افریقی ملک بینن میں مرنے والے بچوں کے پتلے بناکر انہیں اسکول بھیجا جاتا ہے

ویب ڈیسک  اتوار 30 اگست 2015
 عقیدے کے مطابق اگر ان پتلوں کا درست طورپر خیال نہیں کیا جائے تو روحیں ناراض ہوجاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

عقیدے کے مطابق اگر ان پتلوں کا درست طورپر خیال نہیں کیا جائے تو روحیں ناراض ہوجاتی ہیں۔ فوٹو: فائل

بینن: افریقی ملک بینن میں فوت ہوجانے والے مردہ بچوں سے مشابہہ پُتلے بناکر ان کے لیے کھانا کھلانے، کپڑے پہنانے اور اسکول بھیجنے سمیت تمام روزمرہ کام کئے جاتے ہیں۔

پسماندہ اور غریب اس افریقی ملک میں بچوں کی وفات عام ہے اور لوگ اپنے جڑواں بچوں کی موت کا غم دور کرنے کے لیے ان کی مورتیاں بناکرزندہ بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے ہیں ۔ اس ضمن میں فون قبیلے کے افراد کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ان کے بچوں کی روح پتلیوں میں چلی جاتی ہے اور اگر ان کا خیال رکھا جائے تو وہ خاندان کو خوشی یا غم دے سکتےہیں۔

ہر روز ان گڈے اور گڑیوں کو لوری دے کر سلایا اور صبح کو اٹھایا جاتاہے۔ زندہ بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے ہوئے انہیں کھانا دیا جاتا ہے اور نئےکپڑے پہنائے جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں اسکول بھی بھیجا جاتا ہے۔ اگر ان کے والدین مصروف ہوں تو گاؤں کے دیگر بزرگ ان بچوں کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن ہر بچے کا پتلا نہیں بنایا جاتا بلکہ صرف جڑواں بچوں  کی شبیہیں بنائی جاتی ہیں کیونکہ اس علاقے میں جڑواں بچوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور 20  بچوں میں سے ایک جڑواں ولادت ہوتی ہے۔

بچوں کی وفات کے بعد ان کا گڈا بہت توجہ سے بناکر باہر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ باقی لوگ بھی اسے دیکھ سکیں۔ بچوں کے ان پتلوں پر بد اثرات اتارنے کے لیے انہیں ہفتے میں ایک دفعہ ندی میں نہلایا جاتا ہے۔  عقیدے کے مطابق اگر ان کا درست طورپر خیال نہیں کیا جائے تو روحیں ناراض ہوجاتی ہیں اور گھر میں مسائل آجاتے ہیں اور اسی طرح یہ پتلیاں انہیں بیرونی مصائب سے بھی بچاتی ہیں۔

قبیلے کے افراد کے مطابق روحوں والی پتلیوں کے لیے چھوٹا فرنیچر اور دیگر چھوٹا سامان بھی تیار کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔