باہمی تعلقات

کلدیپ نئیر  جمعـء 28 اگست 2015

میری تعبیر ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو دونوں ملکوں کے سلامتی کے مشیروں کی ملاقات طے کرنے کے بعد ایک دوسرا خیال آیا ورنہ وہ تعلقات میں پیدا ہونے والی آلودگی صاف کرنے کے لیے مداخلت کرتے کیونکہ روس کے شہر اوفا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی ملاقات میں طے کیا گیا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے موضوع پر بات ہو گی کیونکہ اس سے دونوں ملک ہی لہولہان ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسیٹبلشمنٹ نے نیچے سے قالین کھینچ لیا ہو۔ لیکن یہ مفروضہ اس وجہ سے قابل یقین نہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی صورت میں پاکستان ملاقات متعین ہی نہ کرتا۔

گویا اس لحاظ سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید بلاجواز ہے۔ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اوفا میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں کشمیر کا لفظ حذف تھا، جس سے پاکستان کے پر جوش عناصرجذباتی ہوگئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کا اصرار تھا کہ اگر ایجنڈے پر کشمیر نہ ہو تو مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہئیں۔

تاہم حکمت عملی کے اعتبار سے پاکستان سے غلطی ہوئی ۔ دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے پاکستان کشمیر کا مسئلہ چھیڑ سکتا تھا اور اگر بھارت مذاکرات سے اٹھ کر چلا جاتا تو عالمی برادری میں اس کی ساکھ کو بٹہ لگتا۔بدقسمتی سے جو تاثر باہر گیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔

فطری بات ہے کہ دونوں طرف لوگ مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ توقع کر رہے تھے کہ تعلقات معمول پر آئیں گے اور کنٹرول لائن پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں پر قابو پایا جائے گا جو کہ فوجی دستوں اور ہتھیاروں سے پٹی ہوئی ہے۔ کاشتکاروں کے لیے تو یہ لازماً جہنم کا نمونہ ہے جن کی کھیتیاں عین بارڈر تک جا پہنچی ہیں۔ مذاکرات کے ٹوٹنے سے ایک خالی پن کا احساس بہت شدید ہوا ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملک ایک دوسرے سے اور زیادہ دور چلے جائیں گے۔ دھاگے کا سرا دوبارہ پکڑنے میں مہینوں بیت جائیں گے۔ پس پردہ چینل کو بھی بحال ہوتے وقت لگ جائے گا تا کہ ان کی مساعی ثمربار ثابت ہو سکے۔

نواز شریف بھی ملک کے ریڈیکل یا  پُرجوش عناصر کو یہ باور کرانے میں بمشکل کامیاب ہونگے کہ مذاکرات صرف دہشت گردی کے موضوع پر محدود رہیں گے اور کشمیر کا ذکر نہیں آئے گا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں تو وہ سخت اشتعال میں آ گئے۔ اب ہمارے لیے یہاں سے آگے جانے کا کیا راستہ ہے۔ ممکن ہے کہ بارڈر پر ڈائریکٹرز آف ملٹری آپریشنز اور سیکیورٹی فورسز کے سربراہوں کی ملاقات کے بعد کوئی راستہ نکل سکے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے تو سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کی تنسیخ کے بعد یہاں تک کہہ دیا کہ دوسری سطحوں پر مذاکرات بدستور شیڈول کے مطابق جاری رہیں گے۔ اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) اور پاکستان رینجرز کے سربراہوں کی ملاقات طے ہو گئی ہے، لیکن مجھے شک ہے کہ یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گی تا آنکہ بنیادی مذاکرات بحال نہ کیے جائیں۔

پاکستان سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ دونوں ملکوں کو ثالث مقرر کرنا چاہیے۔ لیکن اس سے اس شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی جو وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان طے پایا تھا جب 1971ء میں سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کے 90,000 فوجی بھارت کی قید میں تھے۔ چنانچہ پاکستان کو بھارت کا یہ مطالبہ قبول کرنا پڑا کہ باہمی معاملات کے حل کے لیے کوئی ثالث مقرر نہیں کیا جائے گا۔

شملہ معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ دونوں ملکوں کو از خود رواداری اور ایثار کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ اگر کسی تیسرے فریق کو مصالحت کے لیے شامل کیا جائے تو وہ اپنے مفاد کو مقدم  رکھے گا اور اسی اعتبار سے اپنا نکتہ نظر پیش کرے گا۔ گویا دہلی اور اسلام آباد میں بلا کسی مداخلت کے مذاکرات کے جاری رہنے کا اور کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ یہ درست ہے کہ اب تک کی جانے والی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا لیکن جنگ بھی تو کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، بالخصوص اس صورت میں جب دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح  ہوں۔

مودی اور نواز شریف دونوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک میں ہونگے۔ انھیں مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو مل کر دور کرنا چاہیے۔ پاک بھارت تقسیم ایک حقیقت ہے۔ میری تمنا ہے کہ جو لکیر کھینچی گئی وہ مذہبی بنیاد پر نہ ہوتی۔

اس سے دونوں ملکوں میں خوں ریز جھڑپیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو ممکن ہے اس سے کوئی فائدہ پہنچا ہو لیکن بھارت میں مسلمانوں سے فیصلہ سازی کا اختیار چھن گیا ہے۔ دو قومی نظریے نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور انھوں نے اپنی وہ اہمیت کھو دی جو تقسیم سے قبل ان کو حاصل تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی نے دونوں کے تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے اب ان کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوئی امید نظر نہیں آتی چہ جائیکہ دونوں میں دوستی کی بات کی جائے۔

مجھے وہ سیاست کبھی پسند نہیں آئی جس طرح کی سیاست مودی کرتے ہیں کیونکہ وہ تنگ نظر ہیں اور ان کا پلڑا ایک ہی طرف کو جھکا ہوا ہے۔ 1992ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں ان کے ملوث ہونے نے مجھے ان سے اور زیادہ متنفر کر دیا۔ لیکن جب میں نے لوک سبھا کے پچھلے انتخابات میں انھیں قطعی اکثریت حاصل کرتے دیکھا تو میں نے ان میں وہ خاصیتیں تلاش کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہوئے۔

مجھے ان کی اس بات پر یقین تھا کہ ’’اچھے دن آئیں گے‘‘ لیکن ایک سال گزرا‘ دوسرا بھی سال گزرا لیکن حالات میں کسی بہتری کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ کانگریس کی حکومت بھی ایسی ہی تھی۔

یہ درست ہے کہ اقتصادی اصلاحات کے لیے پوری نسل کا وقت صرف ہو جاتا لیکن کچھ شگوفے پھوٹتے تو نظر آنے چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زرعی اجناس کی پیداوار کی شرح نمو%4 سے کم ہو کر صرف %1 رہ گئی ہے۔ صنعتی شعبہ بھی سکڑ رہا ہے۔ اور بے روزگاری کی شرح پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔ عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لیے جو دعوے کیے گئے تھے ان کو پورا کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔

مودی کی حکمرانی ختم ہونے میں ابھی ساڑھے تین سال کا عرصہ باقی ہے۔ انھیں وہ اقدامات ترک کر دینے چاہئیں جو ثمر آور ثابت نہیں ہوئے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے نئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ مودی کے لیے مثبت نکتہ یہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے شدید ترین تنقید کے باوجود لوگ توقع کرتے ہیں کہ مودی ان کی بہتری کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ساری صورت حال کا دقیق نظروں سے جائزہ لے کر اصلاحات نافذ کریں اور ایسے اقدامات کریں جن سے معیشت ترقی کر سکے لیکن اس مقصد کے لیے انھیں احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا ناگزیر ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔