بھارت سے کرکٹ کے لیے ملکی وقارکا سودا قابل قبول نہیں

سلیم خالق  اتوار 30 اگست 2015
کرکٹ ہو یا سیاست، باہمی تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں ۔  فوٹو : فائل

کرکٹ ہو یا سیاست، باہمی تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں ۔ فوٹو : فائل

’’کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘

ایک سیاستدان کا یہ مشہور جملہ ہمارے کرکٹ بورڈ پر پوری طرح صادق آتا ہے، زیادہ دور نہیں جاتا میں گذشتہ چند روز میں اخبارات کے مختلف صفحات پر شائع شدہ چند سرخیاں ہی بتاتا ہوں

فرنٹ پیچ:بلا اشعال بھارتی گولہ باری، 9شہری شہید47 زخمی

اسپورٹس پیچ: بھارت نے ابھی سیریز کھیلنے کے لیے انکارنہیں کیا، کھیل کو سیاست کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے، حتمی جواب کا مزید 2ماہ انتظار کریں گے: شہریار خان

فرنٹ پیچ: بھارتی فائرنگ سے 2 پاکستانی فوجی شہید

اسپورٹس پیج:کثیر مالی فائدے کا موقع ایسے ہی نہیں گنوا سکتے، بھارت سے سیریز کھیلنا چاہتے ہیں،حتمی صورتحال اگلے ماہ واضح ہوگی: نجم سیٹھی

درحقیقت بھارت ہم سے شروع سے ہی کرکٹ کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہے مگر ہمارا بورڈ اس سے منت سماجت میں مصروف ہے کہ ’’بھائی کھیل لو ورنہ بڑا مالی نقصان ہو جائے گا‘‘، انوراگ ٹھاکر نے بھارتی پنجاب میں جو واقعہ ہوا بغیر کسی ثبوت پاکستان پر الزام دھرتے ہوئے واضح کر دیا کہ سیریز نہیں ہو گی مگر ہمارا بورڈ پھر بھی منتیں کرتا رہا، بی سی سی آئی سیکریٹری نے پھر ٹویٹر پر یہ پیغام دے دیا کہ ’’ داؤد ابراہیم کراچی میں ہے اور آپ ہم سے کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے‘‘ ان سے کوئی پوچھے کہ اس کا کیا ثبوت ہے تو وہ خاموش ہو جائیں گے، ان تمام باتوں کے باوجود پی سی بی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور بھارت کے پیچھے پڑا ہے کہ سیریز کھیل لیں، یہاں وہ مثال صادق آتی ہے کہ ’’ایک شخص نے کسی لڑکی کو شادی کا پیغام دیا، اس نے اپنے گھروالوں کے ساتھ مل کر اس کی خوب پٹائی لگائی، وہ واپس اپنے گھر گیا، وہاں دوستوں نے حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا، اس پر جواب دیا کچھ نہیں یار شادی سے انکار تو نہیں کیا مگر یہ حالت بنا دی‘‘

میں مانتا ہوں کہ بھارت کے خلاف سیریز نہ ہونے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو بہت نقصان ہوگا، مگر یہ بتائیں کہ2007 سے پڑوسی ملک نے ہمیں کوئی باہمی مکمل سیریز کھیلنے کا موقع نہیں دیا تو کیا اس سے ہماری کرکٹ ختم ہو گئی؟ قذافی اسٹیڈیم لاہور سمیت ملک بھر میں بورڈ کے جو ہزاروں ملازمین ہیں کیا کبھی ایسا ہوا کہ انھیں تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہوئی ہو، یہ تو وہ ادارہ ہے جس نے کئی سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔

کوئی صاحب 2فائلیں ہاتھ میں دبائے دفتر آتے اور شام کو ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں، کوئی بغیر کام کیے اپنے آپ کو ’’شہنشاہ اکبر‘‘ سمجھتے ہیں، کسی پر حکام مہربان ہو کر ایسی ترقی دیتے ہیں کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں، تعریفی قصیدوں کی سابق کرکٹرز کو ادائیگیاں ہوتی ہیں، ہر بڑے افسر کو مہنگی گاڑیاں، پیڑول، موبائل فون سمیت تمام سہولتیں حاصل ہیں، انٹر یا مشکل سے گریجویٹ ملازمین بڑی بڑی پوزیشنز پر فائز، پوش علاقوں میں رہائش پذیر اور لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، صرف لاہور سے کراچی جانے کا ہزاروں روپے ٹی اے ڈی اے لیا جاتا ہے، کیاایسا ادارہ غریب ہو سکتا ہے؟ اتنے اخراجات تو امیر کبیر بھارتی بورڈ بھی نہیں کرتا ہو گا۔

ابھی حال ہی میں پی سی بی نے کھلاڑیوں کے تمام بونس بحال کر دیے، اب صرف گراؤنڈ میں قدم رکھنے پر ہی کوئی انعام نہیں ہے ورنہ ففٹی، سنچری،5وکٹ ہر کام پر لاکھوں روپے دیے جائیں گے، دلچسپ بات یہ ہے کہ 4،5لاکھ روپے کی ماہانہ تنخواہ اور ہر میچ کی لاکھوں روپے فیس الگ ہے، دیوالیہ کے قریب کوئی بورڈ کیسے اتنی مراعات دے سکتا ہے؟ اسی طرح پی سی بی اب سپر لیگ کرانے جا رہا ہے۔

انعقاد سے قبل ہی اس میں کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے تو پھونکے جا چکے، کنسلٹنسی فرم کو بھاری فیس کی ادائیگی، سلمان سرور بٹ کو 10 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ پر ملازم رکھنا، ہر چند دن بعد ملازمین کی فوج کا دبئی اور قطر جا کر بزنس کلاس کے سفر، فائیو اسٹار ہوٹلز میں سفر، رینٹ اے کار اور الاؤنسز پر پیسہ پانی کی طرح بہانا، ایسا کوئی سا غریب بورڈ کرتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ پی سی بی کے پاس اب بھی اربوں روپے موجود اور مزید کئی سال اس کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خدشہ نہیں، آئی سی سی کے ایونٹس میں شرکت اور اسپانسرشپ سے ہی اسے اتنی رقم مل جاتی ہے کہ شاہانہ اخراجات آسانی سے پورے کیے جا سکتے ہیں،اس لیے دیوالیہ ہونے کی باتیں کر کے قوم کو بے وقوف نہ بنایا جائے، آپ خود سوچیں کہ کسی گھر میں کوئی جنازہ رکھا ہو تو کیا اس کا مکین قاتل پڑوسی سے کہے گا کہ آؤ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلو، نہیں ناں، بھارت نے حال ہی میں ہمارے فوجیوں اور عام شہریوں کو شہید کیا اس کے باوجود ہم کیسے ان سے کھیلنے کے لیے بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔

ان کی فلم’’ فینٹم‘‘ میں پاکستان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا، ایک اور فلم میں ہمارے ملک کا بے تحاشا مذاق اڑایا گیا، اس کے باوجود فلموں کی یہاں نمائش جاری ہے اور بھارت نہیں کہہ رہا کہ ’’دہشت گردی رکنے تک نمائش نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ اس سے اسے مالی فائدہ ہوتا ہے، میں بھی چاہتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوشگوار ہوں مگر ایسا برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔

اگر صرف کرکٹ سے یہ ممکن ہوتا تو دونوں ممالک میں کئی جنگیں نہ ہوتیں، جب تعلقات خراب ہوتے ایک سیریز رکھ کر اچھے کر لیے جاتے، کھیل دوستوں کے ساتھ کھیلے جاتے ہیں اور بھارت ہمارا کتنا دوست ہے یہ سب جانتے ہیں، شعیب اخترکا چونکہ وہاں سے مالی مفاد وابستہ ہے اس لیے انھوں نے بھارتی رویے کی مذمت نہیں کی مگر بات وہی کہی کہ جب تک حالات نارمل نہیں ہوتے سیریز کا انعقاد درست نہ ہو گا،پاکستانی بورڈ کو خود ہی یہ اعلان کر دینا چاہیے تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا، نجم سیٹھی نے بگ تھری کی حمایت کرتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کیے تھے ان کا کیا ہوا؟

بھارت تو بالکل لفٹ کرانے کو تیار نہیں،صاف ظاہر ہے کہ پی سی بی حکام کی نظروں میں اس وقت سب سے زیادہ اہمیت پیسے کی ہے، بھارت سے کھیل کر پیسہ کما لیں، سپر لیگ سے ڈالرز بٹوریں،یہ کوئی بری بات نہیں مگر ساتھ یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ہماری ٹیم اس وقت کہاں کھڑی ہے، ون ڈے میں آٹھویں پوزیشن کے حصول یا بنگلہ دیش کی رینکنگ ہم سے اچھی ہونے کا ماضی میں کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا، مگر افسوس کہ ایسا اب ہو چکا ہے، ورلڈکپ اور دورئہ بنگلہ دیش میں ٹیم کی جو درگت بنی وہ بھی سب کے سامنے ہے، کارکردگی میں بہتری کیسے لائیں اس کا کوئی نہیں سوچ رہا ہاں ڈالرز کیسے کمائیں سب کی نظریں اس جانب ضرور ہے۔

جب عدالتی کارروائی سے ذکا اشرف نے نجم سیٹھی کو خوب پریشان کیا ہوا تھا تو انھوں نے بہت عمدگی سے مسئلہ حل کیا، خود لکھ کر دیا کہ چیئرمین کی پوسٹ کا امیدوار نہیں ہوں گا، پھر پیٹرن انچیف نے گورننگ بورڈ کا رکن نامزد کر دیا، اس کے بعد طاقتور ایگزیکٹیو کمیٹی بنی اور وہ اس کے چیف، اب صورتحال یہ ہے کہ سپرلیگ کی پریس کانفرنس میں کیمروں کے سامنے وہ اعلانات کر رہ تھے اور چیئرمین بورڈ دور دور تک موجود نہ تھے۔

سب جانتے ہیں کہ اس وقت بورڈ کا اصل سربراہ کون ہے، شہریار خان تنازعات سے بچنے کے لیے خود ہی محاذ آرائی نہیں کرنا چاہتے، مگر سوچنے کی بات ہے کہ انھیں یہ یاد دلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ’’ میں منتخب چیئرمین اور نجم سیٹھی نامزد کردہ آفیشل ہیں، لہذا میری اہمیت زیادہ ہوئی‘‘ گوکہ وہ لاکھ کہیں کہ بورڈ میں کوئی تقسیم نہیں لیکن حقیقت سب جانتے ہیں، بڑوں کے مسائل اب تو چھوٹوں تک بھی پہنچ گئے ہیں۔

کم از کم میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ایسا کرکٹ بورڈ نہیں دیکھا، معاملات خاصی ابتری کا شکار ہیں اور وہ ٹیم کی کارکردگی سے بھی عیاں ہے، ابھی تشکیل نو کے مراحل سے گذرنے والی سری لنکن ٹیم اور اس سے قبل کمزور زمبابوے کو ہرانے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے، اصل امتحان انگلینڈ سے سیریز میں ہوگا، زمبابوے سے ہوم سیریز میں پیسہ پانی کی بہایا گیا، خوب اعلانات ہوئے کہ ملک کرکٹ کے لیے محفوظ ہے، پھر اچانک سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا،سب سے بڑا مذاق پاکستان سپر لیگ کا قطر میں انعقاد ہے۔

کم از کم ایونٹ کا نام تو بدل دینا چاہیے تھا، اس وقت بورڈ نے خزانے کے منہ کھولے ہوئے ہیں، پلیئرز کو کروڑوں روپے دے کر خریدنے کی باتیں ہو رہی ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنا پیسہ واپس بھی آئے گا، کہیں یہ تو نہیں ہو گا کہ اربوں روپے پھونک کر نقصان کا رونا رویا جائے اور پھر کہیں کہ یہ پہلا ایونٹ تھا مستقبل میں فائدہ ہو گا، جلد بازی میں سپر لیگ کا انعقاد انا کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔

بعض آفیشلز نے یہ سوچا کہ بس اب ایونٹ کرا کے دکھانا ہے، اب ان کے لیے اسٹار کرکٹرز کا حصول بھی بڑا چیلنج ہے، پہلے بھی کئی بار لکھ چکا کہ فروری میں صرف ویسٹ انڈیز اور پاکستان ہی فارغ ہیں، معروف ریٹائرڈ کرکٹرز یو اے ای میں ماسٹرز لیگ کھیلنے چلے جائیں گے، اب بچے اپنے کھلاڑی تو وہ بیچارے تو چند لاکھ روپے میں پاکستان میں بھی کھیل لیتے، اتنی دور قطر جانے کی کیا ضرورت ہے۔

ویسے ایونٹ کو فکسنگ سے محفوظ رکھنا بھی بڑا چیلنج ہوگا، دنیا کی کوئی لیگ اس لعنت سے محفوظ نہیں، بھارتی بکیز نے جس طرح سری لنکن اور بنگلہ دیشی لیگز کو داغدار بنایا یقیناً پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہ کوئی سازش تیار کریں گے، ایسے بھی بورڈ کو خصوصاً ٹیموں کی فروخت میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے، سرمایہ کاروں کی آڑ میں کہیں بکیز ٹیموں پر فابض ہو گئے تو نیا اسکینڈل منتظر ہو گا۔

سری لنکا میں مشکوک افراد نے الگ ناموں سے ٹیمیں خرید رکھی تھیں،یہ باتیں پہلے بھی لکھ چکا دہرانے کا مقصد کرکٹ بورڈ کو محتاط کرنا ہے،ہر پاکستانی کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ سپر لیگ کامیاب ہو مگر زمینی حقائق الگ ہی کہانی سناتے ہیں، کہیں یہ نہ ہو کہ ایونٹ کے بعد پھر کشکول لے کر بھارت کے سامنے کھڑے ہوں کہ ’’پلیز سیریز کھیل لیں‘‘۔

اس وقت ہمارے بورڈ کو دیگر بورڈز سے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں، انگلینڈ نے ہمیں اپنے گراؤنڈز بطور نیوٹرل وینیو دیئے اور ہم نے جواب میں انھیں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا تحفہ دیا، اب آئندہ سال اس داغ کو ختم کرنے کا موقع ملنے والا ہے تو ہم نے سلمان، آصف اور عامر کی واپسی کا شوشا چھوڑ دیا، اپنی عوام سے بھی میں یہ کہوں گا کہ سزا یافتہ کرکٹرز کی واپسی پر ہار پھول پہنا کر ان کا استقبال نہ کریں۔

انھوں نے ملک کو بیچا تھا، یہ درست ہے کہ سزا مل چکی مگر انھوں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جس پر استقبال کیا جائے یا مٹھائیاں بانٹیں، اس سے باہر لوگ ہم پر ہنستے ہوں گے، تینوں کرکٹرز کو فرسٹ کلاس کرکٹ تک محدود رکھنا ہی مناسب ہو گا، چاہے ٹیم سارے میچ ہارتی جائے مگر سلمان، آصف اور عامر کو دوبارہ واپس نہیں لانا چاہیے، ہاں فرسٹ کلاس میچزکھیلنے دیں، اظہر الدین، ہنسی کرونیے جیسے کرکٹرز پر پابندی سے بھارتی یا جنوبی افریقی کرکٹ ختم نہیں ہو گئی تھی،پاکستان میں بھی ایسا نہیں ہوا، مصباح الحق نے ٹیسٹ اسکواڈ کو تو قدموں پر کھڑا کر ہی دیا، ون ڈے میں بھی امید ہے کہ جلد کارکردگی بہتر ہو گی۔

ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے ماضی میں ملک کو بیچ کھایا انھیں اب بھی ہیرو بنایا ہوا ہے، وہ شان سے گھومتے پھرتے ہیں، کمنٹری اور کوچنگ سب کام کرتے ہیں، سلمان اور آصف کو ہار پہنائے جاتے ہیں، ایسے میں نیا کھلاڑی کیا اثر لے گا، وہ بھی سوچے گا کہ جہاں سے آئے پیسہ کماتا ہوں، فلاں بھائی نے بھی کیا کچھ نہیں ہوا وہ اب بھی ہیرو ہیں، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی، اصل ہیروز کو سرآنکھوں پر بٹھائیں، دولت کے پیچھے ملک کو بے عزت کرانے والوں کو بالکل لفٹ نہیں کرانی چاہیے، اسی صورت ہم نئی نسل کو اچھی راہ دکھا سکیں گے۔

آخر میں کچھ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اور پی سی بی کے تنازع کا ذکر ہو جائے، ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک ٹیم کو کوالیفائنگ راؤنڈ کھلانے پر مسئلہ اٹھا، بعد میں کے سی سی اے کی تقریب میں دانش کنیریا کو مدعو کرنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا، پھر بورڈ نے سخت تقریر کرنے والے آفیشل کے نیشنل اسٹیڈیم داخلے پر پابندی لگا دی،یوں معاملہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، اب ایسوسی ایشن نے اپنے اجلاس کے بعد بورڈ کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر تاحال کوئی مثبت جواب نہیں آیا، یہ تنازع اب حل کرنا چاہیے ورنہ کچھ اور رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ایسوسی ایشن کے صدر اعجاز فاروقی نے پہلے خود نئے سسٹم کو تسلیم کیا مگر بعد میں انھیں یہ غلط محسوس ہوا تو مخالفت کرنے لگے، اسی طرح کنیریا کے معاملے میں غلطی کی بھی ایسوسی ایشن نے معافی مانگ لی، ہمارے ملک میں اسپاٹ فکسنگ کرنے والوں کو دوسرا موقع دینے کی بات ہو رہی ہے، ایسے میں کے سی سی اے کو کیوں نہیں؟ اگر اسے ڈومیسٹک سسٹم پر تحفظات ہیں تو انھیں دور کیا جائے، اس وقت اگر کوئی سخت ایکشن لیاگیا تو اعجاز فاروقی ’’شہید کرکٹ‘‘ بن جائیں گے۔

پھر نیا صدر بھی آ کر یقینا پرانا موقف ہی اختیار کرے گا، اسے بھی کراچی کے کھلاڑیوں کا مفاد ہی عزیز ہوگا،یوں مسئلہ جوں کا توں رہے گا، اسے افہام و تفہیم سے نمٹانا ہی بہتر ہے، ابھی ٹی ٹوئنٹی ایونٹ ہونے والا ہے پھر قائد اعظم ٹرافی ہو گی، بورڈ نے اگر خود ٹیمیں منتخب کر بھی لیں اور ان کی کارکردگی ناقص رہی تو ایسوسی ایشن کا کیس مضبوط اور پی سی بی کی پوزیشن خراب ہو جائے گی، اسے پھر مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے میں بہتری اسی میں ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر مسئلہ حل کیا جائے، بورڈ اگر اپنی ہی ایسوسی ایشنز سے لڑتا رہا تو ملکی کرکٹ زوال کی گہرائیوں میں گرتی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔