خادمِ اعلیٰ پنجاب، ہم آپ کو نہیں مانتے!

اویس حفیظ  بدھ 26 اگست 2015
خادمِ اعلیٰ ہم نے اگر کچھ کھویا ہے تو وہ اعتماد کھویا ہے، جو پہلے عوام کو اپنے خدام پر تھا۔ فوٹو :فائل

خادمِ اعلیٰ ہم نے اگر کچھ کھویا ہے تو وہ اعتماد کھویا ہے، جو پہلے عوام کو اپنے خدام پر تھا۔ فوٹو :فائل

مجھے فروری 2009ء کی وہ ریلی اور جلسہ ابھی بھی یاد ہے، جب عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برطرف کرکے پنجاب میں گورنر راج لگا دیا گیا تھا، اور اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے احتجاجی ریلی کی کال دی۔ لاہور نیلا گنبد چوک سے ریلی چلتے چلتے اسمبلی ہال چوک میں ختم ہوئی۔ تاحدِ نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے جو وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور عوامی فیصلے کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھ سمیت سب لوگوں کو اس وقت یقین تھا کہ پنجاب میں حکومت عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدہ ہے جسے وفاقی حکومت محض سیاسی عناد کے باعث کام نہیں کرنے دے رہی۔

اسمبلی ہال چوک میں جلسے کا وہ منظر آج بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے، جب ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس والے نے اپنی پیٹی آ کر مسلم لیگ کے قائد اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کر دی۔ اس جلسے میں شہباز شریف صاحب نے حبیب جالب کی مشہور نظم اپنے انداز میں دوبارہ پڑھی،

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا

جب چھوٹے میاں صاحب ’’میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا‘‘ کہتے تو، سارا جلسہ ان کے ساتھ جھوم جھوم کے اُن کا ہمنوا بن جاتا۔ پھر وہ جلسہ ختم ہوگیا، ججز بحال ہوگئے اور پھر ساتھ ہی پنجاب سے گورنر راج کا بھی خاتمہ ہوگیا اور پنجاب حکومت کو بحال کر دیا گیا۔

آج اِس بات کو کم و بیش ساڑھے آٹھ سال بیت چکے ہیں، اور ان ساڑھے آٹھ سالوں سے پنجاب میں وہی ایک حکومت برسراقتدار ہے، اب بھی پنجاب کے وہی وزیر اعلیٰ ہیں جو خود کو خادمِ اعلیٰ کہلواتے ہیں۔ اگر اس دوران ہم نے کچھ کھویا ہے تو وہ اعتماد کھویا ہے، جو پہلے حکومت پر تھا۔ جو پہلے عوام کو اپنے خدام پر تھا۔

ایک تو بہت واویلا کیا جاتا ہے کہ پنجاب میں گورننس باقی صوبوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ میں کسی سے جب یہ سنتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ بات کس بنیاد پر کہی جا رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں سندھ  کی طرز پر کوئی رینجرز کا آپریشن نہیں ہوا کہ یہاں کے اربوں روپوں اور سینکڑوں کلو سونے کے ہوش ربا اسیکنڈلز عوام کے سامنے آسکیں یا شاید یہاں پر خیبر پختونخوا کی طرح احتساب بیورو میں اتنی تاب نہیں کہ وہ ’’حاضر سروس‘‘ وزیر کو پکڑ سکے۔ اگر یہاں پر بھی یہ سب کچھ ہوا ہوتا تو یہاں پر تو آدھی کابینہ ہی۔۔۔۔۔۔

شاید یارانِ بے خبر سیکورٹی اور امن و امان کے حوالے سے یہ بات کرتے ہیں، مگر انہیں کون سمجھائے کہ جس صوبے میں وزیرِ داخلہ ہی محفوظ نہ ہو وہاں ہم جیسے ’’عام غریبوں‘‘ کی فکر کسے ستاتی ہے؟ رات ہوتے ہی شہر میں ڈاکوؤں کا عملاً راج شروع ہوجاتا ہے، روز اخبار چوری، ڈکیتی اور رہزنی کے درجنوں واقعات سے بھرے ہوتے ہیں مگر کہیں پر کسی بھی قسم کی ’’محافظ فورس، ایلیٹ فورس، کوئیک رسپانس فورس، ڈولفن فورس (اور نجانے کونسی کونسی فورس) نظر نہیں آتی۔

گڈ گورننس کا حال یہ ہے کہ ابھی اگلے روز ہی فیصل آباد میں فوڈ اتھارٹی نے ایک فیکٹری پر چھاپہ مارا تو پوری ٹیم اور حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کو مقامی افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ گڈ گورننس ہے کہ لوگوں کے دلوں میں قانون کا کوئی خوف ہی نہیں؟ لوگ دودھ کے نام پر زہر اور گوشت کے نام پر حرام و مردار حلق سے نیچے اتار رہے ہیں، مگر کہیں کوئی حکومتی عملداری نہیں ہے۔ شاید ہی کوئی پنجاب واسی ہو جس نے گدھے و گھوڑے سمیت حرام و مردار گوشت نہ کھایا ہو۔ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں صوبائی وزیر صحت نے ٹولنٹن مارکیٹ کا دورہ کیا تو وہاں سے گدھوں، گھوڑوں، مردہ گائیوں، بھینسوں اور مرغیوں کا کم و بیش 35 من گوشت برآمد کیا۔ یہ قصہ ابھی یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ آج تو یہ گوشت پکڑا گیا، مگر کل کو جو ہم کھاچکے اور آئندہ کل جو ہم نگلیں گے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر حکومتی رٹ کہاں ہے؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ آئے دن اس طرح کی خبریں عوام کے کانوں میں زہر گھول رہی ہیں مگر کوئی پرسانِ حال نہیں ۔

اگرچہ پنجاب فوڈ اتھارٹی جیسے نام نہاد ادارے میں ’’عائشہ ممتاز صاحبہ‘‘ نے کچھ جان ڈال رکھی ہے مگر کب تک، آج عائشہ ممتاز کا ٹرانسفر ہوجائے یا اس کا پالا کسی ’’بااثر‘‘ سے پڑ جائے تو کیا بنے گا؟

سب کچھ حسبِ ماضی اپنی روش پر واپس آجائے گا۔ عائشہ ممتاز جیسے کتنے ہی فرض شناس اور فعال آفیسر جواں جذبے کے تحت آئے مگر کیا بنا؟ پھر جن ہوٹلوں، دکانوں، فیکٹریوں اور گودام وغیرہ کو سیل کیا جاتا ہے، ان کا کیا بنتا ہے؟ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک دودھ فروش کی دکان کو سیل کیا گیا، جب ٹیم چلی گئی تو اس نے وہ سیل توڑی، تالا کھولا اور دوبارہ دکان سجا کر بیٹھ گیا، کچھ دیر بعد اسے علاقائی تھانے میں موجود کچھ ’’ہمدموں‘‘ نے خبر کردی، اس نے دکان بند کی اور جیسے تیسے وہ سیل والا تالا لگا کر دوبارہ مسکینوں کی طرح بیٹھ گیا۔ ہر ہر برائی، جرم اور لا قانونیت کے پیچھے ہمیں روایتی تھانہ کلچر نظر آئے گا۔

اب سانحہِ  قصور سے بڑھ کر دل شکن و روح فگار واقعہ کیا ہوگا؟ مگر یہ سب کچھ خادمِ اعلیٰ کی نظر میں اس وقت آیا، جب پولیس سے مایوس لوگوں نے قصور میں دھرنا دیا، احتجاج کیا، پولیس سے ٹکراؤ ہوا اور اس تصادم کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق ہوگیا تو میڈیا کی توجہ اس پر مبذول ہوئی اور و ہ واقعہ کی تہہ تک پہنچا جس کے بعد ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب آشکار ہوا۔ 2006 سے یہ گھناؤنا کھیل جاری تھا اور 2008 سے پنجاب خادمِ اعلیٰ کے اشارہ ابرو پر چل رہا ہے، آخر اتنے عرصے تک حکومت پنجاب کہاں تھی؟

اُٹھ خادمِ پنجاب، کتھے محلاں وچوں تَک
صوبہ تیرا بلدا تے گھر گھر لگی اگ

(خادمِ پنجاب اپنے محل سے نکل کر باہر بھی جھانکیے، آپ کا صوبہ جل رہا ہے اور گھر گھر آگ لگی ہوئی ہے)۔ اب بھی لوگوں کو جے آئی ٹی پر اعتبار نہیں اور وہ سوال کر رہے ہیں کہ ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘‘ پر بننے والے کمیشن اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کہاں ہے؟ ان معصوموں کا خون کس کے سر پر ہے؟ دھاندلی کمیشن کی رپورٹ تو فوری جاری کردی گئی اب از راہِ کرم اس کمیشن کی رپورٹ بھی جاری کر دیں۔

شاید یہ سب حکومت کی ترجیحات میں نہیں یا شاید حکومت جوڈیشل کمیشن میں اپنی تیسری وکٹ گنوانے کے بعد سنبھل نہیں پائی، یا شاید وہ اپنے خلاف فیصلہ دینے پر منصفوں پر تنقید کرکے تاحال فارغ نہیں ہوئی تھی، میں جب بھی حکومت کے کسی وعدے، کسی دلاسے کو یاد کرتا ہوں تو ماضی میں پروئے گئے خواب آنکھوں میں چبھنے لگتے ہیں۔

حکم جس کا فائلوں میں ہی چلے
ساتھ سینکڑوں کا قافلہ لے کر چلے
حکومت جس کی رائیونڈ تک رہے
وہ جو سائے میں ہر وقت سیکورٹی کے رہے
ایسے لیڈر کو، ایسے خادم کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا

اگر خادمِ اعلیٰ پنجاب صاحب! اگر آپ اپنی رعایا کی نہیں مانتے تو ہم بھی آپ کو نہیں مانتے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔