گوادر کا پاکستان سے الحاق ؛ تاریخی حقائق کا جائزہ

ضیاء کھوکھر  اتوار 30 اگست 2015
1958ء میں جب میں لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر اکرام اﷲ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی:فوٹو : فائل

1958ء میں جب میں لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر اکرام اﷲ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی:فوٹو : فائل

گوادر کی سلطنتِ اومان سے پاکستان کو منتقلی کے حوالے سے بعض حلقے یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ فوجی آمر ایوب خان کا کارنامہ تھا، جب کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ ایوب خان کی حکومت نے مسقط کے حکام سے گوادر خریدا تھا۔ معروف لکھاری اور کالم نگار رفیع الزمان زبیری نے گذشتہ سال روزنامہ ایکسپریس‘‘ میں اپنے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا تھا:-

’’فیروزخان نون نے گوادر کا ڈھائی ہزار مربع میل علاقہ (رقبہ) جو اس وقت مسقط کے قبضہ میں تھا پاکستان کو واپس دلانے کے لیے برطانیہ کو آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘

[روزنامہ “ایکسپریس” اسلام آباد 24.01.2014]

پاکستان کی موجودہ نسل فیروزخان نون، سابق وزیراعظم پاکستان، کی شخصیت سے واقف نہیں ہے۔ ہم رفیع الزمان زبیری کے آرٹیکل سے مزید دو اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ زبیری صاحب کے بقول:-

’’ملک فیروز خان نون کو سرکاری حلقوں میں کوئی قابل یا دبنگ سیاست داں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عام شہرت یہ تھی کہ وہ سیدھے سادے آدمی ہیں۔ پنجاب کے ایک مشہور انگریز پرست خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جنہوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور انگریزوں کے منظورِ نظر ہوگئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے نئی دہلی میں وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر تھے۔

1945ء میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنرتھے۔ 1946ء میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، آزادی کے بعد وہ مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے۔ تین برس اس عہدے پر رہے اور پھر ملک کے وزیرخارجہ بنے۔ 1957ء میں ملک فیروز خان نون کو پاکستان کا وزیراعظم مقرر کر دیا گیا۔‘‘

’’جب انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں پوری تندہی سے ادا کیں۔ ان میں نہ قوتِ فیصلہ کی کمی تھی اور نہ ہی وہ کسی مسئلہ کو التواء میں ڈالنے کے قائل تھے۔ قومی مفاد کا معاملہ ہو تو وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوتے۔ ان میں بڑی بڑی گُتھیاں سلجھانے کی صلاحیت تھی اور اس سے انہوں نے کام لیا۔‘‘

زیرنظر موضوع پر ہم الطاف گوہر کی کتاب ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ الطاف گوہر نے لکھا ہے:-

’’ملک (فیروزخان نون) صاحب نے برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میکملن کو اس بات پر قائل کر لیا کہ گوادر کا دو ہزار چار سو مربع میل کا رقبہ پاکستان کو واپس کر دیا جائے، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا، اس لیے کہ گوادر مسقط کے قبضے میں تھا ور مسقط سے برطانیہ کا انتہائی قریبی تعلق تھا۔ گوادر کی واپسی کے معاملے کو ملک (فیروزخان نون) صاحب نے انتہائی خوبی اور دوراندیشی سے سلجھا دیا۔ آج گوادر اگر پاکستان کو واپس نہ مل چکا ہوتا تو مکران کے ساحل پر ہمارے دفاعی نظام کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔‘‘

[’’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘‘ صفحہ نمبر177]

پاکستان کے معروف دان شور، قانون داں اور سابق جج سید افضل حیدر نے اپنی تازہ ترین تصنیف ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ میں لکھا ہے:- “پاکستان کی حکومت نے وزیراعظم فیروز خان نون کی کوشش سے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنایا تھا۔‘‘

[’’حریک بحالی جمہوریت‘‘ صفحہ نمبر 147]

گوادر کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں اب ہم ایک انتہائی اہم شہادت اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ملک فیروز خان نون نے اپنی خودنوشت داستانِ حیات ’’چشم دید‘‘ میں لکھا ہے:-

’’مجھے پاکستان میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ہیرالڈ میکملن اور لیڈی ڈورتھی کے خیرمقدم کا بھی شرف حاصل ہوا۔ مسٹر میکملن پاکستان کے بہت اچھے دوست ہیں۔ میں مسٹرمیکملن اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر سلوِن لائیڈ کا ذاتی طور پر ممنون ہوں جنہوں نے گوادر کے معاملہ میں میرے ساتھ دوستانہ اعانت کا سلوک روا رکھا۔‘‘

’’ہمارے دور کی تاریخ گوادر کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گی۔ دو ہزار چارسو مربع میل کا یہ علاقہ (گوادر) پاکستان کو واپس مل گیا۔ لیکن اس کارنامہ پر نہ تو جشن منایا گیا اور نہ ہی اس کی قرارِ واقعی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور صدر سکندر مرزا سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس موقع پر جشن وغیرہ نہیں منایا جائے گا کیوںکہ اس طرح سلطانِ مسقط کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ تھا۔‘‘

’’پاکستان کے جنوبی ساحل پر پینتالیس (45) میل مشرق میں، جہاں ایران کی سرحد بحیرہ عرب سے ملتی ہے، گوادر کی بندرگاہ واقع ہے۔ مسقط کے ایک شہزادے نے 1781ء میں قلات کے حکم راں کے یہاں پناہ لی تھی۔ قلات کا حکم راں اس وقت ایک خودمختار بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ نے گوادر کی سالانہ آمدنی جو چوراسی (84) ’’تنکا‘‘ (شاید چوراسی(84) روپے ) ہوتی تھی، شہزادے کی گزرِ اوقات کے لیے اس کے حوالے کر دی۔ بعد میں جب یہ شہزادہ مسقط کا بادشاہ ہوا تو اس نے گوادر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا اور اسے قلات کے حوالے نہیں کیا، حالاںکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کا محتاج نہ تھا۔

برطانیہ نے 1839ء میں قلات فتح کیا تو یہاں (گوادر) کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکم راں نے بعدازاں 1861ء میں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ نے قلات اور مسقط کے درمیان مداخلت کی۔

تاہم اس (برطانیہ) نے کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کرنے سے احتراز کیا۔ 1947ء میں پاکستان قائم ہوا تو حکومتِ پاکستان نے یہ مسئلہ ایک بار پھر اٹھایا اور 1949ء میں مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے کے بغیر ناتمام رہ گئے۔ جب میں (ملک فیروزخان نون) 1956ء میں وزیرِخارجہ مقرر ہوا تو میں نے گوادر سے متعلق کاغذات طلب کیے اور اس قضیے کا بغورمطالعہ کرنے کے بعد حکومتِ برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کر دیا۔

برطانیہ کے سامنے ایک مشکل کام آ پڑا تھا۔ ایک طرف دولتِ مشترکہ کا ایک رکن تھا اور دوسری طرف یارِوفادار سلطان مسقط، جس کے ساتھ ڈیڑھ سو (150) سال کے گہرے مراسم تھے۔ ان دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ میری توقعات کا پارہ کبھی اوپر چڑھتا تھا اور کبھی نیچے گر جاتا تھا۔ ادھر گفت و شنید بدستور جاری رہی۔ یہاں تک کہ میں نے 1957ء میں وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔‘‘

’’میں نے اس قضیے کی تاریخ میں پہلی بار یہ قانونی نکتہ اٹھایا تھا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ وہ ریاست کا ایک علاقہ ہے جسے ایک شخص کو اس لیے تفویض کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے واجب الادا ٹیکس وصول کرے اور اسے اپنی گزراوقات کے لیے تصرف میں لائے یا اس رقم کو اپنی تنخواہ قیاس کرے۔

اس طرح کی امداد سے اقتدارِاعلیٰ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوخ کر دی ہیں جو بہت سے لوگوں کو برطانیہ سے اپنی خدمات کے صلے میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی گئی تھیں۔ چوںکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی، لہٰذا اس کی تنسیخ بھی کی جاسکتی تھی اور اس علاقے پر قبضہ بھی ممکن تھا۔

میں نے اس دلیل کا تذکرہ اپنے کسی برطانوی دوست سے دھمکی کے طور پر نہیں کیا، تاہم یہ ایک قانونی نکتہ تھا جو عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں ہمارے کام آسکتا تھا۔ برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی۔ اگر پاکستان کی فوج اس علاقے پر قبضہ کرلیتی تو کیا برطانوی حکومت دولتِ مشترکہ کے اس ملک پر بم باری یا فوج کشی کردیتی جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ ہیں؟‘‘

’’پاکستان کا دولتِ مشترکہ میں رہنا اس کے لیے بہت سودمند ثابت ہوا۔ بصورتِ دیگر ہماری حالت مسقط اور اس کے ملحقہ علاقوں کے مقابلے میں اومان (عمان) کے امام سے کچھ زیادہ بہتر نہ ہوتی اور ہمارے دعوؤں کو ایک غیرملکی طاقت کی دھمکی تصور کیا جاتا۔ برطانوی وزیراعظم مسٹر میکملن، وزیر خارجہ مسٹرسلون لائیڈ اور وزیرامورِ دولت مشترکہ لارڈہوم نے اس سارے معاملے میں جو منصفانہ رویہ اختیار کیا اس کا مجھے تہہ دل سے اعتراف ہے۔

انہوں نے کسی بھی فریق پر دباؤ نہیں ڈالا۔ چناںچہ گوادر کی منتقلی نہایت خوش اسلوبی سے رُو بہ عمل آئی۔ قدرتی بات ہے کہ اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑا لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور اس کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔‘‘

ملک فیروز خان نون کے بقول،’’گوادر میں ماہی گیری کی صنعت سے جو ٹیکس وصول ہورہا ہے معاوضے کی رقم اس کی چند برس کی آمدنی کے برابر ہوگی۔‘‘

’’1958ء میں جب میں لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر اکرام اﷲ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میرے حوالے کی۔ اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ گوادر جب تک ایک غیرملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتی ہے۔‘‘

’’گوادر اسمگلروں کی جنت تھی۔ ہم نے جتنی رقم اس کے معاوضے میں ادا کی ہے وہ چند ہی برسوں میں کسٹم کے محصول سے وصول ہو جائے گی۔ گوادر کے راستے سے اسمگل ہونے والا سستا سامان اور سونا پہلے بلوچستان میں جگہ جگہ بکتا تھا۔ اب اسمگلروں کی مجرمانہ سرگرمیاں اسی سمندر میں غرق ہوچکی ہیں۔ ہم اب خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں اور سلطانِ مسقط کو بھی پاکستان جیسا زبردست دوست اور حلیف ملک مل گیا ہے۔‘‘

[ملک فیروز خان نون کی خودنوشت سوانح عمری ’’چشم دید‘‘ صفحہ نمبر 410-414]

ہم گوادر کو پاکستان میں شامل کرنے کا سہرا ایوب خان کے سر باندھنے والوں سے التماس کرتے ہیں کہ عمان سے گوادر واپس حاصل کرنے کا اعزاز ایک نیک نام اور دیانت دار سیاست داں، متحدہ پاکستان کے آخری وزیراعظم ملک فیرزخان نون سے چھین کر فوجی حکم راں جنرل ایوب خان کی کلغی میں لگانے کی کوشش نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔