جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ہے

رضوانہ قائد  اتوار 30 اگست 2015
ارضِ وطن کا پیش بہا حسن اور قدرتی دولت ابتدا ہی سے دشمن کی آنکھوں کو کھٹک رہا ہے۔ فوٹو :فائل

ارضِ وطن کا پیش بہا حسن اور قدرتی دولت ابتدا ہی سے دشمن کی آنکھوں کو کھٹک رہا ہے۔ فوٹو :فائل

’’جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ہے‘‘ خوبصورت اور حسین تصورات کا حامل یہ جملہ ہم نے اپنے شمالی علاقہ جات کے حالیہ تفریحی سفر کے آغاز میں ایک پہاڑی پتھر پر لکھا دیکھا۔ پھر واقعی تمام تر سیاحت اسی جملے کی عکاس رہی۔ پہاڑوں کے ویرانوں میں قدم قدم پر حیرت انگیز خوبصورت مناظر اور انکی رونقیں، الٰہی مدد کے بغیر ممکن نہ تھیں۔ ہماری سیاحت کا مرکز وادیِ کاغان تھی۔ قدرتی حسن کا شاہکار یہ وادی خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں واقع، دنیا کے سب سے عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ کا حصہ ہے۔ یہ بالا کوٹ شہر سے شروع ہو کردرہِ بابو سر پر ختم ہوتی ہے۔

بالاکوٹ یہاں کا اہم اور بڑا شہر ہے۔ اس شہر کو تحریکِ آزادی کے اولین ہیرو سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل شہید کا مدفن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بالاکوٹ کے ان شہ سواروں نے کفر و ظلم کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑتے ہوئے یہاں شہادت پائی تھی۔ وادیِ کاغان کی شہہ رگ دریائے کنہار اپنی تمام دلفریبوں کے ساتھ اس شہر کے بیچ سے ہوتے ہوئے، تمام وادی میں سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا گزرتا ہے۔ دریا کی تندو تیز اچھلتی کودتی شور مچاتی لہریں اور اطراف کے بلند و بالا پُرشکوہ پہاڑ اب بھی ان شہ سواروں کی داستانِ عزیمت سناتے محسوس ہوتے ہیں۔ دل میں یہ خواہش جاگ اٹھی کہ کاش ظلم کے آج کے دور میں بھی قوم کو ایسے دلیر میسرآجائیں۔

کراچی کے مخصوص اور ہنگامی ماحول سے نکل کر یہاں کے ہوشربا نظاروں نے ہمیں جیسے کسی جادو نگری میں دھکیل دیا تھا۔ اونچے نیچے پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے طویل، بل کھاتے، پتھریلے اور کسی قسم کی حفاظتی انتظامات سے عاری انتہائی دشوار گزر راستوں پر سفر، واقعی مقامی ڈرائیور حضرات کی مہارت اور قدرت کی حفاظت کے گہرے ثبوت تھے۔ ہمارا اگلا پڑاؤ حسین جھرنوں، آبشاروں، چشموں اور جگمگاتی جھیلوں سے مزین ناران تھا۔ یہ مری کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا پسندیدہ ترین ہل اسٹیشن ہے۔ میدانی علاقوں کی جھلسا دینے والی گرمی سے نکل کر آنے کے بعد یہاں کی خوشگوار ٹھنڈک اور فطری تازگی نعمت محسوس ہو رہی تھی۔

پہاڑی علاقوں کا ماحول عام شہری علاقوں کے مقابلے میں انتہائی دشوار گذار ہونے کے باوجود بہت پُرسکون نظر آیا۔ ہر کوئی اپنی اپنی سرگرمیوں میں مگن اور خوش و مطمئن، بیشتر مقامات پر پانی بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضرورتوں کا معقول انتظام نہ ہونے کے باوجود زندگی نہ صرف رواں دواں بلکہ خوش باش نظر آئی۔ حکومتی نظرِ کرم نہ ہونے کے باوجود مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت سیاحوں کی مہمان نوازی کا قابل تعریف انتظام کیا ہوا ہے۔ بجلی کا انتظام تو خیر جنریٹر کے ذریعے تھا لیکن پانی کے انتظامات دیکھ کر تو عقل ہی دنگ رہ جاتی تھی۔ ہر چند قدم کے فاصلے پر آبشاروں اور چشموں کے پانی کو بڑی مہارت کے ساتھ پائپ اور ٹینکوں کے ذریعے قابلِ استعمال بنایا گیا ہے۔ چونکہ یہ پائپ پہاڑوں کی بلندیوں پر نصب کئے جاتے ہیں اس لئے پانی کی روانی میں بھی کبھی خلل نہیں آتا۔

کراچی میں پانی کو تبرک کی طر ح استعمال کرنے والوں کے لئے یہ سب بے حد خوش کن اور امید افزا تھا۔ کاش ہمارے ہمدرد سیاستدان اس معاملے میں بیان بازی اور باہمی الزام تراشی سے ہٹ کر ان پہاڑی لوگوں سے ہی سبق سیکھ لیں تو پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ حل تلاش کر سکیں۔

حسین و دلفریب بہتے چشموں اور آبشاروں پر آراستہ ’’آبشار کیفے‘‘ خوبصورت وادیوں میں اپنی جھلک دِکھلا رہے تھے۔ ناران کے بعد دیگر چھوٹے بڑے مقامات کی سیر کرتے ہوئے، ہماری اگلی جائے قیام پھر ایک انتہائی دشوار و گذار راستہ والی جھیل سیف الملوک تھی۔  یہاں کے راستے بھی اتنے خطرناک تھے کہ سفر کی دعا کی معنویت کا حقیقی احساس ہمیں انھیں راستوں کے سفر و سواری سے ہوا۔ انتہائی تنگ ناہموار پتھریلے راستے، خوفناک موڑ، عمودی بلند اور ڈھلوانی راستے، جن کے ایک جانب انتہائی بلند و بالا پہاڑ تو دوسری جانب گہری کھائیاں، اس صورت حال میں ان ٹیڑھے میڑھے راستوں پر ڈگمگاتی سواریوں اور سواروں کو بحفاظت قابو میں رکھنے والی خدائےِ واحد کی ذات پاک ہے۔ حسین بلند و بالا پہاڑوں میں گھری داستانوی شہرت کی حامل ملکہِ حُسن جھیل سیف الملوک قدرت کے حُسن کا بے مثال شاہکار ہے۔ جھیل کے اطراف میں پھیلا سبزہ زار، برفانی چشمے اور آبشار، سر سبز پہاڑوں کی برف سے ڈھکی چوٹیاں پھر سورج کی کرنوں کے ساتھ جھیل میں ان کا جھلملاتا دلربا عکس، بلا شبہ یہ سب اس جھیل کو داستانوی رنگ دینے کے لئے کافی ہیں۔

وادی کاغان کے خوبصورت ہوٹل کے دلکش ٹیرس پر حسین نظاروں کے درمیان بیٹھے اپنے سفر اور اس کے محسوسات کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے، دیگر کئی احساسات ہمارے ہمر کاب ہونے لگے۔ وطن کی یادوں کا تذکرہ ہو اور اسکی یادگاروں کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری ہی نہ رہ جائے۔ وطنِ عزیز بے شک بہت حسین ہے۔ مگر قائداعظم، ان کے عظیم رفقا اور عوام نے پاکستان کے حصول کی جدوجہد یقیناً اس کی حسن کی وجہ سے نہ کی ہوگی۔ ان کا مطمعِ نظر فقط اسلام اور مسلمان کی بقا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسلام کی خاطر اغیار سے آزادی عطا کی، بلکہ دنیا کے حسین ترین خطوں کا مالک بھی بنا دیا۔ اس ارضِ وطن کا پیش بہا حسن اور قدرتی دولت ابتداء ہی سے دشمن کی آنکھوں کی کھٹک بنی ہوئی ہے۔ اس کا ثبوت وطن عزیز کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشیں ہیں۔ ان کی سازشوں کے نتیجے میں نہ صرف ملک کے ایک حصے سے دستبرار ہونا پڑا بلکہ مستقل تاحال خطرات موجود ہیں۔

آج وطن عزیز کے سرحدی، عسکری، سیاسی، عدالتی، عوامی، اخلاقی، ہر محاذ پر دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وطن عزیز کو بنانے والے تو چند برس میں اسے بنا کر چلے گئے مگر 68 سال گزرنے کے بعد بھی یہ وطن نہایت کربناک حالت میں جلتی بجھتی اُمیدوں کیساتھ، اپنے تمام تر قدرتی حسن، قیمتی ذخائر، ذرخیز زمین، نوخیز اذہان، محنت کش جوان لئے اپنے بچانے والوں کا منتظر ہے۔ کیا آپ میں سے کسی کے پاس میرے وطن عزیز کے دکھوں کے لیے کچھ مداوا ہے۔۔۔؟

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوبِ فطرت ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔