٹھارہ اپریل انیس سو چھپن کو پانچ سندھی اخبارات نے لال چند کی حیات اور ان کی ادبی و ثقافتی خدمات پر خصوصی ایڈیشن شایع کیے اور ان کی کتاب ’’سون ورنؤں دلیوں‘‘ (سنہری دل) کراچی سے شایع ہوئی۔ سخت موسم اور رمضان کے باوجود  لال چند کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بسنت ہال حیدرآباد کچھا کھچ بھرا تھا۔ سورج ڈوبنے سے پہلے سندھو کے کنارے الوداعی تقریب ہوئی۔ پانچ کشتیوں میں سو کے لگ بھگ لوگ سوار ہوئے اور دریا کے وسط میں پہنچ کر معروف ادیب اور لال چند کے دوست عثمان علی انصاری نے  راکھ دریا کے سپرد کر دیا۔ یوں بیٹے کی گھر واپسی کا سفر مکمل ہوا ۔۔۔۔

( دوسری داستان نندیتا بھونانی کی کتاب ’’دی میکنگ آف ایگزائل‘‘ سے لی گئی)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔