مقبرہ ملکہ نورجہاں

مدثر بشیر  اتوار 30 اگست 2015
مقبرے کی بیرونی دیواروں میں کہیں کہیں کاشی کاری کے نمونہ جات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فوٹو : فائل

مقبرے کی بیرونی دیواروں میں کہیں کہیں کاشی کاری کے نمونہ جات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فوٹو : فائل

’’میں نے سارا لاہور خرید لیا ہے‘‘ یہ کہنا تھا مغل سلطنت کی انتہائی طاقتور ملکہ نور جہاں کا۔ ملکہ نور جہاں تاریخ کے اوراق پر نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک اور ہر دور کی خواتین میں ایک الگ حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔

شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں ان کے نام کا سکہ بھی جاری کیا گیا۔ اس سکے کی قیمت بادشاہ کے اپنے سکے سے بھی زائد تھی۔ عہد جہانگیری میں بادشاہ کے ہر اہم فیصلے کے پیچھے نور جہاں ہی کا ہاتھ ہوتا تھا۔ نور جہاں کی شہرت کا ایک سبب جہانگیر کی زندگی کے افسانوی عشق کا مرکزی کردار بھی ہونا ہے ۔

دربار کی سیاست میں نور جہاں کے اثرو رسوخ کے باعث ملکہ کے قریبی رشتے دار انتہائی اہم عہدوں پر فائز تھے اور اہل ایران کا مغلیہ دربار میں بہت زیادہ عمل دخل جاری رہا۔ وزارت عظمیٰ، سپہ سالاری اور بنگال کی گورنری تک نور جہاں کے قریبی رشتے داروں کے قبضے میں تھی۔ یہاں تک کہ ملکہ کی دائی کو صدر النساء کا خطاب عطا کیا گیا ۔

نور جہاں کی ابتدائی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ کسی بھی ہندوستانی فلم کی کہانی کی مانند دکھائی دیتی ہے ۔ نور جہاں کے والد کا نام مرزا غیاث بیگ تھا جوکہ ایران کے شہر تہران کے ایک انتہائی معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے والد کا نام خواجہ محمد شریف تھا جوکہ شہر کی معزز شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے۔

ان کی وفات کے بعد مرزا غیاث بیگ کے حالات تیزی سے تبدیل ہوتے گئے یہاں تک کہ تنگئی حالات کے باعث انہیں مجبوراً ایران سے ہندوستان کی جانب ہجرت کرنا پڑی ۔ مرزا غیاث بیگ اپنے دوبیٹوں ، ایک بیٹی اور بمعہ حاملہ بیوی کے ہندوستان کو روانہ ہوئے۔ روایات کے مطابق قندھار کے قریب ان کی بیوی نے ایک لڑکی کو جنم دیا اور اس کا نام مہرالنساء رکھا۔ مہرالنساء کے لفظی معنی ’’عورت کا سورج‘‘ کے ہیں اور یہ معنی آنے والے دنوں میں سچ ثابت ہوئے ۔

لیکن اس وقت تنگیٔ حالات، مجبوری اور افلاس سے مجبور ہوکر مرزا غیاث بیگ نے اپنی بیٹی کو ایک کپڑے کے ٹکڑے میں لپیٹا اور ایک درخت کے نیچے لٹا دیا اور آگے روانہ ہوگئے ۔ تقدیر کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ اسی دوران وہاں سے ایک قافلہ گزرا۔ لوگوں نے بچی کے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بچی کو سالار قافلہ ملک مسعود کے حوالے کردیا۔ جب قافلہ آگے بڑھا تو راستے میں ملک مسعود کی مرزا غیاث بیگ اور ان کی اہلیہ سے ملاقات ہوئی۔ ملک مسعود نے ان کی کچھ مالی مدد کی اور اس مدد کے عوض بچی کی آیا، بچی کی حقیقی ماں ہی منتخب ہوئی۔

ملک مسعود کی دربار اکبری تک رسائی تھی۔ ان ہی کے توسط سے مرزا غیاث کو دربار میں نوکری بھی مل گئی ۔ دربار کے مروجہ اصولوں کے باعث مرزا غیاث بیگ کی اہلیہ بھی اکبر شاہی بیگمات کو سلام کرنے دربار اور محلات جایا کرتی تھی ۔ یوں مہرالنساء کا بچپن اپنی ماں کے ساتھ درباری اور محلاتی امور سیکھنے میں گزرا اور اس نے جوانی کی حدود میں قدم رکھنے شروع کردیئے ۔

جب مہرالنساء کی عمر کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی تو شہنشاہ اکبر کی لاہور آمد ہوئی تو ان کے ایک درباری قاسم خاں نے دلکشا باغ میں ایک مینا بازار لگوایا۔ کچھ روایات میں ان کا باغ موجودہ گورنر ہاؤس والی جگہ پر تھا اور کچھ روایات میں شالا مار باغ کی جگہ پر موجود پرانے باغ میں اسی مینا بازار میں شہزادہ سلیم اور مہرالنساء کی، پہلی ملاقات ہوئی ۔ شہزادے سلیم نے مہرالنساء کو دو کبوتر پکڑائے اور تیسرے کبوتر کے پیچھے بھاگ گیا۔

کچھ دیر بعد شہزادہ جب واپس آیا تو مہرالنساء کے ہاتھ سے ایک کبوتر اڑ چکا تھا۔ شہزادے نے جب غصے سے کبوتر کے اڑ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کس طرح اڑ گیا تو مہرالنساء نے دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا اور کہا کہ اس طرح۔ مہرالنساء کے اس دلفریب انداز کو شہزادہ سلیم آخری دم تک نہ بھول سکا۔ سلیم کی دلچسپی جب مہرالنساء میں بڑھی تو شہنشاہ اکبر کے حکم پر مہرالنساء کی شادی علی قلی خان کے ساتھ کردی گئی ۔

بعدازاں اسے شیرافگن کا خطاب عطا کرکے بنگال بھجوا دیا گیا۔ بنگال ہی میں مہرالنساء نے اپنی اکلوتی بیٹی لاڈلی بیگم کو جنم دیا اور اس کے بعد وہ تمام عمر کسی دوسرے بچے کی ماں نہ بن سکی ۔ لاڈلی بیگم کی شادی جہانگیر ہی کے پانچویں بیٹے شہریار سے ہوئی جوکہ ایک ہندو دائی کے بطن سے تھا ۔ مہرالنساء اور شہزادے سلیم کی دربار میں ملاقات کے بارے میں کئی مؤرخین نے تحریر کیا۔

اس کی کچھ تفصیل اطالوی سیاح منوکی نے بھی تحریر کی۔ اس کے مطابق اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر نے جب تاج و تخت سنبھالا تو وہ لاہور ہی میں دریائے راوی کے کنارے اپنے تعمیر کردہ ایک محل میں موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اس نے ایک پردہ دار کشتی کو آتے دیکھا جس میں ایک انتہائی خوبصورت خاتون بیٹھی تھی ۔ دل پھینک جہانگیر نے جب اس خاتون کے بارے میں تفصیل جانیں تو معلوم ہوا کہ وہ خاتون اس کے بچپن کی پسند مہرالنساء تھی جوکہ اس وقت زوجہ شیرافگن تھی ۔

جہانگیر نے شیر افگن کو اپنے سوتیلے بھائی قطب الدین کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ وہ مہرالنساء کو آزاد (طلاق) کر دے ۔ شیرافگن نے نہ صرف انکار کردیا بلکہ قطب الدین کو قتل بھی کردیا۔ جہانگیر نے بعدازاں شیرافگن کو ایک سازش کے ذریعے پٹنہ میں قتل کرادیا اور مہرالنساء کو گرفتار کرکے آگرہ بھجوا دیا گیا۔ جہانگیر کو مہرالنساء کو شادی کے لیے راضی کرنے کے لیے چار برس کا طویل عرصہ لگا۔ چار برس کے بعد مہر النساء نے شادی کے لیے ہاں کی اور اس وقت اس کی عمر جہانگیر سے دو برس زیادہ تھی ۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد مہرالنساء کو نور محل کا خطاب عطا کیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد نور محل کو نور جہاں کا خطاب دیا گیا اور اس کے نام کا سکہ بھی جاری کیا گیا جس پر بارہ بُرجوں کی شکل کندہ تھی۔ نور جہاں جوکہ درباری اور محلاتی امور پر بھر پور دسترس رکھتی تھی۔ اس میں ملکہ خاص بننے کی تمام صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ شہنشاہ جہانگیر کی زندگی کا مرکز محض نور جہاں تھی اور عنان حکومت نور جہاں کے حوالے تھے ۔ جہانگیر نے اپنی کتاب تزک جہانگیری میں خود یوں تحریر کیا۔

’’میں نے سلطنت نور جہاں کو سونپ دی۔ مجھے صرف ایک سیر شراب، آدھ سیر گوشت کے سوا کوئی چیز درکار نہیں۔‘‘

نور جہاں اپنی خوبصورتی میں بھی بے مثال تھی۔ رنگ گورا، ناک تیکھی، باریک اور آنکھیں موٹی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں بے پناہ عقلی اوصاف بھی موجود تھے۔ اپنی مادری زبان فارسی کے ساتھ ساتھ ترکی زبان کی بھی ماہر تھی ۔ فارسی میں شعر کہتی تھی ۔ فارسی کی کئی نظموں کی موسیقی خود ترتیب دی ۔ خواتین کے ملبوسات اور زیورات کی تیاری میں نت نئے تجربات بھی کرتی تھی ۔ نور جہاں کو عطر گلاب کا موجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔

ملکہ، بادشاہ کے ساتھ اکثر دلکشا باغ کے حوض میں عرق گلاب ڈلوا کر غسل کیا کرتی تھی ۔ ایک دن دونوں حوض کے کنارے کھڑے تھے کہ دھوپ کی شدت سے عرق گلاب سے بلبلے اٹھنے لگے ۔ ملکہ نے جب عرق گلاب کو سونگھا تو وہ عطر کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس اتفاقیہ تجربے سے اس نے عطر بنانے کا طریقہ بھی سیکھا ۔ (مورخین کی ایک بڑی تعداد اس پر متفق ہے کہ نور جہاں اس کی موجد ہے لیکن تزک جہانگیری میں یہ واقعہ نور جہاں کی والدہ سے منسوب ہے )

نور جہاں ایک ایشیائی دلیر خاتون بھی تھیں ۔ کئی مہمات اور شکار پر وہ بادشاہ کے ہمراہ ہوتی تھیں ۔ تزک جہانگیری میں نور جہاں کے ہاتھوں چار شیر مارے جانے کا بھی واقعہ درج ہے جوکہ ایک ہی شکار میں چار شیر مارے گئے تھے۔

جہانگیر کے آخری ایام میں جانشینی کی جنگ چھڑگئی ۔ نورجہاں جہانگیر کے بیٹے شہریار کو والی تخت بنانا چاہتی تھیں جوکہ ان کی اکلوتی بیٹی لاڈلی بیگم کا شوہر بھی تھا۔ دوسری جانب تخت کا وارث شہزادہ خرم بننا چاہتا تھا جوکہ نور جہاں ہی کے بھائی آصف جاہ کا داماد اور بھانجی ممتاز محل کا شوہر تھا۔

نور جہاں کی کوششوں کے سبب شہزادہ خرم جس کو شاہ جہاں کا خطاب ملا تھا اس کو جہانگیر نے بے دولت کا خطاب دیا اور آصف جاہ جوکہ ایک بادشاہ گر شخص تھے ان کی کوششوں کے سبب شہریار کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئیں اور بعدازاں قتل کردیا گیا۔ مغل عہد میں شہزادے پیدا ہوتے ہی دنیا کے انتہائی خوش قسمت انسان یا انتہائی بدقسمت انسان ٹھہرے کیونکہ ان کا انجام یا تخت پر ہوا یا تختہ پر ہوا۔ آصف جاہ نے حالات کو سنبھالنے کی خاطر اپنی سگی اور محسن بہن نور جہاں کو قید میں ڈالنے سے بھی گریزاں نہ کیا۔ امور سلطنت پر مکمل قابو پانے کے بعد شاہ جہاں نے انتہائی احترام کے ساتھ ملکہ کو آزاد کردیا۔

شوہر اور داماد کی موت کے بعد نور جہاں نے امور مملکت سے مکمل طور پر کنارہ کشی کرلی۔زندگی گزارنے کے لیے نور جہاں کے باپ اور شوہر کی چھوڑی جائیداد ہی کافی تھی ۔ لیکن شاہ جہاں نے بصد احترام ان کے لیے دو لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کیا جوکہ اس عہد کی ایک کثیر ترین رقم تھی۔

ترک سلطنت امور کے بعد نور جہاں نے غریب اور یتیم لڑکیوں کی بہبود کے لیے بہت کام کیا اور سینکڑوں لڑکیاں اپنے ہاتھ سے بیاہیں۔ نور جہاں، جہانگیر کی وفات کے بعد اٹھارہ برس تک زندہ رہیں اور 72 برس کی عمر میں وفات پائی ۔ تاریخ کی کچھ کتب میں 29 شوال 1055 ھ بمطابق 1645ء ہے اور کچھ کتب میں ماہ ربیع الثانی بروز شنبہ 1055ھ بمطابق 28 مئی 1645ء ہے۔ انہیں لاہور میں انہی کے تیار کردہ مقبرے میں دفن کیا گیا۔ ان کی اپنی بیٹی لاڈلی بیگم سے محبت بھی انمٹ تھی ۔ دونوں ماں بیٹی ایک ہی جگہ ایک مقبرے میں دفن ہوئیں۔

احوال مقبرہ:۔
شہر لاہور کے قریب دریائے راوی کے دوسرے پار شاہدرہ کی سرزمین پر عہد اکبری اور عہد جہانگیری میں سب سے خوبصورت باغ قاسم خان کا تھا جوکہ نور جہاں کی خواہش پر مغل املاک میں شامل کیا گیا اور دلکشا باغ کا نام دیا گیا۔ اس باغ کی ایک سیدھ میں نور جہاں کے شوہر شہنشاہ جہانگیر اور دوسرے احاطے میں بھائی آصف جاہ کے مقبرے موجود ہیں۔ شہر لاہور سے ایک خاص لگاؤ کے باعث نور جہاں نے جہانگیر کی وفات کے بعد زیادہ تر وقت لاہور میں گزارا ۔

انہوں نے دلکشا باغ کے باہر ایک محل بھی تعمیر کیا جس کی دیواریں دلکشا باغ کے ساتھ متصل تھیں ۔ اسی محل کے جنوب کی جانب چار چھوٹے چھوٹے باغ تھے جن کا طول و عرض سوگز سے زائد نہ تھا۔ اس جگہ کو چہار چمن کا نام دیا گیا اور ان ہی کے وسط میں نور جہاں نے اپنی زندگی میں مقبرہ تیار کروایا۔ جس پر چار برس کا طویل عرصہ اور تین لاکھ روپے سے زائد کی خطیر رقم خرچ ہوئی ۔ مقبرہ کی بنیادی تعمیر میں سنگ سرخ کا استعمال کیا گیا اور ایک ایشیائی خوبصورت گنبد بھی تعمیر کیا گیا۔ جس کا اب کوئی نام و نشان باقی نہیں ۔ مقبرے کی جنوبی سیدھ میں ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کی گئی جوکہ اب ناپید ہے ۔

اس کی تعمیر میں سنگ مر مر، سنگ ابری، سنگ زرمہ سرخ پتھر کے علاوہ دیگر قیمتی پتھر بھی استعمال کیے گئے تھے۔ مقبرے کے چاروں جانب حوض تھے جن کے کھنڈرات عہد حاضر میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔مقبرے کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔339) پر یوں تحریر کیا ہے ’’یہ مقبرہ، مقبرہ آصف جاہ کی چار دیواری کے باہر بجانب غرب بہ فاصلہ ریلوے سڑک کے واقع ہے۔‘‘

اس مقبرے کی عمارت عجیب طرح کی بنائی گئی ہے کہ تمام عمارت محراب دار قالبوتی ہے۔ ہر ایک سمت کو سات ساتھ دہن، تمام مکان کے بیرونی اٹھائیس دہن شمار میں آتے ہیں۔ بیچ میں چار چار دوریاں شرق سے غرب، جنوب سے شمال تک، ہر طرف کھلا میدان ہے۔ وسط میں ایک علیحدہ درجہ دکھلایا گیا ہے جس کے تین تین در ہر طرف، کل بارہ در ہیں ۔

اس کے وسط میں ایک چبوترہ اور چبوترے کے اوپر دو قبریں۔ ایک نور جہاں بیگم ملکہ زمانی اور دوسری اس کی دختر کی ۔ تمام مکان کی چھت قالبوتی ہے ۔ جنوب کی طرف سے زینہ اوپر جانے کا، اندرونی درجے کے نیچے ایک تہہ خانہ مکلف بنا ہوا ہے جس کا رستہ جنوب کی سمت کو سلامی کے طور پر بنا ہوا ہے اور لوگ اس میں اتر جاتے ہیں ۔

یہ مکان بھی شاہ جہاں عہد میں نہایت مکلف و سنگین بنایا گیا تھا ۔ اندر کا چبوترہ اور دونوں قبریں سنگ مر مر کی تھیں اور باہر کی دیواروں پر سنگ سرخ تھا۔ فرش سنگ ابری کا تھا ۔ جب اس کے بھائی آصف جاہ کے مقبرے کا پتھر اترا تو وہی آفت اس مقبرے پر آئی ۔ سب پتھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر اتار لیا گیا ۔ تہہ خانے کا دروازہ کھول کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ دونوں نعشوں کے آبنوسی صندوق دو سنگین مہدوں میں رکھے ہیں ۔ چنانچہ مہد لے لیے گئے اور نعشیں زمین میں دفنائی گئیں اور مقبرے کی مرمت اینٹ اور چونے سے کرائی گئی۔‘‘

گردش ایام نے اس مقبرے سے کوئی اچھا سلوک روا نہ رکھا۔ سکھا شاہی دور میں اس مقبرے کے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔ لیکن اس مقبرے کی بربادیوں کا سلسلہ انگریز سرکار کے عہد میں اس وقت بڑھ گیا جب ریلوے لائن گزارنے کی خاطر اس عظیم الشان مقبرے کی چار دیواری کو گرا کر اس کے وجود کو مقبرہ جہانگیر سرائے شاہ جہانی اور مقبرہ آصف جاہ سے علیحدہ کردیا گیا۔

ریلوے لائن اور سڑک کی وجہ سے ان عظیم الشان عمارات میں فاصلہ بڑھتا گیا۔ تقسیم سے قبل ایک عرصہ تک دونوں قبور جوکہ پردہ داری کے باعث تہہ خانے میں بنائی گئی تھیں۔ اس جگہ کو دیہاتی لوگ بطور بیت الخلاء استعمال کرتے رہے۔

عہد حاضر میں بھی مقبرے کی حالت انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مقبرے کے گرد باغات کے ایک بڑے حصے پر سرکاری دفاعی ادارے نے ایک باڑ لگا کر اپنے استعمال میں رکھا ہوا ہے۔ تاہم تھوڑے عرصے سے مقبرے کی چاردیواری شروع کی گئی ہے جو مقبرے کی اصل حدود سے کافی اندر ہونے کی وجہ سے مقبرے کا رقبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ مقبرے کی مغربی اور شمال سیدھ کی دیواروں پر ستر کی دہائی میں کچھ کام ہوا تھا جبکہ مشرقی اور جنوبی سیدھ کی دیواریں آج روز تک بغیر پتھر کے ہیں۔ عمارت کے وسط میں دونوں قبور کے تعویذ دکھائی دیتے ہیں جن پر سنگ مر مر لگا ہوا ہے۔

ان پر اسمائے ربی کندہ ہیں جبکہ لاڈلی بیگم اور نور جہاں کی اصل قبور نیچے تہہ خانے میں ہیں جن کے گرد فرش برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اردگرد لوہے کی زنجیریں باندھ کر ان نشانوں کا احترام باقی رکھا گیا ہے جبکہ اوپر والی منزل پر حکیم حافظ محمد اجمل خان دہلوی حاذق الملک بہادر مرحوم کی طرف سے سنگ مر مر کی ایک لوح نصب ہے جس پر یہ تحریر ملتی ہے۔

۷۸۶
تاریخ وفات ملکہ نور جہاں
پس از فراق دہ و ھشت شد یک جا
رواں مہرالنسا بیگم و ملک بہ جناں
بہ یاد بانوئے ہندوستان سروشم گفت
سنین ہجرت و تاریخ عیسوی تواماں
ہزار و پنجرہ و پنج رفتہ از ہجرت
بلے بہ پیش جہانگیر رفتہ نور جہاں
حاذق الملک حکیم محمد اجمل خان در 1913ء بمطابق 1430ہجری
ایں لوح دا نصب کرد نہ
شاید نور جہاں کو اپنے مقبرے سے ہونے والے سلوک کا علم پہلے سے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک نور جہاں کی خود تحریر کردہ لوح بھی نصب تھی جوکہ ہمیں پران نوئل کی یادداشتوں میں یوں ملتی ہے۔

درمزار ماغریبا نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے

مقبرے کی عمارت میں موجود تہہ خانوں کے باعث، زمینی منزل کے چاروں جانب روشن دانوں کے لیے سفید جالیاں نصب کی گئیں تھیں جوکہ اب چونے کی ہیں ۔ مقبرے کی مشرقی جانب چبوترے کے ساتھ نیچے تہہ خانے کو جانے کا رستہ ہے جس پر ایک لوہے کا دروازہ ہے اور عوام الناس کے لیے بند ہے۔ اس دروازے سے نیچے اترنے کے لیے کچھ سیڑھیاں ہیں ۔ دائیں جانب ایک سرنگ کا راستہ ہے جو بند کردیا گیا ہے۔

اس سے آگے ایک محرابی گزرگاہ ہے۔ جس سے انسان کو سر جھکا کر گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں پر کسی بھی قسم کی برقی آلات کی سہولت موجود نہیں ۔ خصوصی اجازت سے اندر جانے والے لوگ اپنے ساتھ موم بتیاں لے کر جاتے ہیں ۔ اندر لوہے کی زنجیر کے اندر دونوں قبور کے نشان ہیں ۔ نہ کوئی آرائش، نہ کوئی زیبائش بس ایک خاموشی اور چاروں طرف تاریکی ہے۔ اندر جانے والے لوگ کئی لمحوں تک رنج و الم کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں جب وہ تاریخ کی ایشیا کی طاقتور ملکہ کے مقبرے کی حالت کو دیکھتے ہیں۔

مقبرے کی بیرونی دیواروں میں کہیں کہیں کاشی کاری کے نمونہ جات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

مقبرے کے مشرقی احاطے میں اردگرد کے گھروں کے لوگ اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔ شمال کی جانب ٹوٹے جنگلوں کے ساتھ پھلوں کے ٹھیلے دکھائی دیتے ہیں۔ عمارت کی مغربی سیدھ میں محکمہ آثار قدیمہ کا ایک دفتر بھی موجود ہے جو سیر کرکے آنے والے لوگوں کے لیے ٹکٹ بھی جاری کرتے ہیں۔ سرشام مقبرے میں نشہ باز لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ یہ مقبرہ نسوانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔

کیونکہ کئی صدیاں قبل اس عظیم خاتون نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت سے عملی کام کیے تھے۔ یہ مقبرہ آج بھی سرکار کی توجہ کا منتظر ہے ۔ اس کا مضبوط ڈھانچہ ، محرابی دروازے اور روشیں اور باغ کے لیے ایک وسیع رقبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ماضی کی اس عظیم یادگار کو سنبھالا جاسکے۔ اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں ہمیں سکھا شاہی اور انگریز سرکار کے عہد سے بھی زیادہ بدتر گردانیں گی ۔

آخر میں احسان دانش کی ایک نظم کے چند اشعار جو ’’نور جہاں کے مزار پر‘‘ درج ہے :

شاہدرہ کی یہ زمیں یہ غم و عبرت کا دیار
ذرہ ذرہ ہے یہاں گردش دوراں کا شکار
خستگی بوڑ ھے خس و خار پہ چھائی ہوئی
کہنگی بولتے ماحول پہ منڈلائی ہوئی
خشک مٹی پہ یہ سوکھی ہوئی بوندوں کے نشاں
بیتتے وقت پہ دم توڑتے لمحوں کا گماں
نیلگوں دھند کے دریا میں یہ ٹھنڈک کا رچاؤ
یہ اندھیروں کے مضافات دھندلکوں کے پڑاؤ
یہ زبوں حال فضا، نور جہاں کا یہ مزار
جس کو ہر وقت ہے گھیرے ہوئے راہوں کا غبار

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔