ارے سونے والوں جاگو! بجلی کے نرخوں نے بجلی گرادی ہے

افسانہ مہر  جمعرات 27 اگست 2015
جاگیے اور اُٹھ کھڑے ہوں کہ اگر آپ کی مشکلات کا اندازہ حکومت کو ہوتا تو وہ ایسی خون چوسنے والی پالیسیاں نہ مرتب کرتی۔

جاگیے اور اُٹھ کھڑے ہوں کہ اگر آپ کی مشکلات کا اندازہ حکومت کو ہوتا تو وہ ایسی خون چوسنے والی پالیسیاں نہ مرتب کرتی۔

آزادی کے مہینے میں وارد ہونے والے ’’بجلی کے بل‘‘ نے آتے ہی ہمیں آزادی کے اس سراب سے باہر نکال دیا۔ اُف خدایا ۔۔۔۔ اتنا بل؟؟ پچھلے ماہ کا دوگناہ ۔۔!! بل ہاتھ میں لیتے ہی مجازی خدا کے غصہ کا پارہ ساتویں آسمان کو چُھو گیا، سارا نزلہ گھوم پھر کر ہم پر آ گرا، ہمیشہ کی طرح ’’تمہیں پرواہ ہی نہیں؟ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ کیسے کمایا جاتا ہے؟ ہم مجرم کی مانند چپ بھی تھے اور ملزم کی طرح حیران بھی، ایک طویل ڈانٹ کے بعد جب خاموشی پھیل گئی اور مجازی خدا نے اپنے آفس کی راہ لی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔ کیا کیاِ جائے؟ آخر پُرانے بل اُٹھا لائے اور اس ماہ کے بل سے تقابل شروع کردیا۔

ارے ہم تو سراسر ’’نِرتوش‘‘ ہیں۔ دل نے دہائی دی، جتنے یونٹ ہم نے پچھلے ماہ خرچ کیے تھے، اس ماہ بھی اُتنے ہی یونٹ خرچ ہوئے تھے۔ بے گناہی کے اس ثبوت کو دیکھ کر دل چاہا کہ ’’انصافیوں‘‘ کی مانند ، ٹوئٹر اور میڈیا پر دھمال ڈالی جائے۔ ہم نے فوراََ موبائل اُٹھایا اور سرتاج کو کال ملا ڈالی۔ ہاں بولو، دو لفظ کرختگی کے ساتھ کان کے پردے سے ٹکرائے۔ وہ میں نے پچھلا بِل نکال کے دیکھا ہے۔ اُتنے ہی یونٹ خرچ ہوئے ہیں، جتنے پچھلے ماہ ہوئے تھے، ہم نے فوراََ اعتماد سے وضاحت پیش کی۔ تو پھر بل کیوں اتنا زیادہ آیا ہے؟؟ سرتاج دہاڑے، حکومت نے یونٹ کے پیسے بڑ ھا دیئے ہیں۔ اس لیے زیادہ آیا ہے۔ ہم نے اصل وجہ پیش کی۔ اچھا، اچھا فون بند کرو، مجھے کام کرنے دو۔

چند دنوں سے ٹی وی پرخبروں میں یونٹ میں اضافے کی خبر سب ہی سُن رہے ہیں۔ لیکن معاشرے میں کوئی ردِعمل نظر نہیں آیا۔ حتی کہ باخبر اور زِیرک ترین افراد اور پارٹیوں نے بھی اس ایشو کو نہیں اُٹھایا۔ ٹوئٹر پر ہر وقت حاضر باش اور تبصرہ نگار بھی خاموش ہیں۔ کیوں؟؟ کیا یہ اہم ایشو نہیں؟ کس فارمولے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ کیا گیا؟ ہم نے اسلام آباد میں مقیم ایک عزیز سے اس ہوش رُبا اضافے پر بات کرنا چاہی، تو اُن کا جواب ملا کہ یہاں تو ابھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہاں یہ کہا گیا کہ دن میں یونٹ ریٹ کم ہوگا، صرف رات میں زیادہ ہوگا۔

’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو‘‘

کے طرز فکر نے آج افراد کو خود غرض بنا دیا ہے۔ جب تک خود پر ضرب نہ پڑے، کوئی بولتا ہی نہیں، اپنے بھائی کی مدد اور مظلوم کی حمایت اسلامی شعار بھی ہے اور انسانیت کا تقاضہ بھی۔ آج تمام قوم مختلف مسائل میں مبتلا ہے، اور اگر کہیں کوئی احتجاج بلند کرے بھی تو دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ یوں نہ اجتماعی طور پر بڑا احتجاج ہوگا نہ اقدام کرنے کی نوبت آئے گی، ارے جاگیے کہ آپ کی مشکلات کا اندازہ اگر حکومت کو ہوتا تو وہ ایسی خون چوسنے والی پالیسیاں نہ مرتب کرتی۔ جب دھرنا، دھاندلی پر ہوسکتا ہے، جب ڈاکٹرز دھرنا دے سکتے ہیں، اساتذہ دھرنا دے سکتے ہیں، اسٹوڈنٹس اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرسکتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے علمبردار ہر نا انصافی پر سوشل میڈیا پر جنگ کرسکتے ہیں تو پھر اس کا استعمال عوام کی بہبود کیلئے کیوں نہیں ہو سکتا؟ سب ملکر اپنے مفاد کیلئے آواز کیوں نہیں اٹھاسکتے؟ بجلی کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ بھی اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی۔

آپ کو اپنے حقوق کا تحفظ بھی خود ہی کرنا ہوگا، اور ویسے بھی آج کل سوشل میڈیا پر ایک جملہ کی گردان اکثر دیکھنے میں آتی ہے۔
’’ ساڈا حق، ایتھے رکھ‘‘
تو اٹھو، ایک ہوجاؤ اور اپنے حق طلب کرو ان حکمرانوں سے!

کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ نرخوں میں اضافے کے خلاف عوام کو آواز اُٹھانی چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔