ہائی ہیل جوتوں کے خلاف انقلاب

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 29 اگست 2015
barq@email.com

[email protected]

لگتا ہے، یہ امریکا والے اتنے برے بھی نہیں جتنے ہم سمجھ رہے تھے یا ’’سمجھائے‘‘ جاتے ہیں، مطلب یہ کہ سارے کے سارے بش اور اوبامے جیسے کٹھور بھی نہیں ہوتے اور کنڈولیزا رائس، اوپرا  ونفرے اور مشیل اوباما جیسے ستم شعار بھی نہیں ہوتے کہ اپنے گھائلوں کو جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھتے، بلکہ اب تو مسلسل ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ ہمیں صرف شبہ ہی نہیں بلکہ یقین سا ہونے لگا ہے کہ امریکا کے بارے میں ہماری رائے خراب کرنے والے کہیں ’’ظہور‘‘ تو نہیں ہیں، ظہور ایک لڑکا تھا جو بظاہر بے وقوف سا نظر آتا تھا لیکن اس احمق نما لڑکے نے ہماری ساری ہوشیاری (بزعم خویش) پانی پانی کر دی تھی۔

ہماری جگہ میں عارضی طور پر ایک پرائمری اسکول منتقل ہو گیا تھا اس کی عمارت بن رہی تھی اور دوسری کوئی جگہ نہیں تھی تو ہم نے اپنا حجرہ ان کے سپرد کر دیا تھا ان دنوں گلی کوچوں میں مضر صحت آئس کریم برف کے گولوں اور طرح طرح کی چیزوں کی بھرمار ہو گئی تھی اس لیے ہم نے ان سب کو منع کیا ہوا تھا کہ اسکول کے پاس نہ پٹخیں اور کبھی کوئی آ جاتا تو ہم اسے بھگا دیتے تھے۔

محلے کا ایک احمق سا لڑکا ظہور اکثر ہمارے پاس ایسی خبریں لے کر آ جاتا تھا کہ دیکھیں وہ ایک آئس کریم والا اسکول کے پاس کھڑا ہے ہم جا کر اسے بھگا دیتے تھے ہم خوش ہوئے کہ یہ احمق سا لڑکا اس نیک کام میں ہماری مدد رضاکارانہ طور پر کر رہا ہے یہ بات تو کئی دنوں کے بعد ہمیں پتہ چلی کہ وہ ظہور کم بخت تو بڑا کائیاں تھا دوسرے پھیری گروں کو ہم سے ہٹوا دیتا تھا اور خود کم بخت نے پیچھے درختوں کے جھنڈ میں اپنی آئس کریم کی ریہڑی لگائی ہوئی تھی اور بڑے کمال کے ساتھ ہم سے اپنے کاروبار میں مدد کروا رہا تھا۔

چنانچہ اس ظہور کا واقعہ اکثر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کہیں یہ امریکا کو برا بھلا کہنے والے ہمارے ساتھ ’’ظہورنیا‘‘ تو نہیں کر رہے ہیں کیونکہ کچھ شواہد بھی ایسے ملے ہیں کہ ہمیں تو امریکا کو برا بھلا کہلوا رہے ہیں اور خود اپنے عزیروں کو امریکا میں بٹھوایا ہوا ہے بلکہ خود بھی اگر موقع ملتا ہے تو

کہاں کی محبت کہاں کے فسانے
یہ پینے پلانے کے سب ہیں بہانے

ایک تو یہ کہانیاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں ابھی ہم ایک سے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ دوسری دور سے دم ہلانا یا بنچ پر کھڑی ہو کر ہاتھ لہرانا شروع کر دیتی ہے، دراصل ہماری زندگی میں ایسے بہت سارے کردار آتے رہتے ہیں جو ’’کواکب‘‘ کی طرح کھلا دھوکا دیتے ہیں کبھی کچھ نظر آتے ہیں اور کبھی کچھ مجبوری ہے چنانچہ ہم بھی داغؔ دہلوی بن جاتے ہیں اور ان کہانیوں کو آپ کے متھے مار دیتے ہیں

آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں

لڑکپن کا زمانہ تھا ہم سڑک کے کنارے جا رہے تھے کہ اچانک زمین پر ایک تھری ناٹ تھری کارتوسوں کا ایک پنجہ نظر آ گیا۔ پنجہ ایک کلّپ کو کہتے ہیں جس میں پانچ کارتوس لگے ہوتے ہیں۔

پرانے زمانے میں تھری ناٹ تھری 303 بور کی رائفل بڑی مشہور تھی، پنجے میں کارتوس کچھ اس ترتیب سے رکھے جاتے تھے کہ بوقت ضرورت میگزین کے اوپر رکھ کر انگوٹھے سے دبائے جاتے تو کارتوس صحیح ترتیب کے ساتھ میگزین میں فٹ ہو جاتے تھے اس زمانے میں یہ بندوق صرف فورسز کے پاس ہوتی تھی اکا دکا سول لوگ بھی رکھتے تھے اور بڑی مہنگی ہوتی تھی اور کارتوس بھی ظاہر ہے کہ کمیاب اور مہنگے تھے۔

ہم نے زمین پر ایک اور پھر دوسرا پنجہ دیکھا اور کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے کچھ ڈر بھی رہے تھے کہ کہیں یہ خطرناک چیز ہاتھ لگاتے ہی اڑا نہ دے، ایک بوڑھا جو وہیں پر اپنے جانور چرا رہا تھا اس نے ہمیں بھی دیکھا اور ہماری نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے کارتوسوں کو بھی دیکھا دوڑ کر آیا بولا ہٹو ہٹ جاؤ ابھی یہ ڈز کر کے پھٹ جائیں گے اور تمہارے چیتھڑے اڑ جائیں گے ہٹو دور ہو جاؤ، پھر آیا اور قریب سے مٹی اٹھا کر کارتوسوں پر ڈالنے لگا، دونوں پنجوں کو مٹی میں چھپا کر ہم سے بولا ۔۔۔ بھاگو ۔۔۔ کہیں اگر یہ پھٹ گئے تو ۔۔۔ ہم وہاں سے بھاگ آئے۔

اس بوڑھے شخص کی بات اس لیے بھی ماننا پڑی کہ وہ اکثر مسجد میں بتاتا رہتا تھا کہ پچاس سال سے اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹی ہے اور چالیس سال سے کبھی نماز باجماعت قضا نہیں ہوئی ہے۔

خیر امریکا جانے اور نماز باجماعت، سوری کارتوسوں والے جانیں کہ اصل بات کیا ہے لیکن اخباری خبروں سے اکثر پتہ چلتا رہتا ہے کہ یہ امریکا والے کم از کم سارے کے سارے برے نہیں ہوتے بقول طہٰ خان سارے حاجیوں کو برا مت کہو کہ ان میں ایک دو واقعی حاجی بھی ہو سکتے ہیں مطلب یہ کہ امریکی لوگوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور اگر ان کی ’’ڈالر کرم‘‘ کسی پر ہو جائے تو پھر تو بہت ہی اچھے بھی کہہ سکتے ہیں کاش وہ قتالہ عالم کنڈولیزا  رائس بھی ان اچھے اور ڈالر کرم کرنے والے لوگوں میں سے ہوتی

شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ان نیک اور چنیدہ اور خدا ترس بلکہ خواتین ترس لوگوں میں سے ایک لاس اینجلس والے نے خواتین کی تکالیف محسوس کرنے اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے پورا دن ’’ہائی ہیل‘‘ پہن کر گزارا دفتر گیا ریستوران میں قدم رنجہ ہوا اور بازاروں میں پھرا کیا ۔۔۔ نہ صرف اس نے خواتین کے ساتھ یک جہتی کو باقاعدہ رجسٹرڈ کیا بلکہ پیسہ بھی وصول ہو گیا کیونکہ خواتین نے اس کو تحسین کی نظروں سے دیکھا ایپریشی ایٹ کیا اور داد دی، وہ دراصل خواتین کی اس تکلیف بلکہ اذیت کا احساس کرنا چاہتا تھا جو خواتین کو ہائی ہیل پہن کر چلتے پھرتے ہوتی ہے۔

جو لوگ انسانیت اور انسانی ہمدردی کی طرف سے مایوس ہو چکے ہیں ان کے لیے مژدہ ہو کہ حالات اتنے بھی ناگفتہ بہ نہیں ہیں بلکہ ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں، امریکا میں صرف وہ لوگ ہی نہیں پائے جاتے جو عراق، افغانستان یا دوسرے مقامات پر انسانی کھوپڑیوں سے بیس بال کھیلتے ہیں خون کی ندیوں میں تیراکی کرتے ہیں اور یا خدا کی زمین پر قبرستانوں کا رقبہ بڑھاتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خواتین کے درد میں ایڑی سے ناک تک بھرے ہوئے ہیں۔

اخبار کی اس خبر میں ذکر نہیں ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس شخص کو اخباروں اور چینلوں والوں نے بھی توجہ دی ہو گی اور اس عظیم کارنامے پر اس کے خیالات کو دنیا تک پہنچایا ہو گا مثلاً ’’میں خواتین کو ہائی ہیل پہن کر چلتے ہوئے دیکھتا تھا تو دل میں برچھیاں سی چل جاتی تھیںجگر میں خنجر لگ جاتے اور دماغ میں ’’سو تیر‘‘ پیوست ہو جاتے تھے کہ رات رات بھر روتا رہتا تھا کڑھتا رہتا تھا کہ خواتین پر کتنا بڑا ظلم کتنا بڑا اتیاچار ہو رہا ہے۔

ایک تن نازک اور اس پر اتنی تکلیف، اک تیر سا سینے میں مارا کہ ہائے ہائے، پھر میں نے سوچا، غور کے حوض میں غوطے لگائے، ضمیر کے ساتھ مذاکرات کیے، دل سے مشورہ لیا، دماغ کو آمادہ کیا کہ خواتین کے اوپر اس ’’ہائی ہیل‘‘ ظلم کا کچھ کیا جائے‘‘

یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

پھر خدا کا مجھ پر کرم ہوا غیب سے یہ ’’مضمون‘‘ خیال میں آیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک طرح سے القا ہوا کہ پس چہ بائد کرد اے اقوام غرب ۔۔۔ ہائی ہیل خریدے، پہنا اور خراماں خراماں عازم دفتر ہوا، تب ایڑی سے درد کا ایک مرغولہ اٹھا دماغ میں بگولا بنا اور بیچ بجریا میری نیک نامی ہوئی، خواتین مڑ مڑ کر میری طرف دیکھتی تھیں مسکراتی تھیں عش عش کرتی تھیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں داد دیتی رہیں کہ جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار کوئی تو ایسا مرد ملا جس نے ہمارے درد کو سمجھا اذیت کا احساس کیا اور غم بانٹا ۔۔۔ بلکہ ایک خاتون نے تو میری طرف ایک ’’کیس‘‘ بھی کس کر اچھالا اور بولی

ہر پیشہ گماں مبرد کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد

معلوم نہیں کہ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والے کچھ کریں گے یا نہیں لیکن ہم تو اس شخص کو دل کھول کر داد دیتے ہیں کتنے زمانے بیت گئے کتنی صدیاں گزر گئیں کہ خواتین ہائی ہیل کی یہ اذیت سہہ رہی ہیں اور یہ سب ان مردوئے لوگوں کا کیا دھرا ہے کہ ہمیشہ خواتین پر ظلم کرتے رہتے ہیں ان بے چاریوں سے میک اپ کرواتے ہیں،۔

لپ سٹک اور نیل پالش لگانے پر مجبور کرتے ہیں، دن رات نہ جانے کتنے کیمیکل استعمال کرواتے ہیں بالوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کرواتے بلکہ ظلم کی انتہا کرتے ہوئے یہ سنگدل بے رحم اور ظالم مردوئے بچے بھی خواتین سے جنواتے ہیں۔ حد ہو گئی ہے ظلم اور اتیاچار کی ۔۔۔۔ لیکن بس ختم شد، دی اینڈ اب اور نہیں اور نہیں اور نہیں کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔